کیا اردو زبان کی موجودہ حالت زار اسی قدرتی مصلحت کا حصہ نہیں ہے جس کے تحت پوری امت مسلمہ اقتصادی اور سیاسی طور پر اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے زوال پذیر ہے؟ تاریخ گواہ ہے جب کبھی مسلمانوں پر آ فت آ ئ ہے تو جو چیز سب سے پہلے زوال پذیر ہوئی وہ انکی زبان تھی۔ دیگر اشیاء تو بعد میں آ تی ہیں۔ سلطنت عثمانیہ کی عبرت ناک مثال ہمارے سامنے ہے جہاں نوجوان نسل عربی سے دل برداشتہ ہونے لگی تھی اور اسکا رجہان ترکی زبان کی طرف ہو گیا تھا۔ جب مصطفیٰ کمال اتاترک کی عیاریوں کی وجہ سے سلطنت عثمانیہ زوال پذیر ہوئی اور اسکی حکومت اس دہریے اتا ترک کے ہاتھوں میں آ ئ تو اس نے عربی جو کہ ترکی کی سرکاری زبان تھی، کا خاتمہ کرکے ترکی زبان کو سرکاری کام کاج کے ساتھ ساتھ پوری ترکی کی زبان کے طور پر رائج کر دیا۔ کیا یہی سلوک آ زادی کے بعد اردو کے ساتھ نہیں ہوا!!!! آ پ اس کو ہندو مسلم کے نظریے سے نہ دیکھیں بلکہ ایک پوری قوم کے زوال کے نتیجے کے طور پر دیکھیں۔ اردو کو سرکاری زبان کے طور پر ختم کرنے کے بعد ہمارے غیر مسلم بھائیوں نے تو اپنے لئے ہندی زبان کا بندوبست کر لیا اور اسکی ترویج و اشاعت کا بھی اہتمام سرکاری طور پر ہونے لگا لیکن مسلمان اس شعر کے مصداق
"خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری”
کہیں کے نہ رہے۔ لیکن انھوں نے بحیثیت ایک قوم کے ہمت نہیں ہاری اور آ ج بھی وہ مختلف تنظیموں اور اداروں کے ذریعے اردو زبان کو اس کا کھویا ہوا حق دلوانے کے لئے کوشاں ہیں۔ لیکن ان سب کے بیچ وہ یہ بات بھول گئے کہ اردو کا زوال انکے ملی وقار کا بھی زوال ہے۔ اس لئے وہ اردو کو اس کا کھویا ہوا حق دلوانے کے لئے تو کھڑے ہو گئے لیکن اپنے ملی وقار اور تشخص کی بحالی کے لئے بحیثیت ایک قوم اتنی کوشش نہ کر سکے جتنی انھیں کرنی چاہیئے تھی۔ وہ اردو کی ترقی کے لئے تو بلا کسی مذہبی اور گروہی تفریق کے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہو جاتے ہیں لیکن اپنے ملی وقار کی بحالی کے لئے اپنے اندر موجودہ انتشار اور پھوٹ کے سبب ایک پلیٹ فارم پر آ نے سے کتراتے ہیں بلکہ اگر یوں کہیں کہ انھیں اس اقدام سے نفرت ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اردو زبان کی ترویج و ترقی کے سلسلے میں کی جانے والی انکی کوششیں یا دیگر مسائل کے حل کے لئے چلائ جانے والی تحریکیں فرمان الٰہی "واعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا” کی پابندی کے بغیر کامیاب ہو سکتی ہیں؟ تو اس کا جواب ہے ہرگز نہیں۔ اس لئے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ان کا باہمی اتحاد نا گریز ہے تبھی وہ اللّٰہ کی نصرت کے امیدوار بھی ہو سکتے ہیں۔ اس اتحاد کی صرف ایک صورت ہے کہ وہ "اطیعو اللّٰہ و اطیعو الرسول” کے مصداق بنیں۔ قرآنی تعلیمات اور اسوہء حسنہ کو اپنا نصب العین بنائیں۔ اپنے اعلیٰ اخلاق و کردار سے دنیا کے آگے مثال پیش کریں۔ اور اگر وہ یہ نہ کریں گے تو اللّٰہ انکی کمر توڑ کر رکھ دیگا، اپنی نصرت و اعانت سے انھیں محروم کرکے ذلیل و خوار کر دیگا۔ انھیں انتشار میں مبتلا کر کے دوسری قوموں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیگا(چھوڑ دے گا کیا بلکہ چھوڑ دیا ہے)۔ بڑی عبرت کا مقام ہے کہ آ ج ہماری کوئ تنظیم، ہمارا کوئ ادارہ خواہ وہ دینی ہو یا دنیوی اپنے مقاصد کے حصول میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو پا رہا ہے۔ اسکی صرف ایک وجہ ہے کہ ہم نے اللّٰہ اور اسکے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ہدایات سے فرار اختیار کرکے اپنی ترقی کے لئے دنیاوی اصول و ضوابط اختیار کر لئے ہیں۔ ہماری آ نکھیں دوسری قوموں کی ترقی دیکھ کر خیرہ ہیں اور ہم نے اپنی ترقی کے لئے وہی راہ اختیار کی ہے جو ہمیں گمراہی کے اندھیروں میں لے جاتی ہے، ہمیں اپنے نصب العین سے دور کرتی ہے، ہمارے دینی اور ملی تشخص پر سخت قدغن لگاتی ہے اور اس پر طرہ یہ کہ ہم پھر بھی خدا کی مدد کے امیدوار ہیں۔ اسے ڈھیٹ پن یا دیدہ دلیری کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے!!!
اکمل نذیر
بہرائچ، اترپردیش
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔