وقت اور زندگی کی حقیقت
کیا یہ سوال منطقی طور پر اٹھایا جا سکتا ہے کہ وقت کو روک کر زندگی کا دورانیہ یا عمر بڑھا لی جائے؟ یہ سوال بہت دلچسپ ہی نہیں علمی اور دانشورانہ بھی ہے کہ جس سے البرٹ آئنسٹائن جیسے دنیا کے عظیم ترین سائنس دان کو بھی واسطہ
پڑا تھا۔ دنیا کا کونسا انسان ہے کہ جو زیادہ دیر تک جینا نہیں چاہتا ہے؟ شائد زندہ رہنے کی یہی شدید خواہش انسانوں میں وقت کو سمجھنے کا احساس بھی پیدا کرتی ہے۔
وقت کو عموما زمان و مکان کی پیمائش کا پیمانہ یا دورانیہ سمجھا جاتا ہے۔ درحقیقت وقت کیا ہے؟ گہری تحقیق اور مشاہدے سے پتہ چلتا ہے کہ "وقت” کی ابھی تک کوئی حتمی یا متفقہ تعریف سامنے نہیں آئی ہے۔ بنی نوع انسان صرف اتنا جانتا ہے کہ سورج چاند ستاروں کی گردش، دن اور رات کے وقفوں، روزمرہ کے کاموں کے اوقات یا مختلف کاموں کی انجام دہی میں جو دورانیہ یا فاصلہ درکار ہوتا ہے جسے انگریزی میں Time and Space اور اردو میں زمان و مکان کہتے ہیں، اسے عموما وقت سے موسوم کیا جاتا یے۔ اس اعتبار سے وقت حرکت، سکون یا جدوجہد اور کارکردگی کے درمیان پیدا ہونے والی ایک ضمنی شے ہے جو چیزوں کی مدت اور زندگی وغیرہ کا احاطہ کرتا ہے جس کا اطلاق نہ صرف جان دار چیزوں پر ہوتا ہے بلکہ اس کے دائرے میں کائنات میں پائی جانے والی بے جان اشیاء بھی آتی ہیں۔
وقت کے بارے ایک عام نظریہ یہ ہے کہ یہ ہمیشہ آگے کی طرف بڑھتا ہے مگر 2025ء کے آغاز پر ایک انتہائی دلچسپ اور حیرت انگیز واقعہ یہ پیش آیا کہ اس سال کے آغاز میں اڑان بھرنے والی ایک پرواز دوبارہ ایک سال پیچھے یعنی 2024ء میں لینڈ کر گئی۔ ایک غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ہانگ کانگ میں ایک مسافر طیارے نے 2025ء کے پہلے دن اڑان بھری اور وہ دوبارہ 2024 میں لانس اینجلس کے بین الاقوامی ایئرپورٹ پر اتری۔ کیتھے پیسیفک فلائٹ نمبر 880 ہانگ کانگ کے ہوائی اڈے سے مقامی وقت کے مطابق آدھی رات کے بعد روانہ ہوئی۔ جیٹ ایئرلائنز نے بحر الکاہل کے اوپر سے راستہ بنایا، یہ پرواز یکم جنوری سال 2025ء کی رات 12 بج کر 38 منٹ پر اُڑی اور پھر حیران کن طور پر لاس اینجلس میں 31 دسمبر 2024ء کو رات 8 بج کر 55 منٹ پر لینڈ کر گئی۔
دراصل ہانگ کانگ لاس اینجلس سے وقت میں 16 گھنٹے آگے ہے۔ اس لیئے جب اس منفرد پرواز کے مسافر فلائٹ میں بیٹھے تو اس وقت ہانگ کانگ میں نیا سال شروع ہو چکا تھا اور جب وہ لاس اینجلس پر لینڈ اترے تو وہاں نئے سال 2025ء کے آغاز میں ابھی کچھ گھنٹے باقی تھے۔
یوں ہانگ کانگ کے مسافروں نے نئے سال 2025ء کا جشن دو مرتبہ منایا۔ کیا ایسا ممکن ہے اس اتفاقی واقعہ کی روشنی میں بنی نوع انسان کسی طرح اگر وقت پر کنٹرول حاصل کر لے تو وہ لمبے عرصے تک زندہ رہ سکے یا پھر اس کے "امر” ہونے کا دیرینہ خواب بھی پورا ہو جائے؟ میں اصولی طور پر اس بات کے حق میں نہیں ہوں کہ یہ موت پر قابو پانے کی ایک غیر منطقی سی بحث ہے۔ دنیا میں ہمیشگی زندگی مل جائے تو انسانیت ویسے ہی بوریت سے مر جائے گا۔ لیکن جدید سائنس دان وقت کو شکست دینے پر مصر ہیں جیسا کہ آئنساٹائن کے مطابق خلا میں وقت سست رفتاری سے گزرتا ہے یا روشنی کی رفتار سے سفر جاری رکھا جائے تو وقت تقریبا تھم جاتا ہے۔
پہلی بار "بلیک ہولز” (Black Holes) کا تصور آئنسٹائن نے پیش کیا تھا جس پر سٹیفن ہاکنگ نے بہت کام کیا، جن کے بارے دنیا کے تقریبا تمام سائنس دان متفق ہیں کہ بلیک ہولز کے کناروں (Even Horizons) پر وقت انتہائی سست رفتاری سے چلتا ہے جہاں سے 3 لاکھ میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلنے والی روشنی بھی نہیں گزر سکتی ہے کیونکہ بلیک ہولز روشنی کی رفتار کو ختم کر کے اسے اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں اور روشنی ان میں گر کر فنا ہو جاتی ہے۔
بلیک ہولز کے بارے عموما کہا جاتا ہے کہ ان کے اندر وقت تھم جاتا ہے جن کے اندر ورم ہولز (Wormholes) ہوتے ہیں جو بلیک ہولز میں گرنے والی چیزوں کو کسی دوسری دنیا یا متوازی کائناتوں میں سے کسی ایک کائنات میں دھکیل دیتے ہیں۔ اس سے وقت کی عمومی تعریف کے مطابق ایک تو انسان کے لیئے ان بلیک ہولز کے اندر زندہ رہنا ممکن نہیں کیونکہ ان کے اندر بہت زیادہ کثافت (Density) ہوتی ہے. دوسرا یہ کہ وقت حرکت اور فاصلے سے پیدا ہوتا ہے اور بنی نوع انسان کی زندگی کی حقیقت بھی یہی ہے کہ وہ حرکت سے پیدا ہوتی ہے یعنی ہماری موجودہ زندگی "زمان و مکان” کی محتاج ہے۔
اس کی مثال یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کو فہم و شعور اور وقت کے دورانیئے سے محسوس کرتے ہیں۔ اگر ہمارے لیئے وقت کی رفتار سست پڑ جائے یا وقت تھم جائے تو ہم بظاہر عام مختص زندگی سے زیادہ دیر تک یا ہمیشہ کے لیئے موجود تو رہ سکتے ہیں مگر اس دوران ہم "زندہ” نہیں رہ سکتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری موجودہ زندگی "حرکت” پر مبنی ہے۔ جس چیز میں حرکت، نسل کشی یا نشوونما نہیں وہ جاندار نہیں ہو سکتی ہے۔ ایک لمحہ کے لیئے سوچیں کہ ہمارا دل حرکت کرنا بند کر دے، خون جسم میں گردش نہ کرے یا ہمارا دماغ اور جسم کے دوسرے اعضاء کام نہیں کریں گے تو ہم زندہ رہیں اور نہ زندگی گزار سکیں گے۔
بنیادی طور پر وقت زندگی گزارنے اور بسر کرنے کا پیمانہ اور دورانیہ ہے۔ انسان نے ایک سے زیادہ بار چاند پر قدم رکھا ہے۔ تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ وہاں جو چیز جیسی رکھیں گے وہ وہاں ہزاروں سالوں کے بعد بھی آپ کو ویسی ہی ملے گی۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ان کی عمر ان کی زندگی میں حرکت کی عدم موجودگی اور ان پر ہوا، روشنی یا کسی بیرونی دباو’ کے کم یا نہ ہونے کی وجہ سے لامحدود حد تک لمبی ہو سکتی ہے۔
زمانہ طالب علمی میں سنتے تھے کہ ناروے میں چھ ماہ کا دن اور چھ ماہ کی رات ہوتی ہے۔ آب گوگل کر کے اس بارے میں مزید معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں سردیوں کی راتیں لمبی اور دن چھوٹے ہوتے ہیں۔ موسموں کی تبدیلی اور سورج کے نکلنے اور غروب ہونے کے ساتھ دن اور رات کے اوقات میں بھی تبدیلی آتی ہے۔ انگلینڈ میں سردیوں کے دوران بعض ایام صرف تین یا چار گھنٹے کے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ 2025ء کے پہلے روز اڑنے والی فلائٹ کا واقعہ رونما ہوا جس کے مسافروں کو سال نو 2 بار منانے کا موقعہ ملا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ زندگی اور وقت کو سمجھ کر زندگی کا بھی دو بار لطف اٹھایا جا سکتا ہے؟
آئنسٹائن نے وقت کی مساوات کو پیش کرتے وقت ٹرین کے مسافروں کی مثال پیش کی تھی کہ ٹرین میں بیٹھے مسافر دیگر مسافروں کے لیئے ساکن مگر زمین پر موجود انسانوں اور دیگر چیزوں کے مقابلے میں حرکت میں ہوتے ہیں۔ یہ وقت کا دوہرا پہلو ہے جس کو مدنظر رکھ کر آئنسٹائن نے دعوی کیا تھا کہ وقت ایک مطابقتی Relative یا اضافی شے ہے۔ انہوں یہ بھی ثابت کیا تھا کہ ایک بوڑھا شخص اگر خلا میں زیادہ عرصہ رہے گا تو اس کی گھڑی زمین پر رہنے والوں کی گھڑیوں کے مقابلے میں سست رفتار سے چلے گی اور جب وہ واپس زمین پر پلٹے گا تو وہ ان بچوں سے زیادہ نوجوان ہو گا جن کو چھوڑ کر وہ خلا میں گیا تھا یعنی وہ بوڑھا خلا باز جوان اور زمین پر رہنے والے بچے بوڑھے ہو چکے ہوں گے۔
آئنسٹائن کے اس دعوی کو آج تک کوئی دوسرا سائنس دان چیلنج نہیں کر سکا ہے کہ جو اس دعوی کو سائنسی طریقے سے غلط ثابت کرے یا اس میں اضافہ کرے تو اسے "نوبل پرائز” سے نوازا جا سکے۔ یہ زندگی اور وقت کو سمجھنے کا چیلنج ہے جسے انسان قبول کرے تو وہ زیادہ دیر یا ہمیشہ زندہ رہنے کا اپنا خواب بھی پورا کر سکتا یے۔ تاہم وقت اور زندگی ابھی تک ایسی پہیلیاں ہیں جنہیں آج تک کے انسان ابھی تک مکمل طور پر نہیں سمجھ سکے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ ممکن ہے کہ وقت اور زندگی محض ہمارے دماغ سے یا ہمارے دماغ میں پیدا ہوتی ہیں یا صرف وقت کے بارے سوچا جائے تو یہ صرف ہمارے دماغ میں ہوتا ہے۔ ہو سکتا یے کہ آپ کو بھی یہ تجربہ ہوا ہو گا کہ جب آپ بہت زیادہ مصروف ہوں تو وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا ہے یا آپ کے جسم میں کوئی تکلیف یا درد ہو اور اس دوران آپ مصروف ہوں یا آپ کا دماغ بھٹک جائے تو آپ کو درد یا تکلیف محسوس نہیں ہوتی ہے۔
اس کی ایک اور مثال "پلیسبو افیکٹ” ہے جو ادویہ کی تیاری میں مریضوں پر آزمایا جاتا ہے جب انہیں پانی وغیرہ کا شربت یا کوئی فرضی گولی دے کر کہا جاتا ہے کہ یہ ایک موثر دوائی ہے تو مریض کی زہنی کیفیت بدل جاتی ہے اور اسے واقعی درد یا تکلیف سے فورا آرام آ جاتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں کسی جگہ دن اور کسی جگہ رات ہوتی ہے مثلا پاکستان میں دن کا وقت ہے تو عین اسی وقت دنیا کے کسی دوسرے ملک میں رات ہو گی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمین پر رہنے والوں کے لیئے وقت تو واقعی ایک موازناتی اور اضافی چیز ہے جو زمین و مکان کی پیمائش کا پیمانہ ہے۔ اس کے باوجود وقت کی کیا حقیقت ہے یا اس میں کونسی ایسی خاص بات ہے کہ ہم اس کو سمجھ کر اپنی زندگی کو مزید خوبصورت بنا سکیں؟ اگر وقت ہمارے دماغ میں ہے جیسا کہ کچھ درد اور تکالیف محض ہمارے دماغ میں ہوتی ہیں تو کیوں نہ ہم اسے سمجھنے کی نئے سرے سے کوشش کریں۔
وقت اور زندگی کا ایک بہترین مصرف اور سمجھنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ان دونوں کو ضائع کرنے کی بجائے منافع بخش استعمال میں لایا جائے مگر میرا یقین ہے کہ وقت پر مزید کام کیا جائے تو اس کی اصل حقیقت کا کھوج بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جس سے زندگی امر نہ بھی ہو مگر خوب سے خوبصورت ضرور ہو سکتی ہے۔
زندگی اور وقت لازم و ملزوم ہیں۔ زندگی وقت کا دورانیہ ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ ہمیں اس کام کو کرنے میں اتنا وقت لگا یا فلاں شخص اتنا عرصہ زندہ رہا۔ وقت کو سمجھ کر زندگی اور زندگی کو سمجھ کر وقت کو سمجھا جا سکتا ہے جس سے ان دونوں کو بہتر استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ گو کہ وقت اور زندگی دو معمے ہیں جن کو فی الحال مکمل طور پر سمجھا نہیں جا سکا ہے۔ لیکن یہ واضح حقیقت ہے کہ ان کا بہترین مصرف ہی کامیابی و کامرانی کا راز ہے۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |