قانون کی حکمرانی کا سوال

قانون کی حکمرانی کا سوال

Dubai Naama

پاکستان کو سیکولر سٹیٹ کی طرف کھل کر قدم ضرور بڑھانا چایئے مگر پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اسلام ہی کے نام پر معرض وجود میں آیا۔ بے شک پاکستان میں اسلامی قوانین رائج نہیں ہیں، کبھی چور کا ہاتھ نہیں کاٹا گیا، کبھی کسی زانی کو سنگسار نہیں کیا گیا اور نہ ہی کبھی اہل وطن کی اکثریت نے کبھی سودی نظام سے توبہ کی ہے، تو پاکستان کے ایک "سیکولر سٹیٹ” بننے میں کیا کسر باقی رہ جاتی ہے۔ البتہ ہمیں اپنی اساس کا تعین کرنے کے حوالے سے ایک واضح قدم اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔

ہاں یہ بات درست ہے کہ ہمارے ملک میں گوروں کے بنائے ہوئے مجریہ قوانین کے باوجود ہم نے کبھی ان پر بھی مکمل اور سچے دل سے عمل نہیں کیا ہے۔ ہمارے ہاں متحدہ ہندوستان کے وقت کے انگریزی قوانین تو موجود ہیں مگر وہ صرف متوسط طبقے اور غریب عوام کے لیئے ہیں، ان پر "اشرافیہ” شاذ ہی عمل کرتی ہے۔ جب بھی سرمایہ دار طبقہ سے کوئی جرم کرتا ہے تو اسے قانون بآسانی ریلیف دے دیتا ہے یا پھر یہی قانون اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیئے کھل کر استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں قتل تک کے مجرموں کو چھوڑ دینے کی ایسی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جن کے بارے ہمارے ہاں ایک امریکی مقولہ مشہور ہے، "عدالتیں امراء کی لونڈیاں ہیں۔” جس کا انگریزی متن اس سے بھی زیادہ شرمناک اور کراہت آمیز ہے جو کچھ یوں ہے کہ Courts are bitches of riches تو پھر قانون کی حکمرانی کا مذاق اڑانے میں باقی کیا بچتا ہے؟ اس کا ترجمہ "باندی” یا "کتیا” بھی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں امن قائم کرنے، عوام الناس کو سستا انصاف فراہم کرنے، کرپشن کے انسداد اور جرائم وغیرہ کے خاتمہ کے لیئے رائج قوانین کا ڈھانچہ ایسا ہے کہ ہماری عدلیہ اور ججز صاحبان اس سے اپنے من پسند فیصلوں کا راستہ بڑی آسانی کے ساتھ نکال لیتے ہیں، یہاں تک کہ بھٹو جیسا "عدالتی قتل” بھی ممکن ہو جاتا ہے اور "آمریت” کو قائم کرنے کے لیئے مارشل لاء کو بھی صاف راستہ مل جاتا ہے۔

قانون کی بالادستی کے لحاظ سے ہم صحیح معنوں میں زندگی کے ہر شعبے میں ایک غلام قوم کا نمونہ پیش کر رہے ہیں۔ جہاں ہم قانونی موشگافیوں کے درمیان چوں چوں کا مربہ بنے ہوئے ہیں وہاں ہم ذاتی سیرت و کردار میں بھی تضادات کا شکار نظر آتے ہیں۔ ہم کلمہ گو مسلمان تو ہیں مگر ہم سچے مومن نہیں ہیں، جس کی بنیادی شرط قرآن حکیم نے دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی رکھی ہے۔ میرے ذاتی علم میں قتل کے مقدمات کی کچھ ایسی مثالیں ہیں کہ مجرم ایک دن بھی جیل میں جائے بغیر عدالت سے بری ہو جاتے ہیں۔ قانون کی رسوائی کی مد میں اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ پاکستان میں آپ کے پاس طاقت ہے، دولت ہے یا کوئی بڑا واسطہ ہے تو آپ قانون کی جس طرح چاہیں دھجیاں اڑا سکتے ہیں۔ اس کی ایک تاریخی مثال ریمنڈ ڈیوس کی ہے جس کے بارے پاکستان کے وفاقی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا تھا کہ، "دو افراد کے قتل میں ملوث امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے حقائق میں جائیں گے تو بطور قوم شرمندگی ہو گی۔”

سینیٹ کے اجلاس میں امریکی جاسوس کی رہائی سے متعلق جمیعت علمائے اسلام کے سینیٹر حافظ حمداللہ کی نے بھی توجہ دلاو نوٹس کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ جن افراد اور اداروں نے ریمنڈ ڈیوس کو ملک سے باہر لے جانے کے لئے کردار ادا کیا وہ قومی عزت اور غیرت کے منافی ہے۔

پاکستان میں امریکی سی آئی اے کے لئے کام کرنے والے ریمنڈ ڈیوس کو 27 جنوری سنہ2011ء میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب اس نے لاہور میں ریلوے سٹیشن کے سامنے دو افراد کو قتل کر کے فرار ہونے کی کوشش تھی، جسے بعدازاں مقتولین کے ورثاء کو کچھ دنوں کے بعد دیت کی رقم ادا کرنے کے بعد رات کے اندھیرے میں لاہور کی جیل سے نکال کر امریکہ بھجوا دیا گیا تھا۔

دوسری مثال حالیہ دنوں میں ایک قاتل پاکستانی فیملی کو انگلینڈ کے حوالے کرنا ہے جو وہاں اپنی بارہ سالہ بیٹی سارہ شریف کو قتل کر کے پاکستان بھاگ آئے تھے۔

قانون کی حکمرانی کا سوال

سارہ شریف کی سوتیلی والدہ معصوم بچی پر انتہائی گھناؤنے طریقوں سے باقاعدہ تشدد کرتی تھی اور گھٹیا باپ یہ سب دیکھتا رہا تھا۔ بچی کے سکول ٹیچر نے پہلے اس کے چہرے پر ٹارچر کے نشانات کا نوٹس لیا جن کو حجاب سے چھپایا جاتا تھا پھر اک روز اس معصوم بیٹی کو اتنا ٹارچر کیا گیا کہ وہ مر گئی اور اس کو اسی حالت میں چھوڑ کر اور اس کی لاش پر کپڑے ڈال کر اس کے والدین پاکستان بھاگ آئے۔ اس ظلم سے چچا بھی واقف تھا۔ جب برطانوی پولیس کو لاش مل گئی تو اس کے والدین کو پاکستان سے واپس لندن لانے کی کوشش کی گئی، پاکستانی پولیس نے بوجوہ ان کو بچانے کی بہت کوشش کی مگر بلآخر ان درندوں کو حکومت برطانیہ نے واپس بلا لیا، برطانوی قانون کے مطابق عدالت نے والد اور والدہ کو عمر قید اور چچا کو 16 سال قید کی سزا سنائی۔

اگر یہ واقعہ پاکستان میں پیش آتا تو مقتولہ کے وارث بن کر ورثاء نے ایک دوسرے کو معاف کر دینا تھا یا پھر لواحقین نے دیت کے نام پر کروڑوں روپے لے کر کیس کو ختم کر دینا تھا اور پھر اسے اسلامی طریقہ بھی قرار دینا تھا۔

امریکہ اور مغربی دنیا میں اسائلم کے کیسز میں قاتل بھی شامل ہوتے ہیں جو دستاویزی ثبوت فراہم کر کے آسانی سے ان ترقی یافتہ ممالک کی شہریت لے لیتے ہیں اور پھر قتل جیسا گھناونا جرم کرنے کے باوجود ان کی اگلی نسلیں سنور جاتی ہیں۔ پاکستان میں کوئی ایک بھی ایسی مثال موجود نہیں ہے کہ قانون کی حکمرانی کے لیئے پاکستان کبھی ان ممالک سے کسی ایک قاتل کو بھی پاکستان واپس لے کر آیا ہو۔

عزت مآب حافظ حمداللہ نے سینٹ میں اپنے توجہ دلاو نوٹس میں کہا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس نے رہائی کے بعد جو کتاب لکھی ہے اس میں پاکستان کے فوجی اداروں، عدلیہ، ایگزیکٹیو، صدر اور پارلیمنٹ پر سوالات اُٹھائے ہیں۔ خواجہ آصف نے بھی تسلیم کیا تھا کہ اس واقعہ کی تحقیقات میں شرمندگی کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آئے گا۔ اُنھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جب تک حاکمیت پارلیمنٹ کے پاس نہیں آتی یا قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوتی اس وقت تک اس طرح کے واقعات کا سدباب نہیں ہو گا۔ اُنھوں نے مزید کہا تھا کہ ہر ادارہ پارلیمنٹ کو جواب دہ ہو اور پارلیمنٹ میں ہونے والے احتساب میں کوئی ڈنڈی نہ مارے۔
پارلیمان تحقیقات کریں کہ کس نے امریکی جاسوس کی رہائی میں کیا کردار ادا کیا تو پھر اس معاملے کی افادیت ہو گی ورنہ صرف پوائنٹ سکورنگ کرنے سے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ تب خواجہ آصف وزیر خارجہ تھے جنہوں نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ اس مسئلے کو گہرائی میں جا کر دیکھے کہ کیسے اس معاملے میں قانون اور قومی غیرت و وقار کا سمجھوتا کیا گیا۔

خواجہ آصف نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لئے دیت کی رقم بھی حکومت پاکستان نے ادا کی لیکن یہ پیسے کہاں سے دیئے گئے اس کی معلومات نہیں ہیں۔

ہمارے ہاں روشن خیالوں کا ایک طبقہ سیکولر پاکستان کی بہت وکالت کرتا ہے مگر یہی طبقہ اسلامی قوانین کو بھی لاگو نہیں ہونے دیتا ہے بلکہ ان کا باقاعدہ ڈھکے چھپے لفظوں میں مذاق اڑاتا ہے۔ یہ نام نہاد سیکولر لوگ کون ہیں جو اسلامی قوانین کی راہ میں بھی رکاوٹ ہیں اور درون خانہ پاکستان کو سیکولر بھی نہیں بننے دیتے ہیں؟ قانون کی حکمرانی اور بالادستی کے لحاظ سے ہم اسلامی ہیں اور نہ ہی سیکولر ہیں۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ:
گئے دونوں جہان کے کام سے ہم، نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے،
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صَنم، نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

مزید دلچسپ تحریریں