وسعت کائنات
یہ محاورہ آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ، "کائنات بہت بڑی ہے”۔ درحقیقت ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ کائنات بحیثیت مجموعی کتنی بڑی ہے؟ حتی کہ ابھی تک یہ راز ذہین ترین سائنس دانوں پر بھی منکشف نہیں ہوا کہ کائنات میں کل کتنی کہکشائیں اور کل کتنے ستارے اور سیارے ہیں؟ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خود سائنس دانوں کا دعوی ہے کہ مادے اور انرجی کی قابل مشاہدہ یہ ظاہری کائنات اصل کائنات کا صرف 4% حصہ ہے۔ جبکہ باقی ماندہ 96% کائنات "ڈارک میٹر” (Dark Matter) اور "ڈارک انرجی” (Dark Energy) پر مشتمل ہے۔ یہ ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی خود کیا چیز ہیں اس پر تحقیق جاری ہے۔
1930 میں، کائنات کے اس پراسرار اور نہ دکھائی دینے والے بڑے حصے کے بارے، سوئس نژاد ماہر فلکیات فرٹز زوکی نے ‘کوما کلسٹر’ میں شامل ایک ہزار کے قریب کہکشاؤں کا مشاہدہ کیا۔ وہاں اس نے ایک عجیب مظہر کی نشاندہی کی کہ کہکشائیں انتہائی تیز رفتاری سے حرکت کر رہی تھیں اور اپنی تیز رفتاری کی بدولت انہیں کلسٹر سے الگ ہونا چاہہے تھا، لیکن بوجوہ وہ ایسا نہیں کر پا رہی تھیں۔ غالباً کوئی دکھائی نہ دینے والی مادہ یا انرجی جیسی چیز تھی جو یقیناً انہیں باندھے ہوئے تھی۔ اسی طرح کچھ دہائیوں بعد، چند اور فلکیات دانوں، ویرا روبن اور کینٹ فورڈ، نے بھی کہکشاؤں میں ستاروں کی گردش کی رفتار کا مشاہدہ کرتے ہوئے اسی مظہر کا مشاہدہ کیا یعنی وہ مادہ یا انرجی جو دکھائی نہیں دے رہی تھی لیکن اس کا اثر واضح طور پر محسوس کیا جا رہا تھا۔
کائنات کا یہ ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی ہمارے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے مگر لمبائی، چوڑائی اور گہرائی میں یہ کل کائنات خود کتنی بڑی ہے اس کا اندازہ اس ایک سائنسی انکشاف سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جس کے مطابق کائنات اس قدر بڑی ہے کہ دنیا کی 8ارب سے زیادہ آبادی پر کائنات کی کہکشائیں تقسیم کی جائیں تو ہر انسان کے حصے میں 2سو ارب کہکشائیں آنے کے بعد بھی اربوں کھربوں کہکشائیں بچ جائیں گی۔ جبکہ کہکشاؤں کے ایک کلسٹر (Cluster) میں کتنے اربوں کھربوں ستارے اور سیارے ہوتے ہیں اس کا اندازہ لگانا ہی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے!
ہم ملکی وے کہکشاں میں رہتے ہیں جو ہمارا گھر ہے، جس کے بارے ماہرین فلکیات کا دعوی ہے کہ یہ ارب ہا ارب ستاروں کی عظیم الشان مملکت ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہماری ساری قابل مشاہدہ کائنات (Observable Universe) میں لگ بھگ 2کھرب سے بھی زیادہ کہکشائیں موجود ہیں (یہ ایک محتاط اندازہ ہے بعض دیگر اندازوں کے مطابق یہ تعداد 4کھرب کہکشائیں بھی بتائی جاتی ہے)۔ ہماری یہ کہکشاں دیگر بڑی کہکشاؤں کے مقابلے میں ایک چھوٹا سا نکتہ ہے، جس کے بارے میں جاننے کے باوجود ہمیں آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان کی اصل تعداد کتنی ہے۔
دراصل ہر کہکشاں ستاروں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ایک اوسط درجے کی کہکشاں میں تقریبا ایک کھرب یعنی 100ارب ستارے ہوتے ہیں۔ یہ کہکشائیں ستاروں کا زچہ خانہ اور قبرستان دونوں ہوتے ہیں جہاں ستارے پیدا ہوتے ہیں، پروان چڑھتے ہیں اور بلیک ہول (Black Hole) وغیرہ میں بدل کر مر جاتے ہیں۔ جہاں گرد اور گیس کے عظیم الشان بادل ہوتے ہیں انہیں سائنسی زبان میں "سحابیہ” (Nebulae) کہا جاتا ہے۔ ہماری کہکشاں میں بھی اربوں کھربوں ستارے ہیں، اور ان میں سے اکثریت کے سیارے اور چاند بھی ہیں۔ یعنی ہمارے نظام شمسی جیسے اربوں دوسرے نظام ہائے شمسی صرف اس ایک کہکشاں میں موجود ہیں، تو پھر پوری کائنات کتنی بڑی ہے اور اس کا کیا عالم ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔
کہکشاؤں کی بھی مختلف قسمیں ہوتی ہیں جنہیں ان کی ساخت کے اعتبار سے نام دیئے جاتے ہیں جیسا کہ گردابی کہکشاں، بیضوی کہکشاں، چھلے کی شکل والی کہکشاں اور مرغولہ نما کہکشاں وغیرہ، مثلا ایک کہکشاں جسے مختصرا "M87” کہتے ہیں۔ یہ اب تک کی دریافت ہونے والی قدیم ترین کہکشاؤں میں سے ایک ہے۔ اس کی روشنی سنہری مائل ہوتی ہے۔ ایک اور کہکشاں "سومبریرو” (Sombrero) کہلاتی ہے۔ ان کہکشاؤں کا نظارہ بے حد حسین اور دلفریب ہوتا ہے۔ یہ خلاء میں عظیم الجثہ پھرکیوں کی طرح چکراتی اور تیرتی رہتی ہیں جن کو صناح قدرت نے جیسے اپنوں ہاتھوں سے ترتیب دیا ہے۔
ہمارے لئے ان کہکشاؤں کی وسعت کا درست تصور کرنا نہایت ہی مشکل بلکہ ناممکن ہے، کیونکہ زمین پر ہم فاصلہ میلوں میں طے کرتے ہیں مگر خلاء میں فاصلہ "نوری سال” میں ناپا جاتا ہے۔ روشنی جو فاصلہ ایک سال میں طے کرتی ہے، جس کی رفتار تقریبا 3لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہے، اسے ایک نوری سال (Light Year) کہا جاتا ہے۔ یہ فاصلہ 60کھرب میل سے ذرا سا کم بنتا ہے۔ اپنی کہکشاں یعنی ملکی وے کے مرکز سے خود ہمارا فاصلہ بھی 25ہزار نوری سال سے کچھ زیادہ ہے۔ اگر صرف ملکی وے ہی کی بات کریں، جس کا شمار اوسط جسامت والی کہکشاؤں میں ہوتا ہے، تو اس کی چوڑائی بھی تقریبا ایک لاکھ نوری سال بنتی ہے۔ اپنی اس عظیم الشان وسعت کے باوجود یہ کائنات کے صحرا میں ریت کے ایک معمولی ذرے کی مانند ہے!
اگرچہ ہمیں یہ کہکشاں بہت بڑی دکھائی دیتی ہے لیکن یہ کائنات میں موجود دوسری کہکشاؤں کے سامنے خاصی چھوٹی ہے۔ مثال کے طور پر اینڈرومیڈا (Andromeda) کہکشاں جسے عربی زبان میں "مراتہ المسلسلہ” کہا جاتا ہے، اور جو ہماری پڑوسی کہکشاں ہے، اس کی چوڑائی (قطر) تقریبا 2لاکھ نوری سال ہے جس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ وہ ہماری کہکشاں سے دوگنے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ جبکہ یہ ایم87 اینڈرومیڈا کے مقابلے میں خاصی بڑی ہے۔ لیکن IC-1101 نامی کہکشاں سے یہ بھی بہت ہی چھوٹی ہے۔ یہ کہکشاں اب تک دریافت ہونے والی سب سے بڑی کہکشاں ہے، جو خود ہماری کہکشاں "ملکی وے” سے 60گنا بڑی ہے۔
آسمان میں ستاروں کی روشنی کو ہم تک پہنچنے میں ہزاروں، لاکھوں، بلکہ اربوں سال تک لگ جاتے ہیں۔ سٹیفن ہاکنگ کی کتاب "وقت کی مختصر تاریخ” (The Brief History of Time) میں ایک جگہ لکھا ہے کہ، "کچھ ستارے ہم سے اتنے دور ہیں کہ جب تک ان کی روشنی ہم تک پہنچتی ہے تب تک وہ اپنی زندگی پوری کر کے مر چکے ہوتے ہیں”۔ ستاروں کی روشنی جو ہم دیکھتے ہیں، وہ دراصل ان ستاروں کا ماضی ہوتا ہے۔ یوں ہم رات کو ستاروں کی روشنی دیکھ کر ان ستاروں کو نہیں دیکھ رہے ہوتے بلکہ ان کے ماضی میں جھانک رہے ہوتے ہیں! یہ ستارے ہم سے جتنے نوری سال دور ہوں گے، آج کی تاریخ میں ان سے ہم تک پہنچنے والی روشنی اتنے ہی سال پہلے کی ہو گی۔
جدید ترین ہبل ڈیپ فیلڈ بھی کائنات میں بس اسی قدر دوری تک جھانک سکتی ہے، اس میں اور زیادہ آگے تک، کائنات کے مزید قدیم تر ماضی میں دیکھنے کی ابھی ہمارے پاس صلاحیت ہی نہیں ہے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔