( مرحوم سید رفیق بخاری کی برسی کے موقع پر نذرانہء عقیدت )
( الآخ المعظم و الاستاذی المکرم
مرحوم و مغفور الحاج پروفیسر
سید محمد رفیق احمد شاہ بخاری رحمة اللہ تعالی ( ریٹائرڈ پرنسپل )
کی برسی کے موقع پر ، ان کے فرزند ارجمند معروف دانشور ، شاعر ، لکھاری اور آن لائن میگزین اٹک کے بانی جناب سیّد جہانگیر علی شاہ المعروف آغا بخاری کی فرمائیش پر ، یہ چند سطور بطور ہدیہ ، اس عظیم ہستی کے نام کرتا ہوں ، کہ جن کی تربیت نے مجھے اٹھنا ، بیٹھنا ، چلنا پھرنا ، لکھنا پڑھنا اور بولنا سکھایا )
ہدیہ تحریر :
سیّدزادہ سخاوت بخاری
الحاج سیّد رفیق بخاری مرحوم کا جنم ، سال 1938 میں ہمارے آبائی گاؤں موضع اڑتک پور کامرہ کلاں ، تحصیل و ضلع اٹک ، متحدہ ہندوستان میں اس وقت ہوا جب برٹش راج اپنے اختتامی سفر کی تیاری کررہا تھا لیکن اس وقت تک قرار داد پاکستان منظور نہیں ہوئی تھی ۔ ہندو ، مسلم اور سکھ باہم شیر و شکر مختلف شہری اور دیہی آبادیوں میں پرامن پڑوسیوں کی طرح زندگی گزار رہے تھے ۔ ہمارے گاؤں میں بھی زمانہ قدیم سے چند ہندو خاندان آباد تھے جن کا ذکر میرے بھائی مجھ سے اکثر کیا کرتے تھے ۔ ہماری جامع مسجد ( سادات ) کے قریب ہی ہندو مندر تھا جسے ہمارے لوگ "دھرم سال ” کہ کر پکارتے تھے ۔ پڑی ( قریبی پہاڑی ) کے کالے پتھروں سے بنی یہ سادہ سی عمارت ہمارے بچپن تک قائم رہی ۔ اور اس کے صدر دروازے پر لگا تالا مجھے ابھی تک یاد ہے ۔ اب اس جگہ ہمارے گاؤں کی ایک شخصیت کا ڈیرہ وجود میں آچکا ہے
ہندووں اور ہندو مندر کا ذکر اس لئے کیا ، تاکہ قارئین 1938 کے زمانے ( قبل از تقسیم ہند ) کا معاشرتی منظر دیکھ سکیں ۔ میرے نزدیک کسی بھی شخصیت کے کردار اور سوچ و فکر کو سمجھنے کے لئے اس ماحول کو سمجھنا اولین شرط ہے کہ جس میں اس کا جنم ہوا اور جہاں سے اس نے اپنی زندگی کا سفر شروع کیا ۔
گاؤں میں صرف لڑکوں کے لئے ایک اسکول تھا جہاں آٹھویں جماعت تک تعلیم دی جاتی تھی اس لئے اسے مڈل اسکول کامرہ کہا جاتا تھا ۔ میرے بھائی جان نے اسی اسکول سے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاذ کیا اور جب وہ میٹرک کرچکے تو مزید تعلیم کے لئے ہمیں کیمبل پور شہر منتقل ہونا پڑا ۔
یہ 1954 کی بات ہے جب ہم اس اجڑے ہوئے دیار میں وارد ہوئے ۔ اجڑے کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ پاکستان کو معرض وجود میں آئے ابھی فقط ساڑھے پانچ یا چھ برس گزرے تھے لھذا ہندوں کے ہجرت کرجانے کی وجہ سے شہر کی آبادی بہت کم ہونے کے ساتھ ساتھ ، منتشر اور غیر منظم شکل میں تھی ۔
پرانے شہر میں اگرچہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمان ، ہندوں کے چھوڑے گھروں میں مقیم ہوچکے تھے لیکن ہر وارڈ اور ہر گلی کے بعض گھروں اور مندروں کے دروازوں پر تالے پڑے تھے ۔ چھوئی روڈ کے جنوب اور جنوب مغرب کی آبادی ادھر ادھر بکھری بکھری نظر آتی تھی ۔ دو گھر ادھر تو چار ادھر اور بیچ میں زرعی زمینیں ۔ بعض عمارتیں نامکمل اور ادھوری بھی رہ گئی تھیں کیونکہ ان کے مالکان کو تقسیم ہند کی وجہ سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یہاں سے جانا پڑا۔
قصہ کوتاہ ، ہم نے گاؤں سے نکل کر اس پرامن اور خاموش شہر سے نئی زندگی کا سفر شروع کیا ۔ بھائی جان جناب رفیق بخاریؒ کو گورنمنٹ کالج میں داخلہ دلا دیا گیا ۔ میری عمر اس وقت تقریبا 6 سال تھی لھذا مجھے ایم بی پرائمری اسکول نمبر 2 ( جسے مارکیٹ اسکول بھی کہتے تھے ) سے تعلیم شروع کرنے کا موقع ملا ۔
جناب سید رفیق بخاریؒ مرحوم جب بی اے کرچکے تو بطور انگلش ٹیچر ان کی تعیناتی ڈی سی ہائی اسکول چھب علاقہ نرڑہ میں ہوگئی ۔ وہیں دوران تدریس انہوں نے ٹیچر ٹریننگ کالج بہاولپور سے بی ایڈ کی سند حاصل کی اور 1964 میں چھب کو خیر باد کہ کر گورنمنٹ ہائی اسکول ڈاک اسماعیل خیل تحصیل نوشہرہ صوبہ سرحد میں مستقل بنیادوں پر انگلش ٹیچر تعینات ہوگئے ۔
کم و بیش ایک سال وہاں رہنے کے بعد ان کا تبادلہ گورنمٹ ہائی اسکول پبی ہوگیا ۔ بھائی جان کو میری تعلیم و تربیت کی اسقدر فکر تھی کہ چھب ، ڈاک اسماعیل خیل اور پبی میں تعیناتی کے دوران مجھے اپنے ساتھ رکھا اور اس طرح میں نے 1966 میں پبی ہائی اسکول سے میٹرک کی سند حاصل کرلی ۔
1966 کے بعد میں گورنمٹ کالج کیمبل پور آگیا اور بھائی جان نے صوبہ سرحد کے مختلف علاقوں اور اضلاع میں تدریس کا سلسلہ جاری رکھا ۔ باالآخر ترقی کرتے کرتے پرنسپل کے عہدے تک پہنچ گئے ۔
رفیق بخاریؒ پیدائیشی طور پر اعلی شرافت کا نمونہ تھے ۔ صرف شرافت اور اعلی اخلاق ہی نہیں بلکہ دینداری اور تقوے میں بھی اعلی مقام پر فائز تھے ۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا انہیں ہمیشہ پابند صوم صلواة اور نیک ترین لوگوں میں سے پایا ۔
کالج کے زمانے سے ان کی صحبت شاعروں ، ادیبوں ، علماء اور اور فضلاء کے ساتھ رہی ۔ گورنمنٹ کالج کے سابق لائیبریرین مرحوم غلام محمد نذر صابری ، ڈاکٹر غلام جیلانی برق ، حکیم تائب رضوی ، جامع حنفیہ سولبازار کے بانی خطیب قاضی انوارالحق مرحوم اور اسی اعلی درجے پر فائز اہل علم سے ان کی دوستی اور تعلق قائم رہا ۔
آپ بسلسلہء ملازمت جہاں بھی مقیم رہے ہر خورد و کلاں ان کی نیک سیرت اور اعلی اخلاق کا گرویدہ دکھائی دیا ۔ اپنے ہوں یا پرائے ، دوست احباب ہوں یا ان کے شاگرد سب کے سب ان کے اعلی کردار کے ہمیشہ قائل اور ثناء خواں رہے ۔
آپ کو علم و ادب سے ہمیشہ گہرا شغف رہا ۔ مجلس نوادرات علمیہ اٹک اور محفل شعر و ادب کے پلیٹ فارم سے انہوں نے علمی و ادبی خدمات انجام دیں ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اہل شہر کی سماجی ، علمی ، ادبی اور فلاحی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ۔ ان کے اعلی کردار کی بناء پر اہل علاقہ نے انہیں چیئرمین زکواة کمیٹی مقرر کردیا اور ایک عرصے تک یہ خدمت بھی انجام دیتے رہے ۔
ان کی برسی کے موقعے پر یہ چند الفاظ میری طرف سے بطور نذرانہء عقیدت ان کی خدمت میں پیش ہیں ۔ یہ بات میں نہیں کہ رہا بلکہ ان کی وفات پر جب سوگوار ہم اہل خانہ سے تعزیت کے لئے آتے تو ہر ایک کی زبان سے یہی جملہ ادا ہوتا ،
شاہ جی تو ولی اللہ تھے ۔ دعاء ہے اللہ کریم میرے مشفق بھائی کے درجات اور بلند کرے اور ہم سب کو اس گوہر نایاب کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطاء ہو ۔ آمین ۔
سیّدزادہ سخاوت بخاری
سرپرست
اٹک ویب میگزین
شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔