سفرِ وقت کا انقلاب

سفرِ وقت کا انقلاب

Dubai Naama

بہت کم لوگ ہونگے جو صبح اٹھ کر دن کا شیڈول بناتے ہیں اور اس کے مطابق کام کر کے شام کو اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ دن میں کیا کیا کام کیا، اور کیا کیا کام کرنے سے رہ گیا۔ اگر پوری توجہ دی جائے اور احتیاط کا دامن نہ چھوڑا جائے تو اپنے دن بھر کے تمام کاموں کا صحیح اور مکمل حساب رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن پورا دن ہمارے دماغ میں کیا کیا خیالات آئے اور ہم کون سی مختلف اور متنوع کیفیات سے گزرے شائد اس کی مکمل تفصیل رکھنا ممکن نہیں یے۔

کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ہم دن کے چوبیس گھنٹوں میں جو خیالات سوچتے، محسوس کرتے یا جن خیالی، تخیلاتی اور تخلیقی کیفیات وغیرہ سے گزرتے ہیں ان سب کی مکمل جزیات کو کسی طرح ریکارڈ یا محفوظ کیا جا سکے تاکہ ہم مستقبل میں اپنے گزرے ہوئے ماضی میں جھانک سکیں اور ان لمحات کو دوبارہ دیکھ اور محسوس کر سکیں جن سے ہمارا پہلے ہی واسطہ پڑ چکا ہو؟ اب اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیئے سائنس دان انسان کے دماغ میں کوئی چھوٹی مشین یا چپ وغیرہ فکس کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا ہی عمل ہے جیسے آپ کی پوری زندگی پر ایک فلم بنائی جائے جس میں آپ کی باریک بینی سے مرتب کی گئی پوری روحانی اور مادی تفصیل ہو اور جسے آپ ریورس کر کے جب چاہیں دوبارہ بھی دیکھ سکیں۔

جدید سائنسی تصور وقت میں سفر یا "ٹائم ٹریول” (Time Travel) بھی بنی نوع انسان کا ایسا ہی ایک خوبصورت خواب ہے جس کے زریعے وہ موجودہ وقت اور اس کے آگے اور پیچھے سفر کر کے اپنی زندگی کو مزید قابل قدر اور محفوظ بنانا چاہتا ہے۔ نوے کی دہائی تک ہم ٹیپ ریکارڈر اور وی سی آر کے دور سے گزر رہے تھے۔ پہلے ٹیپ ریکارڈر اور کیسٹس ہوتی تھیں جن میں ہمارے پسندیدہ گیت اور ہماری اپنی آوازیں وغیرہ ریکارڈ کی جاتی تھیں جنہیں ہم "ریوائنڈ” (Rewind) اور "فارورڈ” (Forward) کا بٹن دبا کر یعنی آگے یا پیچھے کر کے سنا کرتے تھے۔ اس کے بعد وی سی آر (VCR) آیا جس میں ہم آوازوں اور مناظر کے ساتھ فلمی اور حرکی چہرے بھی دیکھ سکتے تھے۔ اس وقت ٹی وی اور آئی فونز ہیں اور بہت جلد مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کی مشینیں بھی گھر گھر آنے والی ہیں۔ گزشتہ ستر اسی سالوں میں ہم نے سائنسی ایجادات اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے یہ چند تبدیلیاں دیکھی ہیں، جبکہ متذکرہ "سفرِ وقت کا انقلاب” (The Revolution of Time Travel) آنا ابھی باقی ہے۔

گو کہ ابھی تک ٹائم ٹریول ایک فرضی تصور ہے مگر اس نے سائنس اور فکشن دونوں کو متاثر کیا ہے جہاں اب اسے ایک حقیقت کے طور پر دیکھا اور پرکھا جا رہا ہے۔ جدید سائنس بھی اپنی ابتداء میں فرضی تصورات پر کھڑی تھی جس کا ذکر پہلے پہل عموما مذہبی اور مقدس الہامی کتابوں میں پایا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر قرآن مجید میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار اور "تخت صبا” کے سینکڑوں میل دور سے پلک جھپکنے سے بھی پہلے لانے کا ذکر ہے جو ٹائم ٹریول (Time Travel) اور ٹیلی پورٹیشن (Teleportation) کا سچا واقعہ یے۔ اسی طرح اکثر مذہبی اسطورہ میں مافوق الفطرت صلاحیتوں کے مالک انسانوں کے ہوا میں اڑنے کی کہانیاں بیان کی گئی ہیں۔ لیکن آج عام انسان بھی مشینوں اور جہازوں کے ذریعے حقیقتا ہوا میں اڑنے کا مظاہرہ کر رہے ہیں یعنی اب دنیا میں ہر جگہ پہنچنے کا ہوائی سفر بھی قدیم زبان کے انہی "اڑن کھٹولوں” میں کیا جاتا ہے۔

یونیورسٹی آف ایسٹرن فن لینڈ سے تعلق رکھنے والے اسسٹنٹ پروفیسر متیاس کویوروا نے آپٹیکا نامی سائنسی جریدے میں شائع ہونے والی اپنی ایک تحقیق میں کائنات کی خلائی اور وقت کی ایک جہت کے بارے دعوی کیا تھا کہ کائنات میں وقت صرف ایک طرف جا سکتا ہے جو اس کا صرف آگے کی طرف سفر ہے۔ یوں ان کے اس دعوی کے مطابق کسی بھی انسان کا ماضی میں جانا ناممکن ہے۔ لیکن جونہی یہ دعوی سامنے آیا دنیا کے سائنس دانوں کی اکثریت نے اس تصور کو سختی سے مسترد کر دیا اور دعوے کیئے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر شخص وقت میں واپس جانے کے قابل ہے مگر اس نے ابھی اس صلاحیت کا بھرپور استعمال کرنا نہیں سیکھا ہے۔

کائنات اور انسان کی تاریخ میں اس سے بڑا انقلاب ہو ہی نہیں سکتا کہ انسان وقت میں سفر کرنا سیکھ لے۔ ایک لمحہ کے لیئے غور کریں کہ اگر آپ وقت میں سفر کرنا سیکھ لیتے ہیں تو جہاں آپ موجودہ وقت میں زندگی سے لطف اندوز ہو سکیں گے وہاں آپ نہ صرف ماضی میں پلٹ کر کائنات اور ستاروں کو بنتے دیکھ سکیں گے وہاں آپ مستقبل میں آگے جا کر ان واقعات کا بھی مشاہدہ کر سکیں گے کہ جو ابھی رونما ہی نہیں ہوئے ہیں۔ بلفرض ایسا ہو جاتا ہے تو یہ طبیعات کے قوانین کو عبور کرنے کی جدید ترین ٹیکنالوجی ہو گی اور ٹائم ٹریول آنے والے ادوار میں باقاعدہ ایک سفری سہولت کی شکل اختیار کر لے گا یعنی عام انسان بھی وقت میں سفر کرنے سے مستفید ہو سکیں گے اور یہ بھی جان سکیں گے کہ ایسا کرنا کس طرح ممکن ہے۔

ابتداء میں ہم اکثر ہالی وڈ کی سائنس فکشن فلموں میں دیکھتے تھے کہ ٹائم ٹریول کے زریعے لوگ ماضی میں بھی جا سکتے تھے یعنی وہ زمین پر کسی روشنی کی مشین میں داخل ہو کر آنا فانا کسی دوسرے ستارے پر نمودار ہو جاتے تھے۔ تب تک ہم یہی سمجھتے تھے کہ وقت میں سفر کرنا صرف قصے کہانیاں تھے مگر سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ ٹائم ٹریول ممکن ہے اور اب ہم وقت میں سفر کرنے کے قریب پہنچ رہے ہیں۔

امریکی فلمی ادارہ ہالی وڈ ٹائم ٹریول پر آٹھ فلمیں بنا چکا ہے۔
اس موضوع کا آغاز معروف مصنف ایچ جی ویلز کے ناول "دی ٹائم مشین” سے ہوا تھا جس کی ابتداء ڈاکٹر ہو’ نے کی تھی۔ ٹائم ٹریول پر اسے متعدد بار مختلف انداز اور طریقوں سے فلموں میں پیش کیا گیا۔ ٹام کروز کی مشہور زمانہ فلم "مائی نوریٹی رپورٹ” میں کسی نہ ہونے والے واقعہ کو روکنے کی کوشش کی گئی اور "ٹینیٹ” نامی فلم میں مستقبل سے آنے والے خطرے سے نمٹا گیا۔ اس موضوع پر "سم ویئر ان ٹائم” 1980ء میں بنی جب فلم کی کہانی میں ایک شخص ایک ایسی عورت سے ملنے کے لئے ماضی میں جاتا ہے جسے اس نے صرف ایک تصویر میں دیکھا ہوتا ہے۔ اس فلم کے مرکزی کردار نے 1980 سے 1912 تک کا سفر "ہائپنوسس” (Hypnosis) کے ذریعے طے کیا۔ 1978ء میں بننے والی ایک فلم میں اداکار کرسٹوفر ریو بھی "سپر مین” کے آخری لمحات میں ٹائم ٹریول کر کے اپنی محبوبہ لوئس لین کو زندہ کرتے ہیں۔ "دی ٹرمینیٹر” 1984، "ٹرمنیٹر ٹو ججمنٹ ڈے” 1991، "گراؤنڈ ہوگ ڈے” 1993، "ٹائم کوپ” 1994، "بنیٹویلیو منکیز” 1995، "بنفریکوئنسی” 2000 اور "بنیدی بٹرفلائی” ایفیکٹ 2004 میں بنی۔ روس نے خلا پر دنیا کی پہلی فیچر فلم بنانے میں سبقت لی تھی۔ جبکہ شہرہ آفاق ٹی وی سیریز "سٹار ٹریک” کے کیپٹن کرک بھی ٹائم ٹریول کے ذریعے خلا میں پہنچے تھے۔

ورلڈ سائنس فیسٹیول کے شریک بانی اور کولمبیا یونیورسٹی کے حسابیات اور طبیعات کے پروفیسر برائن گرین کے مطابق ٹائم ٹریول دو طرح کے ہوتے ہیں اور دونوں ہی ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ موصوف پروفیسر کا دعوی ہے کہ ٹائم ٹریول کے زریعے انسان کا مستقبل میں پہنچنا یقینی طور پر ممکن ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے اور عظیم ترین سائنس دان البرٹ آئنسٹائن نے 100سال پہلے ہمیں وقت میں سفر کرنے کا طریقہ اشارتا بتا دیا تھا جب انہوں نے ثابت کیا تھا کہ اگر آپ خلاء میں جاتے ہیں اور روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہیں اور واپس آتے ہیں تو آپ کی گھڑی دنیا کی گھڑی سے سست رفتاری سے چل رہی ہو گی یعنی جب آپ دنیا میں واپس قدم رکھیں گے تو آپ "مستقبل کی دنیا” میں ہوں گے، اور آپ کو وقت گزرنے کا احساس تک نہیں ہو گا۔

البرٹ آئنسٹائن نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ اگر آپ بہت زیادہ کشش ثقل والی کسی چیز جیسا کہ "نیوٹران سٹار” یا "بلیک ہول” کے قریب ہوں گے تو آپ کیلئے وقت انتہائی سست ہو جائے گا جبکہ باقی چیزوں کے لئے وقت کی رفتار وہی رہے گی۔

دنیا کے دوسرے عظیم ترین سائنس دان سٹیفن ہاکنگ نے تو اپنی پوری زندگی بلیک ہولز پر تحقیق کرتے ہوئے گزار دی جس کے دعوی جات کی روشنی میں بلیک ہول کے احاطہ کشش یعنی "ایونٹ ہوریزون” (Event Horizon) میں اتنی زیادہ "کثافت” (Density) ہوتی ہے کہ تین لاکھ میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرنے والی روشنی بھی اس کی کشش ثقل کو توڑ کر آگے نہیں نکل سکتی ہے اور وہ بلیک ہول میں گر کر تباہ ہو جاتی ہے۔ ہاکنگ نے تجربات اور اپنی ریاضیاتی مساوات سے دعوی کیا کہ بلیک ہولز میں وقت تھم جاتا ہے اور ان کے اندر ایسے "ورم ہولز” (Wormholes) ہوتے ہیں جن کے ذریعے وقت کی دیگر جہتوں میں داخل ہوا جا سکتا ہے۔

دنیا کا تقریبا ہر طبیعات دان ٹائم ٹریول کے نظریہ کو قبول کرتا ہے۔ اس کے برعکس ٹائم ٹریول کی دوسری قسم یعنی ماضی میں سفر کرنا اگرچہ ایک متنازعہ موضوع ہے مگر یہ بھی ایک مثبت اور تعمیری بحث ہے۔ کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ورم ہولز ماضی میں سفر کرنے کے تصور کو تقویت دیتے ہیں۔

ورم ہولز کیا ہیں؟ ان کی نوعیت اور حقیقت کے بارے سب سے پہلے دنیا کو آئنسٹائن ہی نے معلومات فراہم کی تھیں۔ انہوں نے پہلی بار ورم ہولز کو دریافت کیا تھا جن پر بعد میں ہاکنگ نے اپنی سائنسی تحقیق کی بنیاد رکھی۔ ان سائنسی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ورم ہولز خلاء میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کیلئے استعمال ہونے والے پل (Bridge) ہیں۔ یہ ایسی سرنگیں ہیں جو لاکھوں اور کروڑوں میل طویل سفر کرنے کے لئے ایک "شارٹ کٹ” یعنی مختصر راستہ فراہم کرتی ہیں۔

البرٹ آئنسٹائن نے ورم ہولز کو سنہ 1935ء میں دریافت کر لیا تھا۔ لیکن بعد میں انکشاف ہوا کہ اگر آپ ورم ہول کو شروعاتی دہانے میں تبدیلی کر دیں یعنی ایک دہانے کو بلیک ہول کے پاس کھولیں یا تیز رفتاری سے سفر کروائیں تو اس ورم ہول کے دہانوں پر ہونے والا وقت ایک رفتار سے نہیں چل پائے گا جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ آپ اس ورم ہول کے زریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر نہیں کر پائیں گے، بلکہ آپ ایک وقت سے دوسرے وقت میں پہنچ جائیں گے جو وقت کی مختلف سمتوں اور متوازی (Parallel) یا ملٹی یونیورسز (Multiple Universes) کے بارے تصور ہے جس کو بھرپور انداز میں امریکہ کے طبیعات دان ہگ ایوریٹ Hugh Everett نے سنہ 1957ء میں پیش کیا جس پر انہیں "نوبل پرائز” (Noble Prize) بھی دیا گیا۔

پروفیسر برائن کہتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ ورم ہولز حقیقت ہیں بھی یا نہیں۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ کیا واقعی ان کے زریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ اگر یہ صحیح ہے تو ورم ہولز کے زریعے ٹائم ٹریول ممکن ہے۔

میرا خیال ہے کہ سفرِ وقت اس لیئے بھی ممکن ہے کیونکہ ہم اپنے دماغ میں ماضی، حال اور مستقبل کی اشکال بنانے پر قدرت رکھتے ہیں۔ اس کی دو صورتیں ہیں اول ہمارے پاس اپنی دماغی سوچ کی تفصیلات ہوں دوم ہم اپنے مادی جسم سے نکلنے پر قادر ہوں۔ یہ ٹائم ٹریول کا ایک ایسا ہی انقلاب ہو گا کہ ہم ایک دن اپنی مرضی سے مختلف کائناتوں میں رہنے یا کم از ان کا مشاہدہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔

Title Image by Willgard Krause from Pixabay

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کیا      آپ      بھی      لکھاری      ہیں؟

اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

[email protected]

Next Post

عابد علیم سہو: شخصیت و فن

منگل جنوری 21 , 2025
عابد علیم سہو ایک منفرد لب و لہجے کے شاعر ہیں جو اردو، پنجابی اور سرائیکی زبانوں میں اپنی شاعری کے ذریعے ادب کی خدمت میں مصروف ہیں
عابد علیم سہو: شخصیت و فن

مزید دلچسپ تحریریں