صبر و شکر کا حقیقی مفہوم
تحریر: بینش احمد
زندگی مشکلات کا دوسرا نام ہے-ہر انسان کو اپنی زندگی میں مصیبتوں اور مشکلوں کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے چاہے وہ غریب ہو یا امیر، بوڑھا ہو یا جوان، اچھا ہو یا برا، مرد ہو یا عورت، سب کبھی نہ کبھی مصائب و مشکلات کا سامنا ضرور کرتے ہیں –
زندگی کے سفر میں ہمارا وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا، کوئی دن ہمارے لیے خوشی کی خبر لے کر آتا ہے تو کوئی تو کوئی دکھ کی، کبھی ہم پر خوشیوں کی بارش ہوتی ہے تو کبھی غم کی آندھیاں چلتی ہیں،
الغرض! مصیبتوں اور پریشانیوں سے انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ لیکن اسلام نے ہر حالات میں صبر اور شکر ادا کرنے کی تلقین کی ہے-
صبر کیا ہے؟ صبر یہ ہے کہ ہم مصیبتوں پریشانیوں اور برے وقت کے باوجود اللہ سے شکوہ کرنے کی بجائے ہر حال میں اس کا شکر ادا کریں کہ
” اے رب تو جس حال میں رکھے ہم اس حال میں راضی ہیں-“
صبر ایک عظیم نعمت ہے جو مقدر والوں کو نصیب ہوتی ہے۔ خوش قسمت ہے وہ شخص جس نے تقویٰ کے ذریعے ہوائے نفس پر اور صبر کے ذریعے اپنے نفس پر قابو پا لیا-
عربی لغت میں صبر کا معنی برداشت سے کام لینے۔ خود کو کسی بات سے روکنے اور باز رکھنے کے ہیں۔
جبکہ شکر کے معانی عربی لغت میں اظہارِ احسان مندی، جذبہ سپاس گزاری کے ہیں۔ اصطلاح شریعت میں صبر کا مفہوم یہ ہے کہ نفسانی خواہشات کو عقل پر غالب نہ آنے دیا جائے اور شرعی حدود سے تجاوز نہ کیا جائے۔ صبر کے عمل میں ارادے کی مضبوطی اور عزم کی پختگی ضروری ہے۔ بے- کسی مجبوری اور لاچاری کی حالت میں کچھ نہ کرسکنا اور رو کر کسی تکلیف و مصیبت کو برداشت کرلینا ہرگز صبر نہیں ہے بلکہ صبر یہ ہے کہ ہم اپنے عمل میں ثابت قدم رہیں اور سچے دل سے اللہ کی رضا میں راضی ہوں-
مسلمان کی پوری زندگی صبر و شکر سے عبارت ہے۔ دین اسلام کی ہر بات صبر و شکر کے دائرے میں آجاتی ہے۔
صبر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے ہاں صبر کا بے حساب اجر رکھا ہے۔
آج کے انسان کو دین سے دوری کی وجہ سے بہت ذیادہ مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا-لیکن اگر ہم خالقِ کائنات کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اس دنیا میں صبر سے کام لیں تو ہمارے زیادہ تر مسائل خود بخود ہی حل ہو جائیں گے۔
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے صبر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :
أُوْلَئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُم مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا وَيَدْرَؤُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
اللہ تعالیٰ نے دیگر نیک اعمال کے مقابلہ میں صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر عطا فرمائے گا ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
قُلْ يَا عِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمْ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَأَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمؐ رات کو کثرت سے قیام فرماتے اور عبادتِ الٰہی میں مگن رہتے۔ کثرتِ قیام کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک پاؤں سوج جاتے۔
آپ فرماتی ہیں میں نے عرض کیا :
یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک وسلم ! آپ تو اللہ تعالیٰ کے محبوب اور برگزیدہ بندے ہیں پھر آپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَفَلَا اَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا.
’’کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب صفة القيامة و الجنة و النار، باب : اکثار الاعمال و الاجتهاد فی العبادة، 4 : 2172، رقم : 2825
صبر کرنے کی سب سے زیادہ اہمیت زندگی کے مشکل ترین لمحات میں سے ایک ہے مثال کے طور پر جنگ-
ان حالات میں صبرو تحمل اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کرنے والے ہی کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ لہذا قرآن کریم میں صبر کو جنگی میدان میں جنگجو کی بہادری کی عکاسی کرنے والی ایک خصوصیت ہونے کا ذکر آیا ہے
مگر حقیقت اس کے برعکس ہے-افسوس! آج ہم صبر سے بہت دور ہو چکے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی ایک بڑی تعداد ذِہنی دباؤ، ڈپریشن، شوگر اور بلڈپریشر جیسے مہلک امراض میں مبتلا ہو رہی ہے۔
یاد رکھئے! دنیا میں ایسے بڑے بڑے عقل مند آئے ہیں جنہیں اپنی عقل اور ذہانت پر بہت ناز تھا پر بےصبری کے باعث انہیں منہ کی کھانی پڑی ہے-آج دینی و دنیاوی معاملات میں صبر کا دامن چھوڑنے کی وجہ سے ہمارا معاشرہ تباہی کی سمت جارہا ہے،لڑائیاں عام ہو چکی ہیں، دوسروں کے بغض و کینے سے سینے بھرے ہوئے ہیں، آستینیں چڑھی ہوئی ہیں اور لوگ ماردھاڑ پر پر اتر آئے ہیں-
چھوٹی سے چھوٹی بات بھی ہمارے نوجوانوں سے برداشت نہیں ہوتی- صبر و شکر کی کمی کی وجہ سے گھر کے گھر اجڑ رہے ہیں-
ہمارے لیے ہمارے پیارے نبی اکرمؐ کے زندگی صبر و شکر کا بہترین نمونہ ہے-
نبیِ اکرمؐ کی مکمل زندگی صبر و تحمل سے بھری ہوئی ہے، کافروں نے آپؐ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے، پتھر برسائے، راہ میں کانٹے بچھائے،ڈرایا،دھمکایا،بُرا بھلا کہا،قتل کی سازشیں کیں مگر پیارے آقاؐ نے کبھی کوئی جوابی کاروائی نہ کی،انہوں نے ہمیشہ خود بھی صبر سے کام لیا اور رہتی دنیا تک اپنے ماننے والوں کو مشکلات میں صبر کی تلقین ارشاد فرمائی۔
آپؐ کا فرمانِ ہے:جسے کوئی مصیبت پہنچے اسے چاہئے کہ اپنی مصیبت کے مقابلے میں میری مصیبت یاد کرے بے شک وہ سب مصیبتوں سے بڑھ کر ہے۔(الجامع الکبیر للسیوطی،ج7،ص125،حدیث:21346)
یاد رکھئے! زندگی کا کوئی بھی موڑ ہو، صبر کے بغیر ہماری تمام زندگی نامکمل ہے۔
آج کے دور میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہر وقت اللہ پاک کے آگے صبر و شکر کرتے رہیں-چاہے ہماری زندگیوں میں کتنی ہی مصیبتیں،غم اور پریشانیاں کیوں نا ہوں۔
آخر ہمیں کس چیز کی کمی ہے کہ ہم اس پاک ذات کا شکر ادا نہیں کرتے- ہم ایک اسلامی ملک میں آزادی سے سانس لے رہے ہیں اس سے بڑی نعمت کیا ہو گی-
میری دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہمیں صبر و شکر کی دولت عطا فرمائے- آمین
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔