مستقبل میں مصنوعی ذہانت کا کردار
مصنوعی ذہانت جسے انگریزی زبان میں آرٹیفیشئل انٹیلیجنس artificial intelligence (اے آئی) کہتے ہیں آنے والے ادوار میں انسان کی زندگیوں کو اسی حیرت انگیز طریقے سے بدل دے گی جس طرح سائنس فکشن میں ایک فلمی ہیرو ناقابل یقین اور محیرالعقول کارنامے انجام دیتا ہے۔ ہماری روزمرہ کی زندگی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے پہلے ہی اتنی ترقی کر چکی ہے کہ زمانہ قدیم کا کوئی انسان اچانک اس دنیا میں آ جائے تو وہ اسے انسانوں کی دنیا ہرگز قرار نہیں دے گا بلکہ یقینا یہ دعوی کرے گا کہ "یہ دنیا کوئی جادو نگری یا جنات کا ٹھکانہ ہے!” یہاں تک کہ ہمارے نظام آواز سے لے کر صنعت اور خود کار ڈرائیونگ تک ہماری زندگیاں اس قدر بدلتی جا رہی ہیں کہ ہم ایک دن اپنے انسان ہونے کے مفہوم کو یکسر بدلنے پر مجبور ہو جائیں گے!
ہم آج کی اس نشت میں زندگی کے ان مثبت اور منفی پہلوو’ں کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے نزدیک کے مستقبل کو انسان ہی کی تخلیق کردہ مصنوعی ذہانت artificial intelligence ششدر اور حیران کن حد تک کس طرح تبدیل کر دے گی۔
زندگی کے درخشاں پہلوؤں کے اعتبار سے مصنوعی ذہانت کسی نعمت اور رحمت خداوندی سے کم نہیں ہے کہ مصنوعی ذہانت artificial intelligence کی عین تشخیص حفظان صحت اور ادویہ کے شعبے میں ایک ایسا انقلاب برپا کر دے گی کہ اس کے ذریعے انسانی جینیٹکس کا تجزیہ ہو سکے گا، ماحول، علاج، ڈیجیٹل تھیراپی اور انداز زندگی کے اعداد و شمار کا احاطہ کیا جا سکے گا، حتی کہ بیماری اور برائی وغیرہ سے پاک "پرفیکٹ بیبیز” پیدا ہونے لگیں گے جس سے انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں صحت اور لمبی زندگی کا دورانیہ بڑھ جائے گا۔
زمینی سفر کے حوالے سے پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں کہ انٹرنیٹ اور الگورتھم کے کمالات سے سنہ 2035ء تک 70% گاڑیاں انسانی ڈرائیورز کے بغیر چلنے لگیں گی، یہاں تک کہ مصنوعی ذہانت artificial intelligence سے لیس بائکس اور کاریں وغیرہ صلاحیت، ادراک، مشاہدے، پیش گوئی اور کارکردگی کے اعتبار سے حقیقی انسانی ذہانت کو اتنا پیچھے چھوڑ دیں گی کہ سفر حادثات سے کافی حد تک محفوظ ہو جائے گا۔
اس کے برعکس زندگی کے تاریک پہلوؤں کے حوالے سے مصنوعی ذہانت artificial intelligence کے بہت سے منفی اثرات بھی موجود ہیں کہ اس سے اخلاقیات کے تباہ ہونے کے بھی واضح امکانات موجود ہیں جس سے الگورتھم کے غیرضروری اور نامناسب استعمال سے "اکاونٹیبلٹی” اور "لائف پرائیویسی” ختم ہو کر رہ جائے گی، انسانوں میں تعصب اور منافقت بڑھ جائے گی، خریدوفروخت، تجارت، فیصلہ سازی اور جرائم کے خلاف عدالتی نظام تباہ ہو کر رہ جائے گا۔
اسی طرح آرٹیفیشئل انٹیلیجنس artificial intelligence کی مزید ترقی اور زیادہ استعمال سے روزگار کے اصولوں پر منفی اثر پڑے گا اور دنیا میں بے روزگاری کا ایک سیلاب آ جائے گا جبکہ نئے ذرائع کی عدم دریافت اور مین پاور کے اضافے سے دنیا میں دولت کے ارتکاز میں اضافہ ہو گا اور حسد و نفرت کے بڑھ جانے کی وجہ سے دنیا میں شدت پسندی اور امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو گا۔
خیر اور شر کے حوالوں سے انسان کی زندگی میں یہ مصنوعی ذہانت کے ایسے امکانی پہلو ہیں کہ جن میں توازان پیدا کرنے کے لیئے دنیا کو ابھی سے سوچ بچار کرنی چایئے۔ افراط و تفریط زندگی کی بقا کے لیئے زہر قاتل ہے۔ ہم مصنوعی ذہانت artificial intelligence کے ذریعے ایک مشین میں داخل ہو کر چند سیکنڈوں میں لاکھوں، کروڑوں اور اربوں میل کے فاصلے پر موجود کسی ستارے کی سطح پر تو اتر سکتے ہیں مگر یہ مفروضی آرٹیفیشئل انٹیلیجنس جب ہمارے بیالوجیکل عقل و شعور کو مکمل طور پر عبور کرے گی تو خود ہماری زندگی ہی خطرے سے دو چار ہو جائے گی۔ یہ بڑھتی ہوئی مصنوعی ذہانت کے بارے ایسے امکانی سوالات ہیں جن سے ہمیں آنے والے کل واسطہ پڑنے والا ہے۔ انسان کا محفوظ اور پائیدار مستقبل انسانی اقدار و ہمدردی، فلسفیانہ مکالمے اور معیاری دانش و حکمت پر استوار ہوتا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایسے سوالات کے بارے سوچنے اور ان کے معقول جوابات یا حل ڈھونڈنے والا ابھی کوئی طبقہ پیدا ہی نہیں ہوا ہے۔
Title Image by Gerd Altmann from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔