دادی خدیجہ صاحبہ 1895-1969
جو مری شبوں کے چراغ تھے
ہماری دادی جان کا نام نور جہان تھا۔ ان کے تین بھائی اور دو بہنیں تھیں ۔ عبد الجلیل ( طارق کے دادا) عبدا لعزیز( انوار کے دادا) عبدالحق ( میرے نانا) حمیدہ بانو( آفتابِ کی دادی) اور خدیجہ بی بی(اباجی کی تائی)۔ دادی خدیجہ سب سے بڑی تھیں ۔ وہ لاولد تھیں ۔ان کے میاں قاضی محمد جی۔۔ ایک خاندانی جھگڑے میں قتل ہو گئے اور وہ بیوہ ہوکر گنڈاکس سے اپنے پیکے ملہووالے آ گئیں۔
خدیجہ بانو 1920 میں بیوہ ہوگئی تھیں خدیجہ بانو کے شوہر کی وفات کے بعد ان کی چھوٹی بہن نور جہاں کی شادی ہوئی تھی۔
اباجی کی بہن ،والد اور والدہ یکے بعد دیگرے 1945 میں فوت ہو گئے۔ اباجی اپنے نانکے ملہووالے آ گئے۔ دادی خدیجہ نے ان کو سنبھالا ۔1946 میں ہماری نانی جان چیچک سے فوت ہوئیں۔ ان کی پانچ بچیاں بھی دادی خدیجہ کی زمہ داری میں آ گئیں ۔ 1949 میں دادی خدیجہ کے والد قاسم صاحب بیمار ہو گئے ان کی خدمت بھی دادی جان نے کی۔
ہمارے نانا جی پٹواری تھے ( نون لیگ والے نہیں بلکہ اصلی پٹواری ) ۔وہ نوکری کے سلسلے میں ملہووالے سے باہر رہتے تھے ۔ گاؤں میں انہوں نے گھاڑویں ( تراشیدہ گھڑے ہوئے) پتھروں کا مکان بنایا۔ یہ پتھر بڑی نفاست سے تیسے (تیشے) سےتراشے ہوئے تھے۔
اس گھر کی سربراہ دادی خدیجہ تھیں ۔ میرے والد اور والدہ بھی یہیں رہتے تھے۔ آرائیں بابے نانا جی کے مزارع تھے۔ فصل کٹنے پر غلہ پہنچا دیتے تھے ۔ اس گھر کی ڈیوڑھی کی دو سیڑھیاں تھیں۔ سیڑھیاں چڑھانے کے لئے کھوتی کو دھکا لگانا پڑتا تھا ۔دانوں کی بوریاں ۔۔اگے اندر (next room) میں سٹور کی جاتیں ۔ امی جان کی آٹے والی چکی بھی اسی کمرے میں تھی ۔یہ کمرہ پرائیویسی کی وجہ سے بوقت ضرورت لیبر روم / آئیسولیشن روم بن جاتا۔ ہمارے گھر کے اکثر بچوں نے اسی کمرے میں جنم لیا ۔1973 میں سانپ نے کاٹا تو بحکم دم سپیشلسٹ بابا صاحب خان مجھے دس دن کے لیےاس کمرے میں بند کر دیا گیا۔ گرمی کے یہ دن بجلی نہ ہونے کی وجہ سے سخت تھے۔دس دن مادر مہربان اور طبیب نامہربان کے علاوہ کسی کی شکل نہیں دیکھی۔
ماسٹر بیڈ روم کا نام وڈا اندر تھا۔اس میں دو پلنگ اور دو چارپائیاں تھیں۔ ان پر دادی خدیجہ ، خالہ شمیم اور بچہ لوگ سوتے تھے۔ ابا جی کا کمرہ نواں اندر کہلاتا تھا ۔اس میں دو پلنگ اور ایک چارپائی تھی. پلنگ رنگین پاووں والا جمبو سائز بیڈ ہوتا ھے اس کو صرف سالانہ فرش دھلائی کے موقع پر بڑے اہتمام اور احترام سے اپنی جگہ سے ہلایا جاتا تھا۔ ۔اینٹوں کے فرش کی دھلائی ایک خاص ایونٹ ہوتا تھا۔سکرب برش (scrub) سے رگڑ رگڑ کر اینٹیں صاف کی جاتی تھیں ۔سیمنٹ کے فرش کو سلیٹ فرش کہتے تھے اس کا رواج کم تھا۔ پلنگ بچھانے کا انداز اینڈ ٹو اینڈ end to end تھا۔ چوڑائی کے رخ اکٹھے دو بیڈ بچھا کر ڈبل بیڈ کا ٹچ دینے کا تصور ۔
برتر از قیاس و خیال و گمان و وہم تھا۔
لمبائی کے رخ بچھے دو پلنگوں پر ایكسٹرا لانگ کھیس ڈالا جاتا۔اس مہا ۔کھیس کا نام دوہر(dohar) ہوتا تھا ۔
دادی خدیجہ سلم سمارٹ پاورفل شخصیت تھیں ۔ ان کا کسی کے گھر جانا یاد نہیں پڑتا۔ سارا دن صبح سے کفتاں (عشاء) تک گاوّں کے مرد و زن آتے رہتے ۔ کوئی مشورہ لیتا۔کوئی سفارش طلب کرواتا۔ کوئی اپنا دکھڑا سنا کر آنسو بہا کر غم ہلکا کرتا۔ کوئی لوکل خبریں سنا کر چلا جاتا۔ ساس اپنی بہو کے گلے کر کے اٹھتی تو تھوڑی دیر بعد بہو اپنی ساس کے ظلم و ستم کا رونا رونے آجاتی ۔
روزانہ نماشاں (نماز شام) کے بعد بابا نیک اور ان کے بھائی بابا عباس آتے ان بزرگوں سے جو باتیں ہوتیں وہ ہم بچوں کی سمجھ میں نہ آتیں ۔اور بعض اوقات ٹاپک بھی سمجھ میں نہ آتا ۔
میری دادی اور نانی میری پیدائش سے پہلے فوت ہوگئی تھیں۔ دادی خدیجہ ان دونوں رشتوں کا نعم البدل تھیں۔ ہم لوگ ان کو دادی یا نانی کی بجائے ۔۔ما۔جی۔۔کہتے تھے۔ اور اپنی والدہ کو صرف ما کہتے تھے جی کے اضافے کے بغیر۔ باقی فیملی کے بچے اپنی والدہ کو امی کہتے۔ وہ ہنستے کہ دیکھو عبدالسلام سکول جاتا ہے پھر بھی جٹوں کی طرح اپنی والدہ کو ما کہتا ہے،امی نہیں کہتا ۔
دادی خدیجہ بچیوں کو قرآن مجید پڑھاتی تھیں۔ صبح صبح آٹھ دس بچیاں آجاتیں۔ کچھ سبق پڑھتیں اور کچھ باری باری استاد جی کے گھر کے کاموں میں مدد کرتیں اور کام کرنے کا ۔۔چج اور وسب ( سلیقہ) سیکھتیں۔ استاد جی کا گھر گویا finishing school. تھا۔ جھاڑو لگاتیں , ڈھیری (کوڑے)کو ڈھیر پر پھینک کر آتیں، استاد جی کی بکری شریف کو آجڑی ( گڈریے) shepherd کے گھر چھوڑنے جاتیں ، کھوہ سے گھڑا بھر کر لاتیں ۔۔مزید بر آں ۔۔اگر استاد جی کا کوئی کیوٹ سا پوتا / نواسہ ہوتا تو اس کو گود اٹھانے کے لیے آپس میں لڑتیں ۔ چاچے غلام شاہ قاضی کی بیٹی تعظیم باجی سے روایت ہے کہ مِنا عبدالسلام بھی اس قسم کی جنگوں کا سبب بنتا تھا ۔اس طرح ان کے تین گھنٹے پڑھنے اور سیکھنے اور گزرتے ۔ مُنے عبدالسلام کو گود میں اٹھانے کے قرآن مجید پڑھنے والی بچیوں میں لڑائی ہوتی تو بعض اوقات ماسٹر کرم الہی کی بیٹی ابرار عبدالسلام کو لےکر پڑوس میں اپنی نانی ۔۔مکھاں ۔۔کے گھر بھاگ جاتی ۔ نانی کہتی ۔۔ای استاداں نا لوڈا جاکت اے اس کو کہیں کچھ ہو نہ جاۓ اس کو گھر چھوڑ آؤ ۔
آداب و اطوار اور پڑھائی میں اچھا ہونے کی وجہ سے بخش جفت ساز (Cobbler) کی بیٹی دادی جان کی منظور نظر تھی ۔اس بچی کی شادی1970میں الہی بخش سے ہوئی۔ عبدالسلام دولہا کا سبالا (شہ بالا ـ grooms friend)تھا۔ کھانے میں لَوت مانگا تو پتہ چلا کہ اب اس کو سالن کہتے ہیں ۔
فسانے اپنی محبت کے سچ ہیں، پر کچھ کچھ
بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لئے
شیفتہ
دادی جان کا ڈسپلن بہت ٹائٹ تھا۔ گھر کے بچوں ، بڑوں اور پڑھنے والی بچیوں پر کڑی نظر ہوتی۔ عام طور پر ڈانٹ سے کام چل جاتا۔۔کبھی کبھار برکت کے واسطے ایک آدھ تھپڑ لگا دیتیں۔ اس برکت سے کبھی کبھی اس فقیر کو بھی حصہ مل جاتا۔اپنی بھتیجیوں کی تربیت ان کا سب سے بڑا کام (concern) تھا۔ وہ تحدیث بالنعمت کے طور پر فرماتیں۔اللہ کا شکر ہے کہ میری بھتیجیاں میری آنکھ کا اشارہ سمجھ جاتی ہیں ۔مجھے ان کو زبان سے کچھ کہنا نہیں پڑتا۔ بھتیجیوں کی شادیوں میں دادی جان کا فیصلہ حرف آخر ہوتا تھا۔
دادی خدیجہ صاحبہ بڑی نفاست پسند تھیں ۔ساری عمر ملہووالا کی بنی ہوی دیسی جوتی پہنی۔۔آدھا وضو کچے صحن میں کرتیں۔ پھر مصلے پر بیٹھ کر باؤل (bowl) میں پاؤں دهوتیں۔ہماری والدہ اور خالہ منیر جسامت ۔شکل و صورت اور نفاست میں اپنی پھوپهی خدیجہ صاحبہ پر گئی تھیں اور ان کی ٹرو کاپی تھیں
, دادی خدیجه جمعرات کو کھانےپر درود پڑھتی تھیں ۔ اس کے کچھ الفاظ یاد ہیں ۔ اگر کسی پرانی بڈھی یا پرانی مڈھی کو.. کھانے پر دیے یا پڑھے جانے والے درود 1960 کا version یاد ہو تو اصلاح فرمائیں
نذر خدا ارواح محمد مرسل نبی تمام •
اولاد انہاں دی ۔زوجات تے جوائی۔
عالم ۔زاہد۔کل۔
ما پیو میرا انہاں تھیں
بھی استاد خویش قبیلہ کل
جو کوئی مسلم مرد زن ربا فا نی ہو
بدلہ اس درود نا رہا بخشی سو
دادی خدیجہ صاحبہ عید کے دن اپنے گھر حلوہ پکانے سے فارغ ہو کر فیملی کے رنڈے بابوں کےگھر جاتیں اور ان کا حلوہ پکاتیں۔
1942 میں آپا عجائب اپنی پھو پھی خدیجہ بی بی کے ساتھ چوتھی جماعت کا سنٹرل امتحان کے لیے کمریال گئیں۔ ریاض ہاشمی احمدال کے والد محمد شاہ کمریال میں استاد تھے۔ انہوں نے آپا عجائب کو ریوڑیاں دیں۔ یہ چکوال کی پہلوان ریوڑیاں نہیں تھیں بلکہ خلوص مارکہ ریوڑیاں تھیں اسی لئے ان کی لذت آپا عجائب کو پچہتر سال تک یاد رہی ۔آپا عجائب ہماری سب سے بڑی خالہ اور میری بیگم صاحبہ کی والدہ تھیں ۔ان کا انتقال 2020 میں ہوا۔
دادی خدیجہ بانو کا انتقال 1969میں ہوا۔ اباجی اور چاچا الطاف اس وقت کیمبل پور میں تھے۔ اباجی اپنے پیر صاحب کے پاس ڈی جی خان گئے ہوئے تھے۔ چا چے الطاف صاحب نے عبدالسلام اور اسکی اپنی بہنوں کو سکول سے چھٹی کروائی اور سب کو ملہو والا لے گئے۔
لالاجی اکرام کہتے ہیں- اس وقت میں اپنے والد کے ساتھ راولپنڈی میں تھا۔ پڑوسی فضل داد راولپنڈی افسوسناک خبر لے کر آیا۔ میں اسے سب رشتہ داروں کے گھر لے گیا۔ راولپنڈی سے گنڈاکس کے لیے صرف ایک بس دوپہر کے وقت روانہ ہوئی تھی۔ نماز جنازہ میں شرکت کے لیے وقت پر پہنچنا ہمارے لیے ممکن نہ تھا۔ چنانچہ مجھے صبح سویرے روانہ کیا گیا تاکہ جنازہ شام تک مؤخر کرنے کی درخواست کروں۔۔ میں نے گنج منڈی لاری اڈہ میں تندور کے پاس رات گزاری۔ ۔پہلی بس سے نکلا اور نوتھیاں سے پیدل ملہو والا پہنچا۔نماز جنازہ شام کو ہوئی لیکن بابا عبدالحق گاؤں سے دور کسی نامعلوم اسٹیشن پر ہونے کی وجہ سے جنازے میں شریک نہ ہو سکے۔
میری بیگم میری بڑی خالہ کی بیٹی ہیں ۔وہ فرماتی ہیں۔۔دادی خدیجہ صاحبہ کے پاس اندھیرے میں چمکنے والی تسبیح تھی ۔وہ مجھے رضائی میں چھپا کر اس کا تماشا دکھاتی تھیں۔ انہوں نے مجھے نماز کا سبق سکھایا اور نماز ۔۔نتائی ( عملی طور پر پڑھنا سکھایا)۔۔میرے خالہ زاد ۔ڈاکٹر ثاقب قاضی فرماتے ہیں۔۔۔اللہ دادی خدیجہ صاحبہ از کے درجات بلند فرمائے۔ میری یادداشت میں ان سے وابستہ کچھ یادیں محفوظ ہیں وہ محبت اور شفقت کا پیکر تھیں میرے ساتھ بہت پیار سے پیش آتیں ان کے انتقال کے وقت میری عمر چار سال تھی لیکن ان کی شخصیت کے انمٹ نقوش آج بھی میرے دل کے نہاں خانوں میں محفوظ ہیں
لَذِیذ بُود حِکایَت دَراز تَر گُفْتَم
اللہ پاک دادی جان کی مغفرت فرمائے اور ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ آمین
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔