سائنس اور مزہب کی رو سے ‘دل’ اور ‘دماغ’ کا تعلق!

سائنس اور مزہب کی رو سے ‘دل’ اور ‘دماغ’ کا تعلق!

dubai naama

سائنس اور مزہب کی رو سے ‘دل’ اور ‘دماغ’ کا تعلق!

قرآن کریم کی یہ دعا جو حضرت موسی علیہ السلام نے مانگی تھی بہت ہی برکت اور سلامتی والی ہے: قَالَ رَبِّ اشۡرَحۡ لِىۡ صَدۡرِىْ (سورۃ نمبر 20 طه آیت نمبر 25) جس کا ترجمہ یہ ہے کہ: ‘موسیٰؑ نے کہا، اے میرے رب! میرے لئے میرا سینہ کھول دے۔’

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے جس کا ترجمہ ہے کہ: ‘موسیٰؑ نے کہا: اے میرے رب! میرے لئے میرا سینہ کھول دے اور میرے لئے میرا کام آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے کہ وہ لوگ میری بات سمجھیں اور میرے لئے میرے اہل میں سے ایک وزیر بنا دے میرے بھائی ہارون کو اس سے میری کمر کو مضبوط کر دے اور میرے مشن میں اس کو میرا شریک کر دے تاکہ ہم تیری بہت تسبیح کریں اور تجھے بہت یاد کریں بیشک تو ہمیں خوب دیکھنے والا ہے۔’ (طہ :25-35)

ویضیق صدری ولا ینطلق لسانی (الشعراء :13) میرا سینہ تنگ ہے اور میری زبان نہیں چل رہی۔ سو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ ان کے سینہ کی تنگی کو فراخی اور وسعت سے تبدیل کر دے اور یہ بھی کہا کہ ان کا منشاء یہ تھا کہ اللہ تعالٰی ان کو جرأت، ہمت اور حوصلہ عطا فرما دے۔

حضرت موسیٰؑ علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ میرا سینہ کھول دے بلکہ یہ فرمایا تھا کہ، ‘میرے لئے میرا سینہ کھول دے’ تاکہ یہ معلوم ہو کہ اس شرح صدر کا فائدہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پہنچے اور وہ اس سے استفادہ کر سکیں۔

اب جدید سائنس نے یہ انکشاف کیا ہے کہ دماغ کے علاوہ ہمارے سینے میں پائے جانے والے دل میں بھی ایسے سیلز موجود ہیں کہ جن کا تعلق دماغ کو سوچنے اور غوروفکر کرنے پر مجبور کرنے سے ہے۔ اگر ہمارا دل زندگی کی جل ترنگوں اور امنگوں سے خالی ہو جاتا ہے اور ہم مایوسی یا ڈپریشن وغیرہ کا شکار ہو جاتے ہیں تو جہاں اس سے ہمارا نظام دفاع (Immunity System) اور دماغ کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے وہاں ہمارے جسم کے دوسرے تمام اعضاء بھی مضمحل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اسلام نے اسی لئے مایوسی کو ‘حرام’ قرار دیا ہے۔ پہلے عموما دل کے بارے میں سائنس پر یقین رکھنے والوں کا یہ خیال تھا کہ یہ صرف خون پمپ کرنے کا کام کرتا ہے۔ حالانکہ جذبات اور احساسات کے حوالے سے ہماری مادی اور روحانی خواہشات اور خوابوں کا مرکز دل ہی ہے، جہاں سے دماغی سیلز کو حرکت میں لانے کے لئے اعصاب nerves کے ذریعے دل ہی سے پیغان رسانی ہوتی یے۔

سائنس اور مزہب کی رو سے ‘دل’ اور ‘دماغ’ کا تعلق!
Image by Gerd Altmann from Pixabay

تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ انسان کے دل میں بھی 40000 ہزار نیورانز neurons پائے جاتے ہیں جو الیکٹرومیگنیٹ فیلڈ، کثرت یا سخاوت amplitude کے اعتبار سے دماغی نیورانز سے 60 گنا بڑے اور 5000 گناہ کثیف intense ہیں۔

اس حوالے سے سٹان فورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین دعوی کرتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ، "انسان کا دل ذہانت اور شعور کا مرکز ہے”۔

حضرت موسی علیہ السلام 1520 قبل مسیح مبعوث ہوئے، جب مصر پر ‘مرنفتاح ثانی’ نامی فرعون بادشاہ کی حکومت تھی، جبکہ ابو القاسم محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب 12 ربیع الاول عام الفیل، 8 جون 570ء یا 571ء کو آخری نبی ﷺ کے طور پر دنیا میں تشریف لائے، جن کے ساتھ بچپن میں ‘شق القلب’ کا واقعہ پیش آیا جس کے مطابق حضرت جبرائیل نے نبی پاک ﷺ کا سینہ چاک کیا اور دل کو نکال کر دھویا اور اسے دوبارہ آپ نبی آخرالزمان ﷺ کے سینے میں لگا دیا۔ ایک ایسا ہی واقعہ روایات کے مطابق واقعہ معراج سے پہلے بھی نبی کریم ﷺ کے ساتھ پیش آیا (انبیائے کرام و عظام کے ساتھ نبوت سے پہلے اور بعد میں پیش آنے والے ایسے حیران کن واقعات کو ‘ارھاصات’ کہتے ہیں)۔

اس واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں كہ میں نے آپ كے سینے پر سلائی كے نشانات دیکھے، جو اس بات کی طرف ‘الہامی اشارہ’ ہے کہ آنے والے ادوار میں میڈیکل سرجری اور جدید سائنس کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جائے گی، یہاں تک دل کی تبدیلی اور اسکی از سر نو تطہیر و پاکیزگی وغیرہ کے بام عروج پر پہنچنے سے انسان اپنے ‘دل’ میں جو چاہے سوچے گا اسے دماغ ‘واقع’ ہونے میں مانع نہیں ہو گا۔

قرآن پاک کے نزول کے بارے میں بھی فرمودات ہیں کہ یہ نبی ﷺ کے دل پر 27 رمضان کو ‘یک بارگی’ نازل ہوا تھا۔

حضرت علی ہجویری رحمتہ اللہ کا ایک فرمان بھی ہے کہ، ‘جنت کا بہترین تحفہ دل پر حقائق کا منکشف ہو جانا ہے اور جہنم کا سخت ترین عذاب ان حقائق پر حجاب (یا پردہ) پڑ جانا ہے۔

یہ انسانی جسم کے بنیادی اعضاء ‘دل’ اور ‘دماغ’ کی اتصل کارکردگی کا ایسا مزہبی اور سائنسی نمونہ ہے کہ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کی برق رفتار ترقی یونہی جاری رہی تو وہ ایک دن مرضی کا مادی جسم یا اس کے بغیر بھی زندہ رہ سکے گا، جب ہمارے دل اور دماغ ایک ہی سکے کے دو تمثیلی رخ ہونگے!

حیرانی ہے ہم مسلمانوں کو الہامی پیغامات کے ذریعے زندگی کی بقا کے لئے جس ‘سائنس’ اور ‘ٹیکنالوجی’ کو اپنانے کے اشارے دیئے گیئے ہیں، ہم اسی سے دور سے دور تر ہیں۔

جب سرسید احمد خان جیسی ‘جدت پسند’ شخصیت نے مرزا غالب سے ایک تقریظ لکھنے کی خواہش کی تھی تو انہوں نے باوجود اس کے، کہ سرسید ان کے اچھے دوست تھے، ان کے اس کام کو قدامت پسندی سے تعبیر کیا تھا، اور یہ نظم لکھ بھیجی تھی:

اہل انگلستاں کو تو دیکھیے
شیوہ و انداز ان کے بوجھیے

کیسے یہ آئین لے کر آئے ہیں
جو نہ دیکھا آج تک دکھلائے ہیں

ان ہنرمندوں نے چمکایا ہنر
اپنے پرکھوں سے آگے ہیں بیش تر

داد و دانش کو ملایا، دیکھ تو!
نت نئے آئین دیے ہیں ہند کو

آگ پیدا ہوتی ہے جو سنگ سے
کس طرح وہ خس سے لے کر آ گئے

پڑھ کے کیا پھونکا انہوں نے آب پر
ہیں دخانی کشتیاں مست سفر

بھاپ سے کشتی کو جیحوں میں چلائیں
اور کبھی پہیوں کو صحرا میں گھمائیں

بھاپ کی قوت سے پہیہ گھوم جائے
طاقت اسپ و گاو نر کی مات کھائے

بھاپ سے کشتی میں رفتار آ گئی
رہ گئے تکتے باد و موج بھی!

ساز میں بے زخمہ وہ نغمے جگائیں
طائروں کی طرح حرفوں کو اڑائیں

ہاں! یہ مردانِ خردمند ایسے ہیں
پل دو پل میں حرف میلوں بھیج دیں

آگ یوں دکھلاتے ہیں وہ باد کو
مثلِ اخگر بس! چمک اٹھتی ہے وہ

دیکھ جا کر لندنِ رخشندہ باغ
ہے وہ سارا شہر روشن بے چراغ

ہوش مندوں کے ہیں ایسے کاروبار
ہیں ہر ایک آئین میں آئین ہزار!

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

سر صادق محمد خان عباسی پنجم آف بہاولپور

جمعرات مئی 25 , 2023
بہاول پور سب سے بڑی 480 کلومیٹر اور 20 ہزار مربع کلومیٹر پر محیط امیر ترین مسلم ریاست تھی
سر صادق محمد خان عباسی پنجم آف بہاولپور

مزید دلچسپ تحریریں