وہ لوگ ڈوب چکے ہیں جو بحر ِ ذلت میں
انہیں سدھارنے کو لاؤ نبؐی کی امت میں
وہ نصف میرا اور آدھا جہاں بھر کا ہے
گھمائے رکھتا ہے وہ سب کو نصف عادت میں
وہ مصلحت کے تقاضوں کو جانتے ہی نہ ہو
گرفت ہوتی گئی ہر نئی وضاحت میں
اسے یہ دکھ نہ چاہا گیا اسے پورا
ہمیں یقین کی ڈوبے ہیں اس کی چاہت میں
کہا تھا طبع میں رکھو سدا میانہ روی
بالآخر ٹوٹ گیا ایک دن وہ شدت میں
اسد تمہاری زبان میں خدا نے دی تاثیر
عجب سرور خدا نے رکھا فصاحت میں
کلام- عمران اسؔد
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔