یہ دوہرا نہیں تہرا نظام تعلیم ہے
تعلیمی نظام کی خرابی کو ہم لارڈ میکالے کی غلطی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا ہے کہ جو تعلیمی نظام سنہ 1815ء میں میکالے نے متعارف کروایا تھا اسے آج تک ہم نے تبدیل کیوں نہیں کیا یا ابھی تک ہم نے اسے جاری کیوں رکھا ہوا ہے؟ حیرانی اور تعجب کی بات یہ ہے کہ جو پڑھا لکھا طبقہ اس نظام میں کیڑے نکالتا ہے وہ خود بھی اسی نظام کا تعلیم یافتہ ہوتا ہے۔ بلکہ اب تو پاکستان میں انگریزی سکولوں کی اتنی بھرپور مار ہے کہ ہر چھوٹے بڑے شہر کی دوسری نکڑ پر انگلش میڈیم سکول کا بورڈ نظر آتا ہے۔
پرائیوٹ انگلش میڈیم سکولوں میں بچے پڑھانا اب ایک "فیشن” اور "مجبوری” بن چکا ہے۔ سچی بات ہے سرکاری سکولوں سے ان انگلش میڈیم سکولوں کے نتائج بھی بہتر آتے ہیں۔ ان سکولوں کی دیواروں پر مختلف اقوال درج ہوتے ہیں اور ان طلبہ و طالبات کے نام وغیرہ بھی کندہ ہوتے ہیں جو بورڈ میں ٹاپ پوزیشنز حاصل کرتے ہیں۔ گو کہ یہ انگلش میڈیم سکولز ہمارے معاشرے پر ایک کلنک کا ٹیکہ ہیں جو ہمارے معاشرے میں دہرے نظام تعلیم کی علامت ہیں اور ہماری نوجوان نسل میں منافقت، نفرت اور طبقاتی تقسیم کا باعث بنتے ہیں، مگر اونچی پیڑھی کے لوگ اپنے بچوں کو ان سکولوں میں پڑھانا قابل فخر حد تک "ناک کا مسئلہ” سمجھتے ہیں کیونکہ جو بچے سرکاری سکولوں میں مفت یا کم فیسیں دے کر پڑھتے ہیں انہیں عموما غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والی نسل قرار دیا جاتا ہے۔ کسی حد تک یہ طعنہ درست بھی ہے کہ ایوانوں میں نمائندگی سے لے کر اعلی عہدوں اور بیوروکریسی میں خدمات انجام دینے والے افسران کے اعداد و شمار اکٹھے کیئے جائیں تو حیران کن حد تک پتہ چلتا ہے کہ وہاں "اشرافیہ” ہی براجمان نظر آتی ہے جو انہی "انگلش میڈیم سکولوں”، "ایچی سن”، "فوجی” اور "کانونٹ سکولوں” ہی کی فارغ التحصیل کھیپ ہوتی ہے۔
اس پر مستزاد ہمارے پورے ملک میں مدرسوں کا بھی ایک جال بچھا ہوا ہے جن کی رجسٹریشن کے بارے میں آجکل ایوانوں میں بھی شور و غوغا ہے۔ لیکن انگلش میڈیم سکولوں کا یہ بدترین المیہ ایک طرف ہے، خود ان مدرسوں کے نظام ہائے تعلیم کا جدید تعلیم سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہاں انگلش زبان پڑھانا اور مدارس کے طلباء و طالبات کے کورسز وغیرہ کو جدید سائنسی علوم سے ہم آہنگ کرنا تو بہت ہی دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہے۔ ٹھیک ہے مدارس اسلامی اقدار کی خدمات انجام دے رہے ہیں مگر انہیں قومی دھارے میں لانا اور عالمی فہم کے قریب کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا اسلامی اقدار کی حفاظت کرنا اہم ہے کیونکہ دنیا کو ہم اسلام کا روشن اور جدید پہلو نہیں دکھائیں گے تو وہ اسلامی تعلیمات کی طرف متوجہ ہونگے اور نہ ہی مدارس کے فارغ التحصیل طلباء اس میں اپنا کما حقہ کردار ادا کر سکیں گے۔
ہمارا بنیادی مسئلہ تحقیق و تحریر سے دوری ہے۔ زندگی کے کسی بھی شعبے میں تحقیقی بنیادی پر کام کرنا عصر حاضر کی اولین ضرورت ہے کیونکہ اب کائنات اور زندگی کے تمام شعبوں کو سائنسی بنیادوں پر دیکھا اور پرکھا جا رہا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ایک تو تحریر و تحقیق سے کوسوں دور ہیں، دوسرا ہم اپنی اس کمی کو دور کرنے کے لیئے بھی تیار نہیں ہیں۔
جب سنہ 1815ء میں لارڈ میکالے نے ہندستان میں تعلیم کا خاکہ کھینچا تھا تو انہوں نے انگلستان کی قومی ضروریات اور تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا تھا کیونکہ تب برصغیر پر گوروں کی حکمرانی تھی۔ تہذیب و کلچر ہمیشہ فاتح اقوام کا ہوتا ہے۔ اس وقت ان کے پیش کردہ نظام تعلیم سے ایک نئی تبدیلی رونما ہوئی تھی۔ ایک گروہ کا خیال تھا کہ مشرقی علوم کو مشرقی زبان میں سیکھنا چایئے، اور دوسرے گروہ کا ماننا یہ تھا کہ نہیں اسے انگریزی زبان ہی میں رائج کیا جائے۔ تب میکالے نے دوسرے گروہ کا ساتھ دیا تھا اور اپنی وہ مشہور رپورٹ لکھی تھی، جس میں اس نے لکھا تھا کہ ہندستان کو ایک نئی زبان سیکھنا چایئے اور نئے علوم و فنون کو سیکھ کر ترقی کا راستہ طے کرنا چایئے۔
یہاں ایک طبقہ یہ دعوی کرتا ہے کہ لارڈ میکالے سے ایک زبردست غلطی ہو گئی۔ اس نے ملکی زبانوں کو نہایت حقارت سے دیکھا اور انہیں کسی قابل نہیں سمجھا، جس کی وجہ سے بڑی خرابیاں پیدا ہوئیں، جو ہمارے نظام تعلیم میں آج تک جاری ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ملکی زبانوں کی طرف توجہ نہ دینے کے مسئلہ میں میکالے نے جو غفلت برتی، اس کے پیچھے ان کا سیاسی پس منظر تھا۔ حکمرانی کا جو دروازہ انگلستان کے لئے کھل گیا تھا وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح اسے محفوظ کر لیا جاۓ۔ اس لیئے لارڈ میکالے نے کوشش کی کہ تعلیم کا ذریعہ وہ زبان ہو، جو ملک کی مادری، قومی، روایتی، معاشرتی اور تاریخی نہیں، بلکہ ایک سمندر پار کی زبان ہو۔ گو کہ یہ فیصلہ مصنوعی تھا۔ کوئ قوم، کسی اجنبی زبان کو اپنی دماغی اور فکری زندگی کا ایک منٹ کے لئے بھی ذریعہ نہیں بنا سکتی۔ اگر وہ بناۓ گی بھی، تو کوئ صحیح چیز وہ تخلیق نہیں کر سکتی۔ بلکہ اس کی ایک مسخ شدہ صورت البتہ پیدا ہو سکتی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہاں ایک سو تیس برس کی تعلیم کے بعد بھی وہ نتائج پیدا نہیں ہو سکے، جو دوسرے ممالک میں بہت تھوڑے عرصے میں پیدا ہوئے ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ میکالے نے مقامی زبانوں کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا تاکہ سرکاری زبان غیرمقامی ہو تاکہ عوام اور حکمرانوں میں خلیج رہے اور اس سے میکالے نے وہ بنیاد رکھی جو آج بھی قائم و دائم ہے، اور ایک نومولود مگر بظاہر ایک آزاد ملک پر آج بھی انگریزی بولنے والی اشرافیہ قابض ہے۔
بظاہر ہم آزاد ہیں مگر درحقیقت ہم آزاد نہیں ہیں۔ ہماری قومی زبان اردو ہے۔ اردو کے قومی زبان ہونے کے عدالتی احکامات بھی موجود ہیں مگر اردو ہماری سرکاری زبان نہیں ہے۔ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں تک ہر جگہ اور مقابلے کے امتحان تک انگریزی زبان میں لیئے جاتے ہیں۔ اوپر سے مدرسوں کا نظام درسی اور ہی کہانی بیان کرتا ہے جو دہرے نہیں بلکہ تہرے نظام تعلیم کی عکاسی ہے۔
اگر ہم ترقی کے خواہاں ہیں تو حکومت کو چایئے کہ نظام تعلیم کی درستگی کے لیئے ایک ایسا "تعلیمی تحقیقی بورڈ” قائم کرے جو پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کی سفارشات پیش کرے، خاص کر ہر کلاس و جماعت کے تعلیمی کورس میں ایسے تحقیقی مضامین اور تحریریں شامل کرائے جو جدید دور کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ضروریات اور تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |