"عید کا دوسرا دن – یومِ سسرال”
تحریر محمد ذیشان بٹ
یہ عید بھی گئی یارو، کچھ سُکھ کا سانس لو
پر دامادوں کے لیے اب بھی ہے، سسرال کا غم کھلو
عید کا دوسرا دن آتے ہی ایک سنسنی سی دوڑ جاتی ہے، خاص طور پر ان مرد حضرات میں جو نکاح نامے کے ساتھ ہی "سسرالی پروٹوکول” کے دائمی قیدی بن چکے ہوتے ہیں۔ پہلا دن تو عید کی خوشیوں، مہمانوں کی آمدورفت، اور عیدی بٹورنے میں گزر جاتا ہے، لیکن دوسرے دن صبح ہی سے بیگم کے چہرے پر "یاد ہے نا، آج سسرال جانا ہے؟” کی تحریر واضح ہوتی ہے۔ اور جیسے ہی شوہر ذرا غفلت برتنے کی کوشش کرتا ہے، ایک گرجدار آواز آتی ہے، "چلیں؟”
یہ دن درحقیقت رشتہ داروں سے روابط مضبوط کرنے کے لیے مخصوص ہوتا ہے، لیکن دامادوں کے لیے یہ ایک طرح کا سسرالی احتسابی دن بھی ثابت ہوتا ہے۔ جس دن ان سے محبت اور مہمان نوازی کا وہ قرض اتارنے کی کوشش کی جاتی ہے جو شاید انہوں نے کبھی لیا ہی نہ ہو۔ دروازہ کھلتے ہی سسرال کے سب افراد ایسے ملتے ہیں جیسے کئی سال بعد وطن واپسی ہوئی ہو۔ ہر خالہ، پھوپھی، چاچی اور ممانی خصوصی تپاک سے گلے لگاتی ہے، اور ساتھ ہی یہ جملہ بھی چپکا دیتی ہے، "بس اب تو آپ نے بھلا ہی دیا، کبھی آتے ہی نہیں!” اندر داخل ہوتے ہی قصیدے شروع ہوجاتے ہیں، "بیٹی کو کتنی عزت دی ہے، ماشاءاللہ بہت خوش لگ رہی ہے!” اور اگر داماد ذرا ہشاش بشاش نظر آ رہا ہو تو اس کی وجہ بھی فوراً دریافت کر لی جاتی ہے، "ضرور کوئی خاص عیدی ملی ہوگی!”
کھانے کے معاملے میں سسرالیوں کی محبت کمال ہوتی ہے۔ دستر خوان پر انواع و اقسام کے کھانے سجے ہوتے ہیں اور ہر نوالے کے ساتھ ساس کی محبت بھری آواز گونجتی ہے، "بیٹا، اور لو، تم نے تو کچھ کھایا ہی نہیں!” حالانکہ پلیٹ میں پہلے ہی تین اقسام کے قورمے، کباب، نان، چکن روسٹ اور کچھ ایسے پکوان ہوتے ہیں جن کے نام بھی سننے کو کم ہی ملتے ہیں۔ ایسے میں داماد ایک خاص "مدعو شدہ قیدی” کی طرح اپنی بھوک سے زیادہ کھانے پر مجبور ہوتا ہے کیونکہ محبت اور سسرالی توقعات کا تقاضا یہی ہے کہ "داماد کھا کے جائے تو خوشی ہوتی ہے!”
تاہم، کچھ داماد ایسے بھی ہوتے ہیں جو بلاوجہ کی عزت افزائی اور اضافی خاطر مدارت کے طلب گار ہوتے ہیں۔ ان کا ماننا ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے سارا سال بیوی کے ناز نخرے برداشت کیے ہیں تو کم از کم عید کے دن تو انہیں VIP پروٹوکول ملنا چاہیے۔ وہ کھانے کے دوران بھی ایسے اشارے دیتے ہیں جیسے کسی شاہی دربار میں بیٹھے ہوں، اور اگر کہیں چائے یا قہوے میں تاخیر ہوجائے تو چہرے پر ایسا رنگ آ جاتا ہے جیسے ان کی سلطنت پر کوئی حملہ ہو گیا ہو۔
یومِ سسرال کا سب سے دلچسپ مرحلہ وہ ہوتا ہے جب واپسی کی تیاری ہو رہی ہوتی ہے۔ ہر رشتہ دار اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ جاتے ہوئے داماد کی گاڑی میں کم از کم تین، چار ڈبے شیرینی کے اور کچھ "ضروری سامان” لازمی ہو۔ یہ ضروری سامان درحقیقت وہ کھانے ہوتے ہیں جو بیٹی کے لیے رکھے جاتے ہیں، مگر داماد کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ انہیں محبت سے اٹھائے اور خوش دلی سے قبول کرے، چاہے گاڑی میں جگہ ہو یا نہ ہو۔
عید کا دوسرا دن، یوں تو قربتوں کو مضبوط کرنے کا دن ہے، مگر کچھ داماد اسے آزمائش بھی سمجھتے ہیں۔ تاہم، حقیقت یہی ہے کہ سسرالی رشتے اگر خلوص اور محبت سے نبھائے جائیں تو یہ زندگی میں اضافی خوشی اور اپنائیت لے کر آتے ہیں۔ اب چاہے داماد کو VIP پروٹوکول ملے یا نہ ملے، لیکن ایک بات تو طے ہے، سسرال کی محبت کسی بھی قسم کے پروٹوکول سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے!

محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |