ملہو والا کا سانپ اور بابا صاحب خان کا دم

جون 1973 میں میرا خاندان گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے ملہو والا گیا۔ اس موسم گرما میں میرا سامنا دو سانپوں سے ہوا، میں نے ‘کریں ‘کے کچھ پودے کاٹے اور ان پر پتھر رکھ کر’ تھبی’ گٹھا بنایا تاکہ وہ خشک ہو جائیں اور لے جانے میں آسانی ہو۔کچھ دنوں کے بعد میں نے’تھبی’ کے گرد رسی ڈالی اور اسے اپنے سر پر۔ اٹھا  کر کھوہ سے اپنے گھر لے گیا۔جب میں گھر پہنچا تو میں نے تھبی کو زمین پر پھینک دیا ۔۔ تھبی سے ایک سانپ نکل کر رینگنے لگا۔یہ تھبی میں چھپا ہوا  تھا ۔اور میں نے انجانے میں سانپ کو دس منٹ تک اپنے سر پر رکھے رکھا۔ میں نے اس سانپ کو ماردیا۔

چند دن بعد عشاء کے بعد میں جنازہ میں شرکت کرکے دیر سے واپس آرہا تھا۔ لاہنی مسجد کے قریب ایک سانپ نے مجھے بائیں پیر کے انگوٹھے پر ڈس لیا۔ میں گھر کی طرف بھاگا جب گھر پہنچا تو سب سو رہے تھے۔میں کسی کو بتائے بغیر بستر پر چلا گیا۔کہ صبح آرام سے بتا دوں گا۔کچھ دیر بعد درد شدت اختیار کر گیا تو میں نے امی کو جگایا۔ پھر  تو ایمرجنسی کا اعلان کر دیا گیا۔۔  محلے کے سبھی لوگ جا گ گے۔۔ اٹھ کھڑے ہوئے،لالٹین روشن ہو گئیں۔ ابتدائی طبی امداد کے طور پر مجھے گرم دیسی گھی دیا گیا جس میں کالی مرچ تھی۔ آدھے گھنٹے کے بعد مجھے جلاب لگ گئے۔جٹکی طب کے مطابق توقع تھی کہ جلاب کے ذریعے سانپ کا زہر جسم سے باہر نکل جائے گا۔

پھر بابا   صاحب خان کھیڑا  کو دم کے لیے بلایا گیا۔ مجھے ایک کمرے میں الگ تھلگ کر دیا گیا ۔ امی جان کے علاوہ کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں تھی .وہ کھانا لے کر آتی اور میرا پیشاب/ پاخانہ صاف کرتیں۔اہم ترین احتیاط’الا ء ‘سے بچنا تھی یعنی کان میں کوئی آواز نہ پہنچے۔یہاں تک کہ الاء سے بچنے کے لیے ،اللہ معاف کرے، مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے اذان بھی روک دی گئی۔

بابا جی روزانہ دو بار دم کرنے آتے۔زہر چوسنے کے لیے بٹیر کا گوشت زخم کے گرد لپیٹا جاتا تھا۔  اس کا رنگ قد ر تی طور پر ایک دن بعد سڑ کر کا لا ہو جا تا۔بابا جی فرماتے۔۔۔زہر چوسنے کی وجہ سے کالا ہو گیا ہے۔

دم  کے الفاظ یہ تھے۔

چلا جا       چلا جا

واسطہ ای    ماوُ     ناں   جِس     تواں   دُدھ   پِوايا

واسطہ ای   نانی   ناں   جس   تواں کھِڈایا

اگے     ونجیں   اگے     کیِلاں

پچھے    ونجیں   پچھے   کیِلاں

غسل سے اجتناب ضروری تھامیں تیمم کر کے نماز پڑھتا تھا۔10 دن کے بعد مجھے فٹ قرار دیا گیا اور غسل صحت  کیا۔

ہما را گاؤں والا گھر 1947 میں بنا تھا ۔اس کی  قدیم روایتی  چھت   ہے جس میں ایک شہتیر  ہوتا ہے۔اس کے اوپر مٹی ہے ۔شہتیرتھوڑا سا دیوار سے باہر نکلا ہوا ہے۔2005 میں سانپوں کا جوڑا شیہتیرکے ساتھ سوراخ سے اکٹھا باہر نکلتے ہوئے پھنس گیا۔ پتہ نہیں کب سے انہوں نے چھت میں بل بنا رکھا تھا۔ سانپوں کے منہ والا حصہ باہر لٹک رہا تھا۔ہمارے پڑوسی بھٹو نے فائر کر کے انہیں مار دیا

لسانیات :

کھُوہ – کنواں ، رہٹ ( یہاں رہٹ مراد ہے جس سے کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں۔ عموما اُس سارے قطعہ زمیں کو کُھوہ ہی کہا جاتا ہے۔ )

الاء   – بولنا، بات چیت کرنا     مریض اُبرنا  الانا نئیں  یعنی  مریض   بات چیت نہیں کرتا بولتا نہیں

اوہا  مٹھیاں  گالیں  الاؤ  مٹھن   پیر مهرعلی  شاهؒ   ( مجھ سے پھر وہی میٹھی گفتگو کرو)

کیلاں   –   سانپ کِیلْنا۔،کسی عمل کے زور سے سانپ کو کاٹنے سے باز رکھنا۔ اور اپنی جگہ سے جُنبِش کرنے سے باز رکھنا ؛

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

One thought on “ملہو والا کا سانپ اور بابا صاحب خان کا دم

Comments are closed.

Next Post

28اپریل ...تاریخ کے آئینے میں

جمعرات اپریل 28 , 2022
28اپریل ...تاریخ کے آئینے میں
28اپریل …تاریخ کے آئینے میں

مزید دلچسپ تحریریں