تیسرے درجے کے مسافر
Third Class Passengers
تحریر :
سیّدزادہ سخاوت بخاری
یہ لگ بھگ 1956 ء کی بات ہوگی ، پاکستان کو ظہور پذیر ہوئے ابھی 9 سال ہوئے تھے کہ ہم نے شعور کی آنکھ کھولی اور ارد گرد کے مناظر و اشیاء کو سمجھنا شروع کیا ۔
اس زمانے میں ، پاکستان کے طول و عرض کے اندر سفر کرنے کا واحد ، سستا اور آسان ذریعہ ریل گاڑی تھی ۔ کوئلے سے چلنے والے کالے انجن کے ساتھ بندھے ہرے رنگ کے خستہ حال ڈبے ( Coaches ) سفری سہولت کے علاوہ ہم بچوں کے لئے تفریح کا سامان بھی مہیاء کرتےتھے ۔ تفریح ان معنوں میں کہ ایک طویل ڈبے میں آمنے سامنے لکڑی کے بینچ لگے ہوئے ہیں ، ماں باپ یا بڑے ان پر بیٹھ کر دیگر مسافروں سے گپ شپ میں مصروف اور ہم بچے کبھی ادھر دوڑ رہے ہیں کبھی ادھر اور کبھی کھڑکیوں کے پاس کھڑے ہوکر باہر کے مناظر سے لطف اندوز ہوتے ۔ ویسے بھی ریل گاڑی جب دوڑ رہی ہو تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ہم باہر کی کھلی فضاء کے پردے پر کوئی فلم دیکھ رہے ہیں ۔ کہیں درختوں کے جھنڈ ، کہیں چھوٹی سی آبادی ، برساتی نالے ، کہیں بھیڑ بکریاں چرانے والے چرواہے ، پہاڑ ، میدان ، دریاء اور جنگل دوڑتے نظر آئینگے ۔ پھر جیسے ہی کوئی خطرناک موڑ یا اسٹیشن قریب آتا تو بھاپ سے چلنے والے کالے انجن سے کوئل سی کوک والی سیٹی کو کو کرکے سنائی دیتی ۔
چلتی گاڑی میں اچانک سے ایک بندہ نمودار ہوتا ۔
بوتلیں ٹھنڈی بوتلیں بھئی ۔
وہ جاتا تو دوسرا ,
چائے گرماگرم
کی آواز لگاتے ہوئے آجاتا ۔
ریل گاڑی میں گارڈ اور ڈرائیور کے علاوہ ایک اہم کردار ٹی ٹی کا ہوتا تھا ۔ سفید وردی پہنے ان صاحب کا کام ٹکٹ چیک کرنا ہوتا ہے تاکہ کوئی سواری بغیر ٹکٹ سفر نہ کرسکے ۔ نئی نسل کے علم کے لئے بتاتا چلوں کہ اولیں دور یا 1950 کی دھائی میں ریلوے ملازمین کی اکثریت کا تعلق اردو اسپیکنگ پاکستانیوں سے تھا جو تقسیم کے وقت ہندوستان ریلوے کےملازمین کی حیثیت سے یو پی ، دلی ، بہار اور دیگر علاقوں سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے ۔ مجھے ابتک یاد ہے کہ ہر ٹی ٹی اور گارڈ کے منہ میں پان کی گلوری ہوا کرتی تھی ۔
یہاں اس بات کا اعتراف کرنا ضروری ہے کہ یوپی ، دلی ، بہار ، مشرقی پنجاب اور حیدرآباد دکن سے آئے ان ہی مہاجر پاکستانیوں نے پاکستان ریلوے ہی نہیں بلکہ سول بیوروکریسی کی بنیاد رکھ کر اسے آگے بڑھایا ۔ البتہ مسلح افواج کو منظم کرنے اور دنیاء کی بہترین فوج بنانے میں مغربی پنجاب ، صوبہ سرحد اور دیگر علاقوں کے بہادر لوگ کل بھی صف اول میں تھے اور آج بھی اس وطن کی حفاظت کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتے ۔
1947 میں بٹوارے کے نتیجے میں جو ریلوے نظام ہمارے حصے میں آیا اس کا نام تھا ،
نارتھ ویسٹرن ریلوے . گاڑی کے ڈبوں اور انجن پر NWR لکھا ہوتا تھا ۔ بعد میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی مناسبت سے ، ہمارے ہاں ، اسے پاکستان ویسٹرن ریلوے کرکے مغربی پاکستان میں مخفف یا مختصر الفاظ میں PWR لکھا جانے لگا اور باالآخر جب مشرقی پاکستان گنوا بیٹھے تو درمیان سے W نکال کر اسے پاکستان ریلویز یعنی PR کردیا گیا ۔ اللہ اللہ خیر سلا ۔
اتفاق کی بات ہے مجھے بچپن سے جوانی تک ریل گاڑی میں سفر کے بیشمار مواقع ملے ۔ ریلوے کے نظام کو قریب سے دیکھا ۔ اگر یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ ریلوے اپنے اندر ایک دنیا ہے ۔ ویسے تو ہم انگریز کو اچھا نہیں سمجھتے کیونکہ انہوں نے برطانیہ سے آکر ہمیں غلام بنایا اور 150 برس سے بھی زیادہ مدت تک ہم پہ آقا بن کر حکومت کی لیکن اگر ان کے دور میں کوئی اچھے کام بھی ہوئے تو انہیں سراہنے میں کیا حرج ہے ۔ مثلا پاکستان ریلوے کو ہی دیکھ لیجئے ، کسی عجوبے سے کم نہیں ۔ اس زمانے میں جب کاریں تھیں ، نہ ویگنیں ، بسیں تھیں نہ فلائینگ کوچز ، انہوں نے اپنی رعایا کو سفری سہولتیں مہیاء کرنے کی خاطر ، متحدہ ہندوستان کے طول وعرض میں دنیاء کا سب سے بڑا ریلوے نظام قائم کردیا جو آج بھی ہمارے زیر استعمال ہے ۔ یہ الگ بات کہ ہم نے متعدد برانچ لائنوں کی پٹڑیاں اکھاڑ کر کباڑ میں فروخت کردیں اور ریلوے کی زمینوں پر لینڈ مافیا نے قبضہ کرلیا ۔
لکھنا تو زندگی پر تھا لیکن میں ریلوے کو لے بیٹھا ۔ ایسا اس لئے ہوا کہ ، میرے خیال سے ، زندگی بھی ریل گاڑی ہی کی طرح کا ایک سفر ہے ۔ مسافر چڑھ رہے ہیں ، اتر رہے ہیں یعنی نئے لوگ دنیا میں آرہے ہیں ، پرانے جارہے ہیں لیکن زندگی ان سب باتوں سے بے نیاز ، اپنی دھن میں مگن ، سیٹیاں بجاتے دوڑے چلی جارہی ہے ۔
آپ میں سے اکثر نے ریل گاڑی میں سفر کیا ہوگا ۔ انگریز کی بنائی اس گاڑی میں مسافروں کی درجہ بندیاں ہیں ۔ درجہ اول ( First Class ) , درجہ دوم ( Second Class ) , درمیانہ درجہ ( Inter ) اور سب سے زیادہ بوگیوں پر لکھا ہوتا ہے ، درجہ سوئم یا
تیسرے درجے کے مسافروں کے لئے یعنی
( Third Class Passengers ) اور یہی نقطہ / جملہ ، میرا آج کا موضوع ہے ۔
عام گفتگو میں اگر کسی کو گھٹیا ثابت کرنا ہو تو ہم اسے تھرڈ کلاس بندہ کہ دیتے ہیں ۔ جو ایک گالی سے کم نہیں لیکن انگریز ریل گاڑی کے 99% بوگیوں پر ہمیں تھرڈ کلاس کے مسافر لکھ کر چلا گیا اور ہم نے کبھی غور ہی نہیں کیا کہ اس جملے کا مطلب کیا ہے ۔ وہ جانتا تھا کہ ہماری اکثریت تھرڈ کلاس سے تعلق رکھتی ہے ۔ ریل گاڑی ہی نہیں بلکہ انہوں نے تو پوری دنیاء کو تین حصوں میں تقسیم کرکے تیسری دنیاء یا تھرڈ ورلڈ کی اصطلاح نکالی اور نالائق یا پچھڑی ہوئی متعدد قوموں کو تھرڈ کلاس قرار دے دیا ۔ افسوس کی بات یہ کہ ، ایشیاء اور افریقہ میں بسنے والی کئی اقوام ، بڑے فخر سے اپنے آپ کو تیسری دنیا یا تھرڈ ورلڈ کا حصہ سمجھتے ہیں جبکہ انگریز کے نزدیک اس کا مطلب تھرڈ ورلڈ نہیں بلکہ تھرڈ کلاس ( Third Class ) ہے ۔
ویسے اگر غور کیا جائے تو انگریز کی ایجاد کردہ یہ اصطلاح کم از کم پاکستان کی حد تک صحیح معلوم ہوتی ہے ۔ 1947 سے لیکر آجتک ہم نے جو گل کھلائے ، جو کارنامے انجام دئے ، ان سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ ہم زندگی کا یہ سفر تھرڈ کلاس سوچ کے ساتھ ہی طے کررہے ہیں ۔
شاید بہت سارے قارئین کو میری بات بری لگے لیکن حقیقت یہی ہے ۔
ہم سے بعد میں آزاد ہونیوالے ممالک بالخصوص چین ، اسرائیل ، کوریا ، بنگلہ دیش وغیرہ ہر میدان میں ہم سے آگے نکل چکے لیکن ہم ابھی تک بھکاریوں کی طرح کشکول ہاتھ میں لئے کبھی آئی ایم ایف اور کبھی شیخوں کے دروازے پر صدا لگاتے پھر رہے ہیں ۔
اللہ کے نام پر سوال ہے بابا ۔
دے جا سخیا نام ِمولا ۔
آپ کے خیال سے اول درجے کی سوچ کا کوئی بندہ یا قوم ایسی حرکتیں کرتی ہے ۔ کبھی نہیں ۔ انگریز نے ہماری نفسیات پڑھی اور آج سے اڑھائی سو سال قبل ہمیں تیسرے درجے کے مسافر یعنی
( Third Class Passengers)
لکھ کر چلا گیا ۔
سیّدزادہ سخاوت بخاری
مسقط، سلطنت عمان
شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔