( اسلام آباد ہائیکورٹ کے تازہ ترین فیصلے نے کیا ثابت کیا ، آئیے اس کے اندر چھپے راز کو تلاش کریں )
تجزیاتی تحریر :
سیّدزادہ سخاوت بخاری
وقت آن پہنچا ہے کہ ہم عوام اپنی سوچ ، فکر اور آراء کو بدلیں ورنہ ملک کا مزید نقصان ہوگا ۔ یہ جو صبح و شام اٹھتے بیٹھتے ، ظلم ، نانصافی ، چوری ، ڈاکے اور کرپشن کا واویلہ مچا رکھا ہے ، خدا را اسے بند کریں ۔ کیوں بلاوجہ اپنی ذہنی صحت کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑے ہوئے ہیں ۔ اس روئیے سے جہاں ہماری صحت پر اثر پڑتا ہے وہیں اس سے قومی خزانہ بھی متاثر ہورہا ہے ۔
جب ہم چور چور کا شور مچاتے ہیں تو لامحالہ پولیس حرکت میں آتی ہے ، پھر جے آئی ٹی بنتی ہے ، مقدمات قائم ہوتے ہیں ۔ چالان عدالتوں میں پیش کئےجاتے ییں ۔ بھاری بھرکم فیسوں پر ممتاذ قانون دان مقرر ہوتے ہیں ۔ سالہا سال تک شنوایاں ہوتی ہیں ۔ ملزمان کو شفاء خانوں میں جانا پڑتا ہے اور اگر ملک میں ان کی بیماریوں کا علاج ممکن نہ ہو تو ان بیچاروں کو لندن اور نہ جانے کون کونسے دور دراز کے ہسپتالوں تک سفر اور پھر بغرض علاج وہاں برسوں قیام کرنا پڑ جاتا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ بعض صورتوں میں ملزمان کو سرکاری جہازوں میں لیکر جانا اور لانا پڑتا ہے ۔
غور کریں ، ہماری طرف سے ایک لفظ چور بول دینے سے کئی سو اور ہزار لوگوں کو کن کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ۔ کروڑوں روپے خرچ ہوجاتے ہیں ۔ مالی نقصان کے علاوہ وقت کا ضیاع اور ذہنی دباؤ الگ سے برداشت کرنا پڑ جاتا ہے ۔ عجیب سلسلہ ہے ۔ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا 12 آنے ۔
ہمارے بچپن اور لڑکپن تک شہروں اور میلے ٹھیلے میں مداری اکثر دیکھنے کو ملتے تھے ۔ چوراہوں پر اور سڑک کنارے ڈگڈگی کی آواز سن کر سب خورد و کلاں مداری کے گرد اس تجسس ( Suspense ) میں گرفتار ہوکر کھڑے ہوجاتے کہ یہ جادوگر ہمیں مفت میں طلسماتی دنیا کی سیر کرائے گا ۔
مداری صاحب جب دیکھتے کہ مجمع مکمل ہوگیا ۔ ڈگڈگی ایک طرف رکھی اور حاضرین و ناظرین سے مخاطب ہوکر بولے ، میرا پاس دو منہ والا سانپ ہے جو ابھی آپ کو دکھاونگا۔ بچے نیچے بیٹھ جائیں ۔ ہاتھ کھلے چھوڑ دیں ۔ پاکٹ مار سے ہوشیار ۔ آپ کے شہر میں بہت دوربابا گگے شاہ کی نگری سے آپ حضرات کے لئے ایک تحفہ لیکر آیا ہوں ۔ اس سے پہلے کہ آپ کو سانپ دکھاوں ۔ پوری توجہ میری طرف ۔
غرضیکہ ارد گرد جمع تمام افراد کو اپنے سحر میں لینے کے بعد وہ اپنے جھولے سے ایک پڑیا نکالتا جو دانت کے کیڑے کو ہلاک کرکے باہر لے آتی ہے ۔ غرضیکہ ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ مداری کے رٹے رٹائے اور مسحور کن جملے سننے کے بعد پتا چلا کہ یہ حضرت تو دانت کا منجن بیچنے تشریف لائے تھے ۔ ہم یوں ہی پاگل بن کر اس کے گرد کھڑے رہے ۔ اس کہانی کا ہمارے نظام انصاف سے کوئی تعلق نہیں ۔ ویسے ہی یاد آگئی تو آپ کو سنادی ۔
ہم بڑے سادہ لوح ہیں ۔ سڑک کنارے کھڑے مداری تک کے چکر میں آجاتے ہیں ۔ ہماری مثال اس لومڑی کی سی ہے جو ایک اونٹ کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی ۔ کسی نے پوچھا ، خالہ ، اونٹ تو اپنے کام سے جارہا ہے آپ اس کے ساتھ کیوں چل رہی ہیں ۔ کہنے لگی ، نادان ، دیکھتا نہیں ، اس کے منہ کا گوشت لٹک رہا ہے ۔ یہ کسی بھی وقت گر سکتا ہے لھذا آج اسی کا ناشتہ کرونگی ۔
پاکستانی قوم نے 75 برس تماش بین بن کر کبھی مختلف مداریوں کے گرد اور کبھی لومڑی کی طرح اونٹ کا گوشت کھانے کے چکر میں گنوادئیے ۔ اب بھی وقت ہے اپنی سوچ اور فکر کی اصلاح کرلیں ۔
سیاست دان اور حکمران بلکہ یوں سمجھ لیں کہ طاقتور لوگ جنہیں ہم اشرافیہ ( Elite ) کہتے ہیں وہ چور اور ڈاکو نہیں ہوتے ۔ یہ ایک انتہائی گھناونا اور گھٹیا الزام ہے ۔ وہ بھلے لوگ تو اپنا چین سکون چھوڑ کر دن رات عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کوشاں رہتے ہیں ۔ ہمیں ان پر چوری اور کرپشن کے الزامات لگانے سے پہلے ہزار بار سوچنا چاھئیے ۔ حکمران بادشاہ ہوتے ہیں کیا کسی بادشاہ سے پوچھا جاسکتا ہے کہ آپ نے شاہی محلات کہاں سے پیسے لیکر بنوائے اور پھر ہماری عدلیہ ، میجسٹریٹ کورٹ سے لیکر ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ تک مکمل آزاد ہے ۔ انتہائی قابل اور ایماندار جج صاحبان موجود ہیں ۔ اگر ہم بے بنیاد اور من گھڑت الزامات عائد کرینگے تو ہمیں عدالتوں سے منہ کی کھانی پڑیگی ۔ ابھی کل ہی اسلام آباد ہائیکورٹ کے معزز جج صاحبان نے مہارانی مریم نواز صاحبہ اور ان کے شوہر نامدار ، پرنس آف مانسہرہ،عالی مرتبت کیپٹن ریٹائرڈ جناب محمد صفدر اعوان صاحب کو ایون فیلڈ مقدمے میں باعزت طور پر بری کرکے بتادیا کہ سپریم کورٹ سے لیکر واجد ضیاء کی جے آئی ٹی رپورٹ ، قطری خط ، منی ٹریل ، کیلیبری فونٹ تک ساری باتیں ہی نہیں بلکہ حسن نواز کا بیان کہ الحمدللہ لندن کے فلیٹ میری بہن مریم کی ملکیت ہیں ، سب کا سب جھوٹ ہے ۔ اس شریف بی بی کا ان الزامات سے کوئی تعلق نہیں ۔
قارئین کرام
میری اس منطقی وکالت کے بعد آپ کے ذہن میں سوال پیدا ہوگا کہ اگر یہ سیاست دان نیک سیرت اور ایماندار ہیں تو پھر ملک پر اتنا بھاری قرضہ کیونکر چڑھ گیا ۔ آخر کسی نے تو ہیرا پھیری کی ہے ۔ خزانہ لوٹا ۔ جی ہاں یہ بات درست ہے ۔ لیکن آپ یہ بات بھول رہے ہیں کہ اس ملک میں صرف دو طبقے آباد ہیں ، سیاست دان اور عوام ۔ یوں سمجھ لیں کہ ایک گھر میں صرف 2 افراد مقیم تھے ، ایک کا نام عوام خان اور دوسرے کا سیاستدان بیگم ، وہاں چوری ہوگئی ۔ مقدمہ عدالت میں گیا اور معزز عدالت نے قرار دیا کہ 2 میں سے ایک ، سیاستدان بیگم چور نہیں تو یقینا فریق ثانی یعنی مسٹر عوام چور ہے ۔
جتنی چوری ہوئی عوام خان نے کی ۔ جتنا قرضہ چڑھا اس کا ذمہ دار بھی مسٹر عوام ۔ اب یہ تو نہیں کہ سکتے کہ جج صاحبان جھوٹ بول رہے ہیں ۔
ان گزارشات کی روشنی میں تمام پاکستانیوں سے گزارش ہے کہ عدالت عالیہ اسلام آباد کا فیصلہ صدق دل سے تسلیم کرتے ہوئے اپنے آپ کو چور سمجھنے میں عار محسوس نہ کریں کیونکہ 5 معزز جج صاحبان نے پاکستان میں آباد دو طبقوں میں سے ایک کو چوری کے الزام سے بری کردیا ہے جبکہ چوری بھی ثابت ہے لھذا ہم عوام چور ہیں
سیّدزادہ سخاوت بخاری
سرپرست ، اٹک e میگزین
شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔