کوفیوں کی غداری
یہ مظلوم فلسطینی عوام کے حق میں ایک تاریخ ساز موقعہ ہے جو مسلم دنیا کے ضمیر کو بھی جھنجھوڑ رہا ہے کہ اس جنگ میں 2100 صہیونیوں کے مقابلے میں اسرائیل نے جنگی جرائم کا ارتکاب کرتے ہوئے 40% معصوم بچوں سمیت کم و بیش 9500 فلسطینی قتل کیئے مگر اسرائیل کے خلاف احتجاج مسلم ممالک کی بجائے ابھی تک زیادہ تر امریکہ، برطانیہ اور فرانس وغیرہ میں ہو رہا ہے۔
اس 29روزہ جنگ کا وہ کونسا لمحہ ہے جب اسرائیلی طیاروں اور میزائلوں نے محض مجاہدین کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے؟ اسرائیل اوسطا ہر 3منٹ بعد غزہ کی رہائشی آبادیوں، ہسپتالوں، ایمبولینسوں اور مسجدوں کو نشانہ بناتا رہا ہے جس میں اب تک 60ہزار عمارتیں کھنڈرات کا نمونہ پیش کر رہی ہیں جس کے ملبے سے بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کے زخمی اور بریدہ جسموں کو نکالا جا رہا ہے۔ ابھی ان مرنے اور زخمی ہونے والوں کو زندہ فلسطینی سنبھال رہے ہوتے ہیں کہ ان کے اوپر اور آس پاس ایک نیا بم آ کر پھٹتا ہے، جس میں وہ خود بھی شہید ہو جاتے ہیں۔
حتی کہ اسرائیل نے نہ صرف غزہ کی پٹی میں بجلی، پانی اور انٹرنیٹ کو بند کیا بلکہ وہاں باہر سے آنے والی خوراک اور ادویات کی سپلائی کو بھی نشانہ بنایا۔
اس وقت غزہ کی پٹی کربلا کا منظر پیش کر رہی ہے اور یہ وہی صورتحال ہے جو حضرت امام حسینؑ اور اہل بیتؑ کو پیش آئی تھی مگر "اہل کوفہ” خاموش تماشائی بنے رہے تھے۔
یہ جنگ عین عروج پر ہے صہیونی ریاست بدمست ہاتھی کی طرح فلسطینوں کو کچل رہی ہے۔ حماس نے بھی اپنے ہم وطن فلسطینیوں پر ترس کھا کر جنگ بندی کے لئے امن کا کوئی "سفید جھنڈا” نہیں لہرایا۔ جنگ میں اسرائیلی ڈیفینس فورس(IDF) کی وحشت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسرائیلی دوستوں کا خیال ہے کہ غزہ کی پٹی میں دو سے تین ہفتوں تک "مسلم تہزیب” کو ملیا میٹ کر دیا جائے گا۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ غزہ میں بہت کم لوگ جو بچ جائیں گے وہ حماس کے حمایتی ہونگے یا خود حماس کے مجاہدین ہونگے جن کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو "دہشت گرد” اور ان کے خلاف جنگی جرائم پر مبنی جنگ کو "مقدس جنگ” کہتا ہے۔ حالانکہ نیتن یاہو کے اس موقف کو کسی ایک بھی حقیقی یہودیت کا عقیدہ رکھنے والے بڑے "ربی” کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ یہاں تک کہ پوب (Pope) نے بھی اس جنگ کے حل کا "دو ریاستی” فارمولہ پیش کیا تھا۔ ایسے معقول یہودی تو کھل کر بیان دے رہے ہیں کہ یہ جنگ صہیونی حکومت (Zionist Rule) کے فلسطینیوں پر ایک لمبے عرصہ کے ظلم کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود اسرائیل میں نیتن یاہو کے گھر کے باہر اس کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں اور اسرائیلی عوام کا ایک معتبر طبقہ اس سے استعفی طلب کر رہا ہے۔
جبکہ چند گھنٹے قبل امریکہ، برطانیہ اور فرانس میں عوام کا جم غفیر اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کے حق میں نعرے لگا رہا ہے۔ جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تو اس وقت واشنگٹن ڈی سی "فریڈم سکوئیر” پر 100000 امریکی فلسطینیوں کے حق میں جمع ہو چکے ہیں جن کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ تعداد ایک ملین تک پہنچ جائے گی۔ لندن کے تفالگر سکوئیر میں بھی 100000 برطانوی فلسطینیوں کے حق آزادی کے لئے جمع ہو گئے ہیں۔ اسی طرح بتایا جا رہا ہے کہ فلسطینیوں کی حمایت میں پیرس میں بھی 300000 لوگ گھروں سے باہر نکل کر ایک جلوس کی شکل میں جمع ہو گئے ہیں۔
امریکہ نیو جرسی سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر ڈاکٹر غلام مجتبی نے ابھی واٹس پر اطلاع دی ہے کہ آخری آدھے گھنٹے میں واشنگٹن ڈی سی کے احتجاج میں شامل ہونے کے لئے کیلیفورنیا اور فلوریڈا کی ریاستوں سے 450 مختلف تنظیمیں کے مظاہرین احتجاج کے لئے "وائٹ ہاوس” کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس احتجاج میں حصہ لینے والوں کی تعداد ایک ملین سے زیادہ متصور کی جا رہی ہے۔ ان کے اعداد و شمار کے مطابق یہ "پرو فلسطین” مظاہرین امریکہ کے صدر جوبائیڈن کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ یہ 66% امریکی فلسطین کی آزدی چاہتے ہیں۔
جی ہاں! عین اس وقت تاریخ جب نیا موڑ لے رہی ہے، وائٹ ہاوس کے سامنے 66% نمائندہ امریکی شہری، فلسطین کی آزادی کی خاطر اپنے صدر کے خلاف جلوس نکال رہے ہیں، اسرائیلی بمباری پر احتجاج کر رہے ہیں اور "شرم کرو” کے نعرے لگا رہے ہیں اور فلسطینی مسلمانوں کے "مسلمان بھائی”، خاموشی کا کفن اوڑھے سو رہے ہیں یا شائد پھر انہیں بھی کچھ ش ر م آ ہی جائے مگر:
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔