آنکھوں سے اوجھل ہونے کی حیران کن ایجاد

آنکھوں سے اوجھل ہونے کی حیران کن ایجاد

Dubai Naama

انسان باعث امارت مخلوق ہے۔ ایک بار ایک جرمن فلاسفر نے کہا تھا جس کا مفہوم ہے کہ علم و دانش اور ثروت کے اتنے خزانے سمندروں کی تہوں میں نہیں ہیں کہ جتنے انسان کے دماغ میں مدفن ہیں۔ انسان کی یہ پوشیدہ اور مخفی دولت اس کی ظاہری صلاحیتوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس بناء پر انسان کو جہاں سوچنے اور غوروفکر کرنے کی خاموش مگر پراسرار تحریک ملتی ہے تو وہ اس میں گہری دلچسپی محسوس کرتا ہے۔

جدید سائنسی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جو بچے بچپن میں زیادہ سوالات کرتے ہیں اور چیزوں میں گہرا تجسس محسوس کرتے ہیں وہ بڑے ہو کر بہت ذہین نکلتے ہیں۔ علم کی ابتداء بھی تجسس اور حیرانی سے ہوتی یے۔ یہاں تک کہ جب انسان کی فکر بڑھتی ہے تو اس کے ذہن رسا سے حد درجہ کمالات رونما ہوتے ہیں جو اس کے بہتر اور روشن مستقبل کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔ انسان کی گہری سوچ کے بارے ایک حدیث شریف بھی ہے کہ، "ایک لمحہ کی فکر دو جہانوں سے افضل ہے۔” کہ انسانی غوروفکر کی تعبیر ہی انسان کو ناقابل یقین حد تک ذہنی، روحانی اور مادی ترقی و خوشحالی کی منازل طے کرواتی ہے۔

علامہ اقبال نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ، "آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں، محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔” میں نے پہلی بار یہ شعر ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے ایک اخباری مضمون میں پڑھا تھا۔ وہ علامہ اقبال کے دیوانے تھے اور اپنی تقریروں اور تحریروں میں اکثر ان کے حوالے دیتے تھے۔ خود ڈاکٹر اسرار احمد صاحب بھی پراسرار علوم کے منبہ تھے اور انسان کی زہنی استعداد اور مافوق الفطرت صلاحیتوں کے قائل تھے۔ میں نے سوچنے اور غور و فکر کرنے کی ابتداء ڈاکٹر اسرار احمد ہی کے موٹیویشنل مضامین پڑھنے سے کی تھی۔ اب انسان کے سوچنے اور غوروخوض کی صلاحیت اور سائنسی یجادات کا یہ جادو سر چڑھ کر بولنے لگا ہے۔

دنیا میں جتنی بھی سائنسی ترقی اور ایجادات ہو رہی ہیں وہ پہلے حیرانی اور تجسس کی صورت میں سائنس دانوں کے تخیل میں ظاہر ہوتی ہیں۔ آئنسٹائن بچوں کو تخیلاتی اور دیومالائی کہانیاں پڑھنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ برطانیہ کی مشہور مصنفہ اور ہیری پورٹر کی خالق جے کے رولنگ نے بھی انسانی دماغ کی اسی جناتی کارکردگی کو اپنا موضوع سخن بنایا تھا۔ ایسی ناقابل یقین کہانیاں بہت پرکشش ہوتی ہیں مگر ابتداء میں عموما رد کر دی جاتی ہیں جیسا کہ شروع میں جے کے رولنگ کے سلسلہ وار ناول "ہیری پورٹر” کو درجن بھر پبلشرز نے چھاپنے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن آخری پبلشر نے بلآخر اسے چھاپا تو پوری دنیا میں اس کی دھوم مچ گئی تھی۔

جدید کوانٹم سائنس کی محیر العقول ایجادات تیزی سے دنیا کو اپنی گرفت میں لے رہی ہیں۔ ابتداء میں ایسے عجیب و غریب تصورات کی کسی کو سمجھ نہیں آتی یے۔ لھذا اس بات سے اصولا اختلاف ممکن نہیں ہے کہ حقیقی علم ہی وہ ہے جو ابتداء میں کسی کی سمجھ میں نہ آئے کیونکہ جو علم سمجھ میں آتا ہے وہ صرف معلومات ہوتی ہیں۔ اس کی بہترین مثال معجزات اور کرامات ہیں جو علم ہی کے ذریعے واقع ہوتی ہیں مگر ایسے علم کے ذریعے جو ماسوائے علم والے کے کسی کو سمجھ نہیں آتا ہے۔ ایسے موضوعات پر لکھا بھی جائے تو عام طور پر اسے "سوڈو سائنس” کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ سائنس فورمز میں ایسے موضوعات کو غیر سائنسی کہہ کر چھاپنے سے انکار کیا جاتا ہے مگر جب اس علم کے زور پر سائنس ایجادات ہوتی ہیں تو ان کو ساری دنیا ماننے اور تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔

حالیہ تحقیقات کی روشنی میں چائنا ایک ایسا محلول تیار کر رہا ہے کہ جس سے انسان دوسروں کی "نظروں سے اوجھل” ہو سکتا ہے۔ چینی سائنس دانوں نے ایک ایسا مائع تیار کیا ہے، جو خود کو تبدیل کرنے کی اپنی اہلیت کے ذریعے اپنے اردگرد ماحول جیسا ہو جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے گرگٹ یا آکٹوپس اپنا رنگ اور شکل بدلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک محاورہ مشہور ہے کہ فلاں آدمی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے مگر مستقبل قریب میں اب حقیقتا ایسا کرنا ممکن ہو جائے گا۔

اس کا پہلا نامیاتی تجربہ 9 دسمبر 2021ء کو بیجنگ میں سنگھوا یونیورسٹی کی لیب میں ایک خاتون سائنس دان نے کیا تھا (نول سیلس، اے ایف پی)۔ دراصل چین کے سائنس دانوں نے اشیا کو نظروں سے اوجھل رکھنے کے لئے یہ نیا مواد تیار کیا ہے جو اپنے ماحول کے مطابق رنگ تبدیل کر لیتا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق یہ ایجاد ایسا لباس بنانے میں مدد دے سکتی ہے جسے پہن کر انسان "دکھائی نہ دے۔”

بہت سے جانوروں میں یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ وہ اپنی شکل و صورت بدل کر ماحول میں گھل مل جاتے ہیں۔ انسانوں کے وضع کئے گئے طریقے اس عمل کی نقل کرنے کے معاملے میں پیچیدہ اور مشکل ہوتے ہیں اور ماحول کی شناخت، اس کی خصوصیات پر عمل اور اس جیسا نظر آنے کے لئے ظاہری شکل کو بدلنے جیسے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔

ان سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ایسے کیموفلاج سسٹمز میں اکثر برقی آلات استعمال ہوتے ہیں جن سے ساخت کی پیچیدگی، محدود استعمال اور زیادہ لاگت جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ بات گذشتہ ماہ "سائنس ایڈوانسز” نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتائی گئی ہیں۔
تحقیق میں سائنس دانوں نے نئے مواد کے بارے میں بتایا کہ یہ ایک خاص عمل ہے جسے خود کو تبدیل کرنے کی صلاحیت ایس اے پی (سیلف ایڈیپٹیو فوٹوکرومز) کہتے ہیں۔ اس کے ذریعے اپنے ماحول جیسا ہو جانے کی صلاحیت رکھنا آسان ہے۔ جب ایس اے پی موادوں کو مخصوص طول موج والی روشنی کے سامنے رکھا جاتا ہے تو ان کے مالیکیولز اپنی ترتیب بدل لیتے ہیں، جس سے مواد کا رنگ تبدیل ہو جاتا ہے۔

یہ ایس اے پی مواد نامیاتی رنگوں اور ایسے مالیکیولز سے بنایا جاتا ہے، جنہیں ڈونر ایکسپٹر سٹین ہاؤس ایڈکٹس کہا جاتا ہے، اور جو روشنی کے اثر سے اپنی ساخت اور کیمیائی خصوصیات تبدیل کر لیتے ہیں۔
تحقیق کار وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "ایس اے پی مواد اندھیرے میں اپنی ابتدائی سیاہ حالت میں ہوتے ہیں اور پس منظر میں موجود منعکس اور منتقل ہونے والی روشنی کے ذریعے کسی دوسرے رنگ میں خودبخود بدل جاتے ہیں۔” ان سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گذشتہ انسانی ساختہ کیموفلاج سسٹمز کے مقابلے میں یہ نئے ایس اے پی مواد زیادہ سادہ، سستے اور استعمال میں آسان ہیں۔

یہ سائنس دان اپنے تحقیقی مقالے میں لکھتے ہیں: "ہم نے اس کام میں مواد کی اندرونی خصوصیت کے طور پر فعال کیموفلاج کے بارے میں بتایا ہے اور خودبخود گھل مل جانے والے فوٹوکرومز کی بات کی ہے۔”
تحقیق کاروں نے ان موادو کو جانچنے کے لئے دو تجربات کئے۔
ایک تجربے میں مختلف رنگوں والا ایس اے پی کا محلول جس میں سرخ، سبز، زرد اور سیاہ رنگ شامل تھے، ایک شفاف کنٹینر اور پلاسٹک کے ڈبوں میں ڈالا۔ سائنس دانوں نے مشاہدہ کیا کہ ایس اے پی محلول نے اپنے اردگرد موجود پلاسٹک کے ڈبوں کے رنگ سے مطابقت پیدا کر لی۔

دوسرے تجربے میں ایس اے پی محلول والے کنٹینر کو ایسے ماحول میں رکھا گیا، جہاں پس منظر میں سرخ، سبز یا زرد رنگ موجود تھے۔ سائنس دانوں کو معلوم ہوا کہ ایس اے پی محلول نے اپنے اردگرد کے ماحول جیسا ہو جانے کے لیے تقریباً ایک منٹ میں رنگ بدل لیا۔ اس تحقیق کے مطابق ایس اے پی مواد میں "کیموفلاج سسٹمز، سمارٹ کوٹنگز، ڈسپلے ڈیوائسز” اور یہاں تک کہ "جعل سازی روکنے والی ٹیکنالوجی” میں استعمال ہونے کی زبردست صلاحیت موجود ہے۔

تحقیق کے سربراہ وانگ ڈونگ شینگ نے چائنا سائنس ڈیلی کو بتایا: "بنیادی طور پر اس ٹیکنالوجی کو کپڑوں پر استعمال کرنے سے کسی فرد کو عملاً ’دکھائی نہ دینے والا‘ بنایا جا سکتا ہے۔”

مزید تحقیق میں سائنسدان ایس اے پی مواد کے رنگوں کی حد کو بڑھانے کی امید رکھتے ہیں تاکہ جامنی اور نیلے جیسے رنگ بھی شامل کئے جا سکیں، جو اس مواد کی موجودہ قسم کو استعمال کرتے ہوئے ممکن نہیں۔

ڈاکٹر وانگ کہتے ہیں کہ "مزید فوٹوکرومک مالیکیولز شامل کر کے یا اس کی ساخت میں تبدیلیاں لا کر ہم زیادہ باریکی کے ساتھ رنگوں میں تمیز اور تیزی سے رنگ بدلنے کی رفتار حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔”

یہ ٹیکنالوجی اتنی ترقی یافتہ ہونے کے قریب ہے کہ آپ لوگوں میں رہتے ہوئے غائب ہو سکتے ہیں۔ یہ انسان کی "پیرانارمل ایبیلٹیز” کے سائنسی ٹیکنالوجی میں بدلنے کی ایک معمولی سی مثال ہے۔ ہم سب نے علامہ اقبال اور ڈاکٹر اسرار احمد کو پڑھ رکھا ہے جو ہمیں ایسی بظاہر ناممکن ایجادات کے بارے تحریک دیتے ہیں۔ بعض دفعہ منزل صرف سوچ اور سمت بدلنے سے بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ ہمارا مذہبی لٹریچر ایسی کہانیوں سے بھرا پڑا ہے، جسے سردست ہم نے ‘دقیانوسیت’ میں ڈال رکھا ہے۔

عجیب و غریب، مشکل، ناممکن یا بظاہر ماوراء قسم کی چیزوں اور کاموں پر یقین رکھنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ بعض اوقات اس سے وہ حیران کن مواقع پیدا ہوتے ہیں کہ جن کا کبھی گمان بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔

Title Image by Janusz Walczak from Pixabay

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کیا      آپ      بھی      لکھاری      ہیں؟

اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

[email protected]

Next Post

اظہار رائے کی آڑ میں انتشار

جمعہ جنوری 24 , 2025
اظہار رائے کی آزادی کی جڑیں انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے (1948) میں موجود ہیں جس میں ہر فرد کو اپنی رائے کے اظہار کا حق دیا گیا
اظہار رائے کی آڑ میں انتشار

مزید دلچسپ تحریریں