پنڈی گھیب کا درخشاں ستارا۔ کے بی عزیز

پنڈی گھیب کا درخشاں ستارا۔ کے بی عزیز

کالم نگار:۔ سید حبدار قائم

خان بہادر عزیز المعروف ”کے بی عزیز“

7 اپریل 1953 کو پنڈیگھیب میں حوالدار کرم داد خان کے گھر پیدا ہوۓ آپ 1978 سے لے کر 2012 تک نواۓ وقت سے منسلک رہے اور 34 سال صحافت کی بے لوث خدمت کی آپ ہمیشہ مظلوموں کی آواز بنے اور مظلوم کا درد ایوانوں تک پہنچایا پاکستان سوشل ایسوسی ایشن نے اس سماجی خدمت پر انہیں  دو مرتبہ گولڈ میڈل سے بھی نوازا۔

1987 یا اس سے ایک سال قبل  کی بات ہے جب خان بہادر عزیز المعروف ”کے بی عزیز“ روزنامہ نوائے وقت کے نامہ نگار تھے اس وقت ان کی بہت زیادہ شہرت تھی وہ بہت لطیف طبیعت کے مالک تھے ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ سجاۓ رکھنا ان کا شعار تھا بلا کے تحمل مزاج خوش لباس  اور مہمان نواز تھے اس دور میں وہ چاہتے تھے کہ پنڈی گھیب میں کوئی ایسی ادبی تنظیم بنائی جائے جس میں ادب کے فروغ کے لیے کام کیا جا سکے تو اس مقصد کے لیے انہوں نے شعیب ہمیش کو دعوت پر بلایا جو کہ اس وقت کے مشہور شاعر اور نثر نگار تھے اور واہ کینٹ میں ملازمت کرتے تھے ان کو ادبی تنظیم بنانےکی تجویز پیش کی جس پر شعیب ہمیش نے آمین کہا اور ایک ادبی تنظیم حلقہ ارباب شاد کے نام سے بنائ۔ 

 کے بی عزیز نے اپنے دفتر کے ساتھ ہی حلقہ ارباب شاد کا دفتر قائم کیا اور ماہانہ بنیادوں پر مشاعرے کروائے اور دور دور سے ادیبوں کو بلوایا جن میں اس وقت کے بہت نامی گرامی لوگ بھی تھے جن میں میجر ضمیر جعفری، انور مسعود ، نثار ترابی ، نعت خواں منظور الکونین، شعیب ہمیش، قیوم طاہر شامل ہیں ایسے شعرا آۓ اور کلام سنا کر ڈھیروں داد پائ 

پنڈی گھیب کا درخشاں ستارا۔ کے بی عزیز

شوکت کمال رانا احمدال سے سید حبدار قائم  غریب وال سے اور معروف کہانی کار علی احمد تبسم غریبوال سے اس تنظیم میں شامل ہوۓ تھے علی احمد تبسم نے جنرل سیکرٹری کے فرائض  سر انجام دیے اور شعیب ہمیش تنظیم کے کنوینیئر تھے  اس کے بعد توکل سائل اس ادبی تنظیم کے روح رواں پنڈیگھیب سے تھے ان کی موجودگی سے یہ تنظیم بہت عرصہ تک چلتی رہی ہے اور  عبداللہ صحرائی، لیاقت صاحب اور شوکت صاحب بھی اس میں آتے تھے نوجوان شاعر طارق وفا کی شاعری اس وقت بہت مشہور تھی وہ بھی آتے تھے اس طرح پنڈیگھیب کے یہ سارے شعرا ادب کا نام زندہ رکھے ہوۓ تھے اور اس میں کام کرتے تھے دو تین نام ایسے بھی ہیں کہ جو مجھے یاد نہیں رہے لیکن کے بھی عزیز صاحب باقاعدگی سے مشاعرے منعقد کرواتے تھے شعرا کی خدمت کرتے تھے اور اس کی خبریں نوائے وقت میں بھی شائع کراتے تھے میرے خیال میں اس وقت یہ پنڈی گھیب کی واحد ادبی تنظیم تھی جو مسلسل اخبارات کی زینت بن رہی تھی اور اس میں کے بی عزیز صاحب تنظیم کے اجلاسوں کی  خبریں بھجوا رہے تھے مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ کے بی عزیز نے اس تنظیم کے لیے بہت زیادہ محنت کی اس لیے ادب کی ترویج میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رکھا جائے گا میں نے بھی شعر لکھنے کی وہاں سے ہی ابتدا کی پہلے میں مختلف رسائل میں کہانیاں لکھتا تھا  اس کے بعد جب کے بی عزیز صاحب نے یہ تنظیم بنائی تو میں نے بھی شاعری شروع کر دی اور توکل سائل سے اصلاح لینا شروع کر دی یہ تنظیم ہمارے پنڈی گھیب کے ملحقہ گاؤں دندی کے رہنے والے کرنل شیر محمد شاد مرحوم کے نام پر قائم کی گئی جو اس علاقے کا فخر تھے اور ایک عظیم لکھاری تھے جن کی میرے خیال میں کوئی کتاب بھی آئی ہوگی لیکن میں نے ان کی کتاب کا تذکرہ کہیں نہیں سنا ان شعرا اور ادیبوں نے اس چراغ میں اپنا لہو ڈالا اور یہ چراغ روشن تر ہوتا گیا جنرل سیکرٹری علی احمد تبسم کا اس تنظیم میں بہت عمل دخل تھا کیونکہ وہ غریب وال گاؤں کے ایسے کہانی کار تھے کہ جن کے دور دور تک چرچے تھے وقت نے انہیں زیادہ دیر زندہ نہ رہنے دیا اور وہ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے اور ایک کہانیوں والا سلسلہ ختم ہو گیا ہمارے غریبوال کے  سب سے پہلے وہی رائٹر تھے اور ان کے بعد پھر میں نے لکھنا شروع کیا اور ابھی تک میں لکھ رہا ہوں اور میری آٹھ کتابیں شائع ہو چکی ہیں مجھے اس بات کے کہنے میں کوئ عار نہیں ہے کہ ”کے بی عزیز“ صاحب اگر پنڈیگھیب میں نہ ہوتے تو یہ تنظیم کبھی منظم اور قائم  نہیں رہ سکتی تھی اور آج تک جو ادب تخلیق ہو رہا ہے یہ کے بی عزیز کے لگائے ہوئے چراغ ہیں جن کی روشنی ابھی تک جاری ہے اور جاری رہے گی کے بی عزیز نے اپنی بے باک صحافت کے ساتھ ساتھ ادب کا ساتھ دیا اور ادیبوں کی خدمت بھی کی ہر مشاعرے کے اختتام پر کھانے اور چاۓ کا انتظام کرانا ان کا معمول تھا حقیقی معنوں میں وہ بہت اعلٰی درجے کے مہمان نواز تھے اگر صحیح معنوں میں ان کے دفتر کو ادبی بیٹھک نہ کہا جاۓ تو ان کی خدمات کا حق ادا نہیں ہو سکتا پنڈیگھیب کی جب بھی ادبی تاریخ لکھی جاۓ گی کے بی عزیز کے نام کے بغیر نامکمل ہو گی کیوں کہ وہ پنڈیگھیب کا درخشاں  ستارا تھے ادب اور صحافت کی خدمت پر ان کا دفتر مَلَک گردی کا بھی شکار ہوا اور بدمعاشوں نے اسے جلا دیا لیکن کے بی عزیز کا نام آج بھی دلوں میں زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا جسے کوئی نہیں مٹا سکتا

کے بی عزیز کے پاس میں جب بھی گیا وہاں کوئ نہ کوئ ادیب ملا جن میں توکل سائل علی احمد تبسم لیاقت علی لیاقت طارق وفا اور دیگر شعرا میں سے اکا دکا بھی ملتے چاۓ کا دور چلتا تو کے بی عزیز صاحب کی مسکراہٹ دیدنی ہوتی خدمت کر کے بہت خوش ہوتے ان کی ادب پروری کا دور دور تک شہرہ تھا

کے بی عزیز 24 جنوری 2016 کو انتقال کر گۓ اللہ تعالٰی ان کی مغفرت فرماۓ ۔آمین

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کیا      آپ      بھی      لکھاری      ہیں؟

اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

[email protected]

Next Post

گوگل میپس کا گلف آف میکسیکو کا نام بدلنے کا اشارہ

منگل جنوری 28 , 2025
گوگل نے پیر کو ایک ایکس پوسٹ میں کہا ہے کہ گوگل میپس امریکی جغرافیائی ناموں کے نظام میں باضابطہ طور پر
گوگل میپس کا گلف آف میکسیکو کا نام بدلنے کا اشارہ

مزید دلچسپ تحریریں