انسانی ترقی میں بڑے دماغوں کا کردار
قدیم یونان کا مشہور خبطی فلسفی دیو جانسن کلبی خود کو ایتھنز کی بجائے پوری دنیا کا شہری مانتا تھا۔ کیا دنیا میں سرحدیں کبھی ختم ہو سکیں گی؟ اصل میں تو انسان ایک آدم کی اولاد ہے اور ایک ہی خاندان اور حسب و نسب سے جڑا ہوا ہے۔ لیکن ساری دنیا کے شہری بھلا ایک جیسے مساوی حقوق کے حامل کیسے ہو سکتے ہیں؟ یہ مخبوط الحواس فلسفی جانسن کلبی ہی تھا جس نے ملکوں اور سرحدوں کے فلسفہ کو رد کرتے ہوئے دنیا کو پہلی بار عالمگیریت (Universalism) کے تصور سے متعارف کروایا تھا۔ جانسن کلبی کی عادات اور نظریات ایسے تھے کہ وہ آج زندہ ہوتا تو حکومت اسے "پاگل” قرار دے کر کسی جیل میں بند کر دیتی۔ حالانکہ ایتھنز بھی ایک پولیس سٹیٹ تھی مگر جانسن کلبی کو مکمل آزادی تھی کہ وہ جہاں چاہے گلی گلی میں اپنا کتا ساتھ لے کر گھوم پھر سکتا تھا۔ یہ ننگ دھڑنگ فلسفی اپنے کتے اور چراغ کو لے کر دن دہاڑے ایتھنز کی گلیوں میں نکلتا، سیانے لوگ اسے دیکھتے تو ہنستے اور پوچھتے: "ارے نادان، دن کی روشنی میں چراغ لے کر کیا ڈھونڈ رہے ہو؟” اس پر دیو جانس ہنستا اور کہتا، "روشنی کہاں ہے ہر طرف تو اندھیرا ہے۔”
آج دنیا واقعی ایک "عالمی گاؤں” (Global Village) بن چکی ہے اور فاصلے تو ختم ہو گئے ہیں مگر اندھیرا ہے کہ مسلسل بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ علم کے فروغ کے باوجود جہالت یے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہے مگر ہر دل میں مادیت، تعصب اور نفرت بھرتی جا رہی ہے۔ آپ مہینوں اور سالوں کی محنت اور خون پسینے سے تعمیرات کرتے ہیں اور پھر پل بھر میں انہیں جہازوں اور بمبوں سے اڑا دیتے ہیں۔ اس سنکی یونانی فلاسفر نے یہ بات 3500 سال پہلے کہی جسے وہ سالہا سال تک روزانہ دہراتا رہا۔ اس کی بات پر کسی نے توجہ نہیں دی اور آج انسان اپنے ہی بنائے ہوئے ہتھیاروں کی بھٹی میں جل رہا ہے۔ ایک دن اسی جانسن کلبی نے گڈرئیے کو ہاتھ کی انگلیوں سے پیالہ بنا کر پانی پیتے دیکھا تھا تو اس نے اپنا پیالہ پھینک کر توڑ دیا اور کہا تھا: "جو افعال فطرت سے ہم آہنگ ہوں وه غیر اخلاقی یا گناه کبھی نہیں ہو سکتے۔”
یہ ان دنوں کی بات ہے جب کلاسیکی ایتھنز فنون لطیفہ اور فلسفہ سیکھنے کی افلاطون کی اکادمی اور ارسطو کی لیکیون (لائسیم) کا گھر بھی تھا۔ ایتھنز کی اسی زرخیز زمین پر سقراط، افلاطون، پیری کلیز، ارسطوفینں، سوفوکلیز، اور قدیم دنیا کے بہت سے دوسرے ممتاز فلسفی، ادیب اور سیاست دان پیدا ہوئے۔
پوری دنیا کی دانش و حکمت پر قدیم یونانی تہذیب و فلسفہ کی چھاپ آج بھی بدرجہ اتم نظر آتی ہے اور دنیا کا کوئی ایک بھی ایسا فکر و فلسفہ نہیں ہے جس نے قدیم یونان (ایتھنز) کے فلسفیوں کے نظریات سے استفادہ نہ کیا ہو۔
سکندر اعظم مقدونیہ سے پوری دنیا کو فتح کرنے کا خواب لے کر نکلا تھا جس کا استاد ایتھنز ہی کا عظیم الشان فلسفی ارسطو تھا۔ کہتے ہیں کہ سکندر اعظم ملک و ملک فتح کرتے کرتے پاکستان کے علاقے جہلم تک پہنچ گیا تھا۔ دنیا آج بھی سکندر اعظم کو "الیگزینڈر دی گریٹ” (Alexander The Great) کہتی ہے۔ اگر سکندر اعظم کا استاد قدیم یونان کا مشہور فلسفی ارسطو نہ ہوتا تو شائد سکندر کبھی بھی "سکندر اعظم” نہ بن پاتا۔ سکندر اعظم اور اہل یونان کو یہ علمی عروج بخشنے والے یہی بڑے دماغ تھے جنہوں نے عوام اور خواص کے دماغوں میں علم کا نور روشن کیا اور انہیں بتایا کہ دنیا پر حکمرانی کرنے کے آداب کیا ہیں۔
اسلام اور مسلمانوں کے ابتدائی عروج میں بھی علم و فلسفہ کا بنیادی کردار رہا جب انہوں نے قرآن عظیم جیسی الہامی کتاب کو اپنی عملی زندگیوں کا حصہ بنایا اور بعد میں آنے والے مسلم حکمرانوں بنو امیہ، بنو عباس اور عثمانیوں نے امام غزالی، عبدالرحمن الخازن، جابر بن حیان، ابن سینہ، ابن الہشیم، البیرونی، ابن رشد، نصیرالدین طوسی اور ابن خلدون جیسے مشہور اور بڑے دماغوں کی سرپرستی کی جو حکمت اور دانائی کے موتی پھیلانے میں اپنی مثال آپ تھے۔
ہر عظیم قوم اپنی ترقی کا انحصار بڑے دماغوں پر کرتی ہے۔ یورپ کا سائنسی انقلاب بھی اسی وقت برپا ہوا جب ان ممالک میں فلسفیوں اور سائنس دانوں کی صورت میں جان لاک، ہیگل، کارل مارکس، ولیم جیمس، برٹرینڈ رسل، گیلیلیو، آئیزک نیوٹن، کوپرنکس، فیراڈے، میری کیوری، البرٹ آئن سٹائن، تھامس ہارڈی اور سٹیفن ہاکنگ وغیرہ جیسے بڑے دماغ پیدا ہوئے جو یورپ کی تحریک احیائے علوم (Renaissance Momvement) کے برپا ہونے کا سبب بنے۔ مسلم دنیا اور مغربی ممالک میں جب ان جیسے دوسرے بڑے دماغوں پر زندگی تنگ کی گئی تو دونوں قومیں زوال کا شکار ہوئیں اور جب ان کی حوصلہ افزائی کی گئی تو انہوں نے ترقی کی۔ عثمانیہ دور کے آخری خلفاء نے چھاپہ خانہ پر 100 سال تک پابندی لگائے رکھی۔ حتی کہ چھاپہ خانہ سے پہلا قرآن کا نسخہ کسی مسلمان ملک سے نہیں بلکہ کیمونسٹ ملک روس سے چھپا تھا۔ اسی طرح جب انگلینڈ میں پاپائیت کا زور تھا اور برونو جیسے سائنس دانوں کو تیل کے گرم کڑاہوں میں جلایا جا رہا تھا تو اس عہد کو "یورپ کا تاریک دور” کہا گیا۔ یہاں تک کہ برصغیر میں جب مغلیہ شہنشاہوں کو علم و ادب سے دلچسپی نہ رہی اور عیش و عشرت کی زندگی میں پڑے تو اہل مغرب نے کیمبرج اور آکسفورڈ جیسی عظیم یونیورسٹیاں بنائیں، بندوق، توپ اور گن پاؤڈر جیسی سائنسی ایجادات کیں، جن کے بل بوتے پر وہ برصغیر پاک و ہند پر قابض ہوئے اور وہاں سو سال سے زیادہ عرصہ تک شاندار حکومت کرنے میں کامیاب رہے۔
پاکستان کے قیام میں قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال جیسے بڑے دماغ شامل تھے۔ چین پاکستان کے دو سال بعد سنہ 1949ء میں آزاد ہوا جس کی تیزی سے ترقی کرنے کے پیچھے بھی عظیم فلاسفر کنفیوشس (Confucius) کے نظریات شامل ہیں۔ جبکہ آج دنیا جتنی بھی سائنسی ترقی کر رہی ہے اس کو مہمیز دینے میں بھی یورپ میں واقع دنیا کی سب سے بڑی لیبارٹری سرن (CERN) اور امریکی خلائی ادارہ ناسا (NASA) کے سائنس دانوں کا ہاتھ ہے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔