بیگم کی سرائے
جی۔ٹی روڈ ایشیا کی سب سے پرانی اور سب سے لمبی سڑک ہے۔یہ سڑک پشاور سے شروع ہو کر کلکتہ تک جاتی ہے۔اس سڑک کا جو حصّہ اٹک سے گزرتا ہے اسکو N_5 کہا جاتا ہے ۔یہ سڑک زمانۂ قديم میں تجارتی راستہ کے طور پر استعمال ہوتی تھی ۔اس وجہ سے اس سڑک کے اطراف میں کارواں سراۓ بنانے کو ترجیح دی گئی ۔
جب کارواں سراۓ کا ذکر کیا جائے تو اٹک میں واقعہ بیگم کی سراۓ کا ذکر لازم ہے ۔یہ سراۓ کب تعمیر کی گئی اور کس نے تعمیر کی اس کے ٹھوس شواہد موجود نہیں مگر کچھ خوش خط ملے ہیں جو اس کے متوقع دور کا پتا دیتے ہیں۔کچھ تاریخ دان کا کہنا ہے کہ یہ سراۓ بادشاہ جہانگیر نے اپنی زوجہ نور جہاں کے لیے بنوای جب کہ کچھ محققین کے مطابق یہ بہرام خان نے اپنی زوجہ کے لیۓ بنوای جو بعد میں اکبر کی چوتھی بیگم بنی۔
قدیم سرا ۓ اس طرز پر بنائی جاتی تھیں کہ اس میں چار دیواری اور ایک داخلی دروازہ ہوتا تھا یہ طرز تعمیر بادشاہ اکبر کے دور تک جاری رہا جسکی ایک مثال بیگم کی سرا ۓ ہے۔ غرض مغل دور کی تمام سراۓ میں دو داخلی دروازے بناۓ جاتے تھے ۔
سراۓ عموماً چوکور طرز بنائی جاتی تھیں مگر اس کا انحصار بہت حد تک دستیاب زمین پر ہوتا تھا ۔
بیگم کی سرا ۓ کو بہترین چوکور طرز پر بنایا گیا ہے ۔سرا ۓ کے سامنے موجود بر آمدے اسکو شدید موسمی اثرات جیسے دھوپ,ہوا ,بارش وغیرہ سے محفوظ رکھتے ہیں ۔
عمموماً سراۓ میں کھڑکیاں یا روشن دان نہیں بناۓ جاتے تھے مگر بیگم کے سرا ۓ میں چار کمرے ہیں جن میں روشن دان موجود ہیں ۔
بیگم کی سرا ۓمیں معززین کے لیۓ انتہائی آرام دہ اور بڑے ہال نما کمرے ہیں جن کے سامنے بر آمدے اور پیچھے آٹھ پہلو کمرے ہیں اِن کمروں کی کھڑکیوں سے دریاۓ سندھ کا خوبصورت منظر دیکھا جا سکتا ہے ۔بڑے کمروں کی دونوں جانب دو چھوٹے کمرے بھی موجود ہیں اور چھت کی طرف جانے والی سیڑھیاں بھی موجود ہیں ۔سرا ۓ کے صحن میں مسجد بھی تعمیر کی گئی ہے جب کہ چار دیواری کے باہر ایک کنواں بھی موجود ہے ۔
سرا ۓ کا دروازہ PWD کے ڈاک بنگلہ کے پیچھے ہے ۔غرض شیر شاہ سوری کے دور میں سرا ۓ ڈاک چوکی کے طور پر بھی استعمال ہوتے تھے اور سرا ۓ میں دو گھوڑے فوری سواری کے لیۓ بھی موجود ہوتے تھے ۔عین ممکن ہے کہ بیگم کی سراۓ کو بھی کسی دور میں ڈاک چوکی کے طور پر استعمال کیا گیا ہو ۔ ایک مصنف "سلمان راشد ” نے اپنے ایک اشار ے میں بیگم کی سرا ۓ کا ذکر کچھ یوں کیا کہ یہ سرا ۓ قلعہ بند کیا گیا تاکہ ان میں رات گزارنے کے لیۓ ڈاکوؤں کو ٹھہرایا جا سکے مگر اس بات کے حقیقت ہونے میں کئی شبہات موجود ہیں۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔