زندگی کا اصل حسن
انسان کے اندر اسکی سوچ اور فکر کی صورت میں جتنا بھی حسن ہو اسے تب تک پذیرائی نہیں ملتی ہے جب تک کہ وہ سیرت و اخلاق حسنہ اور اعمال ہائے روزمرہ کی شکل میں دوسروں پر آشکارہ نہیں ہو جاتا ہے۔
قدیم یونانی فلاسفر افلاطون کہتے ہیں کہ خود کو آئینے میں غور سے دیکھو اگر تم حسین ہو تو ایسے کام کرو جو تمہارے حسن و جمال کو گہنائیں نہیں، اور اگر تمہارے پاس صورت زیبا نہیں ہے تو اُن کاموں سے اجتناب کرو جو تمھاری اس بدصورتی میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں.
حقیقت بھی یہی ہے کہ باطنی حسن کی اہمیت و کشش ظاہری حسن سے کئی گنا زیادہ ہے، جس کا گہرا تعلق انسان کی اعلی و ارفاء سیرت و کردار کی خوبیوں سے ہے جن کا جادو سر چڑھ کر تبھی بولتا ہے جب آپ اپنے اعمال و اخلاق سے دوسروں کو متاثر کرتے ہیں۔ تب یہ مرحلہ اسی صورت میں مکمل ہوتا ہے جب آپ کے اندر کا حسن باہر آنے کے لیئے متحرک ہوتا ہے۔ اصل انسان ہے بھی وہی جو اپنے اندر کے اعلی اوصاف کو نمایاں کرتا ہے، اور ہمیشہ اس جدوجہد میں رہتا ہے کہ وہ اپنی خامیوں اور کمزوریوں پر جلد از جلد قابو پا لے۔ آپ کو زندگی میں تجربہ ہو گا کہ کچھ لوگ ظاہری چہرے کے اعتبار سے انتہائی خوبصورت ہوتے ہیں مگر اندر سے ان کا دل کالا ہوتا ہے، اور جب آپ پر ان کے اندر کی یہ بدصورتی کسی طرح واضح ہو جاتی یے تو ایسے لوگ جتنے بھی معصوم اور حسین و جمیل ہوں وہ آپکو بدصورت اور بھدے لگنے لگتے ہیں۔
ایک محاورہ مشہور ہے کہ "حسن دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے۔” اور یہ بھی سچ ہے کہ ہر چیز میں حسن ہے مگر ہر آنکھ اسے دیکھ نہیں پاتی ہے کیونکہ سچا حسن جسم سے نہیں روح سے جھلکتا ہے جبکہ ہر آنکھ روح کو نہیں دیکھ سکتی۔ جو حسن آنکھیں دیکھتی ہیں ختم ہو جاتا ہے مگر جو حسن دل میں پیوست ہو جاتا ہے وہ ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ دراصل انسان دوسروں کو اپنے ہی دل کی آنکھ سے دیکھتا ہے کہ اچھے لوگوں کو سب لوگ اچھے محسوس ہوتے ہیں اور برے لوگوں کو سب لوگ برے دکھائی دیتے ہیں۔ بہرکیف کسی کو برا تصور کرنا جب تک کہ وہ آپ سے برا سلوک نہ کرے "بدگمانی” کے ضمرے میں آتا ہے، اور کسی کے خلاف بدگمانی یا شک و شبہ اختیار کرنا انتہائی ناقص، غیرمثبت اور غیر تعمیری سوچ ہے جو انسانی معاشرے کی اخلاقی اقدار کو زمین بوس کر سکتی ہے۔
اس کا بہترین حل یہ ہے کہ ہر انسان دوسروں کو عزت و احترام دینے کے لیئے انہیں خود سے بہتر انسان سمجھے اور وہ خود برتر انسان ہو یا کمتر ہو وہ نفسیاتی طور پر دوسروں میں اپنا ہی عکس تلاش کرنا چھوڑ دے۔
آج کے مادہ پرستانہ معاشروں میں لوگ سائنسی فکر اپنانا چاہتے ہیں جس کا انسانی اخلاقی اقدار سے سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے کہ اسے شک و شبہ کی بنیاد پر ہائپوتھیسز اور ایکسپیریمنٹ سے گزارا جائے۔ ایک انگریزی محاورے کا مفہوم ہے کہ "جو اعتبار نہیں کرتا وہ دھوکہ نہیں کھاتا” مگر اعتبار کیئے بغیر دنیا کے بہت سے اعلی پائے کے ایسے کام ہیں کہ جنہیں کسی پر اعتبار کیئے بغیر سرانجام ہی نہیں دیا جا سکتا ہے جن میں انسانی معاشرے کے تعلقات، رشتے، مزہب، سیاست اور کاروبار وغیرہ سرفہرست ہیں۔ دوسروں پر اعتبار ضرور کرنا چایئے مگر ہمیں معلوم ہونا چایئے کہ کس پر کتنا اعتبار کرنا ہے۔ دراصل ہمیں دھوکہ ہماری عقل دیتی ہے ناکہ کسی پر ہمارا اعتبار کرنا دیتا ہے۔ آپ دنیا میں بہت بڑی کامیابیاں فقط اندھا اعتبار کر کے حاصل کرتے ہیں اور بہت بڑے نقصانات بھی آپ اندھا اعتبار کر کے کرتے ہیں۔ یعنی کامیابی اور ناکامی کے درمیان فرق اعتبار کا نہیں بلکہ آپ کے فطری فہم و شعور اور پختگی کا ہے۔
زندگی میں ہمارے اقوال و اعمال سے پھوٹنے والا یہ وہ معیار ہے جو ہمارا اصل حسن ہے کہ ہم زندگی میں کتنے خالص طریقے سے خود کو نمایاں کرتے ہیں۔ دنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو ظاہری شکل و صورت میں اتنے بھلے نہیں لگتے مگر ہم ان سے گفتگو کریں، لین دین کریں یا زندگی کا کوئی بھی معاملہ کریں تو وہ اس قدر حسن و اخلاق سے پیش آتے ہیں کہ وہ انسان کا دل جیت لیتے ہیں۔ دنیا کا سارا حسن ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے قائم ہے کہ جو مثالی حسن اخلاق و کردار کا نمونہ پیش کرتے ہیں جس کا اثر آنکھوں کی بجائے سیدھا دل پر پڑتا ہے کہ زندگی کا اصل حسن ہی اخلاق حمیدہ کی خوبیاں ہیں۔ اگر ایسی اچھی خوبیاں ہم میں ہیں تو ان میں مزید اضافہ کریں اور نہیں ہیں تو یہ سیکھیں کیونکہ انہی سے ہمارا اصل باطنی و ظاہری حسن وابستہ ہے۔
Title Image by morhamedufmg from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔