امام عالی مقامؑ کی قربانی کا مقصود

امام عالی مقامؑ کی قربانی کا مقصود

Dubai Nama

امام عالی مقامؑ کی قربانی کا مقصود

زندگی اتار چڑھاو’ کا دریا ہے۔ اگر زندگی میں کبھی ابتلاء کا دور آئے تو گھبرانا نہیں چاہئے۔ بعض دفعہ کٹھن واقعات انسان کی زندگی کو امر کر دیتے ہیں۔

جب تک کوئی مشکل یا امتحان کی گھڑی زندگی میں نہ آئے تب تک کسی انسان کی عظمت و رتبے یا معیار و مقام کا پتہ نہیں چلتا۔ ایک بڑی اور عالی مقام شخصیت کا تعین تب ہوتا ہے جب وہ امتحان کے ایسے نازک لمحات میں سرخرو ہو کر نکلتا ہے جیسا کہ حضرت امام عالی مقام علیہ السلام میدان کربلا میں کامیاب ہو کر نکلے۔ آج کے عہد میں ہم عام انسان ایسی قربانی کا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ جیسی قربانی سچائی کی راہ میں حضرت امام حسینؑ نے اپنا پورا کنبہ قربان کر کے پیش کی۔

واقعہ کربلا محرم الحرام سنہ 61 ہجری کو عراق کے مقام کربلا میں پیش آیا۔ اس واقعہ کو گزرے 1385سال ہو گزر گئے ہیں۔ عام طور پر مسلم امہ میں واقعہ کربلا کو عقیدے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ لیکن یہ واقعہ اہل بیت کے سربراہ حضرت امام حسینؑ کی شخصیت و کردار، استقامت اور مستقل مزاجی کا نمونہ ہے، جس کی دنیا بھر کی تہذیبی تاریخ میں دوسری کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایک عظیم اور بلند مقصد کے لئے خاندان کی اتنی جانوں کی قربانی پیش کرنا انسانی حوصلے اور جوانمردی کے اعتبار سے تقریبا ناممکن ہے کہ جب اصولوں کی پاسداری کا احساس اس قدر بلند ہو اور سچائی و مقصد کی خاطر قربانی پیش کرنا مقصود ہو مگر جھکنا منظور نہ ہو، تو ایسا صرف امام عالی مقام ؑ ہی کر سکتے تھے۔

واقعات کے مطابق 7محرم الحرام کو امام حسینؑ کے قافلے پر پانی بند کر دیا گیا اور 10 محرم روز عاشور کو یزیدی فوج نے امام حسین ؑ اور اولاد حسینؑ کو شہید کیا۔ اس حوالے سے حضرت امام حسین ؑ کو مظلوم بھی محسوس کروایا جاتا ہے کہ اہل بیت کو بھوک اور پیاس کے عالم میں بے دردی سے شہید کیا گیا مگر ایسی دہرانا ناانصافی ہے کہ تاریخ سو فیصد سچی لکھی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس میں مکمل غیرجانبداری اختیار کی جا سکتی ہے۔

جنگ تو جنگ ہے اس میں ظلم یا بے دردی کا کوئی سوال نہیں ہوتا، بلکہ اہمیت اس بات کی ہے کہ آج امام حسین ؑ زندہ ہیں یا یزید لعین زندہ ہے؟

حضرت امام حسینؑ نے یزید کی بیعت نہ کر کے جہاں حق اور باطل کا فرق واضح کیا وہاں بہادری اور شجاعت کی بھی لازوال مثال قائم کی۔ واقعہ کربلا تمام مسلمانوں یعنی فقہ اہلسنت اور فقہ اہل تشیع کے نزدیک تاریخ اسلام کا دلخراش مگر قابل فخر واقعہ ہے۔ اہل تشیع اس دن وسیع پیمانے پر عزاداری کا اہتمام کرتے ہیں اور یکم محرم الحرام سے 8 ربیع الاول تک مجالس و جلوس کا سلسلہ جاری رہتا ہے جبکہ اہلسنت حضرات بھی ماہ محرم میں نذر و نیاز کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔ نواسہ رسول خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسین ابن علی علیہ السلام فقہ اہل تشیع کے تیسرے امام ہیں جبکہ فقہ اہل سنت خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لاڈلے نواسے اور جنت کے سردار ہونے کی وجہ سے امام حسین ؑ سے پیار اور انسیت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کربلا کے عظیم شہیدوں کی یاد آج بھی تمام مسلمانوں کے دل میں زندہ ہے اور تاریخ میں بھی ہمیشہ موجود رہے گی۔

کربلا میں جنگ کی وجہ یہ تھی کہ امام حسین ابن علی علیہ السلام نے یزید کی بیعت نہیں کی۔ حسین ابن علی علیہ السلام ، یزید کی حکمرانی کو غیر قانونی، ناجائز اور غیر شرعی سمجھتے تھے۔ جس دین کی اکملیت فخر موجودات صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کی آمد کے ساتھ ہو گئی تھی۔ اسی دین کے اصول حرام و حلال میں یزید اپنے نفس کے فیصلے نافذ کرنا چاہتا تھا۔ اس کے سامنے دو نمونے تھے، اسلامی نظام حکومت کا نمونہ اور کسریٰ کے استبداد کا نمونہ۔ اس نے اسلامی نظام حکومت کا نمونہ نہیں اپنایا بلکہ اس نے کسریٰ کی آمریت کو نمونہ عمل بنایا۔ اسی کی تصدیق کیلئے اس نے نواسہ رسول حضرت حسین علیہ السلام کو مجبور کرنا چاہا، وہ چاہتا تھا کہ شراب و شباب کی اجازت دیدی جائے، زنا و سود کی اجازت دیدی جائے ، اسلامی تعزیرات میں رد و ترمیم کر دی جائے، شریعت کو طبیعت کے مطابق ڈھال لیا جائے اور ان سب کے باوجود امام حسین علیہ السلام بیعت یزید کر کے یزیدی قوانین کو تسلیم کر لیں۔ معاملہ چونکہ اسلامی قوانین کی حفاظت کا تھا، یزید شریعت اسلامی میں تحریف چاہتا تھا، حضرت حسین علیہ السلام کا بیعت کر لینا مثال بن جاتا، یزیدی فتنے پر مہر تصدیق ثبت کرنے کا ذریعہ بن جاتا، اسلام کا وہ روشن چہرہ باقی نہ رہتا جس کیلئے خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے تھے۔ حضرت حسین علیہ السلام نے مستقبل کیلئے ایک مثال قائم کر دی کہ یزید کی بیعت دراصل باطل کی توثیق ہے۔ امام حسینؑ نے اپنے اہل خانہ اور ساتھیوں کے ہمراہ واقعہ کربلا میں شہادت نوش کرتے ہوئے حق اور باطل کا فرق بتایا۔ امام حسینؑ نے ظلم کے سامنے نہ جھکنے اور ظالم کے خلاف کھڑے ہونے کا پیغام دیا۔

دس محرم الحرام یوم عاشورا کا دن ہر سال ہمیں واقعہ کربلا کی یاد تازہ کرنے کے ساتھ انسانیت کا درس دیتا ہے کہ حق اور سچائی کی سربلندی قائم کرنے ہی سے اعلی انسانی معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے، برائی اور اچھائی کا فرق بتاتا ہے اور اس بات کا درس دیتا ہے کہ سچائی اور اصولوں کی اہمیت انسان کی زندگی سے بھی زیادہ ہے۔ اگر جھوٹ کے مقابلے میں سچائی کی خاطر ہمیں کوئی بھی بڑی سے بڑی قیمت ادا کرنی پڑے تو ہمیں گریز نہیں کرنا چایئے کہ دنیا ہی میں بقید حیات پانے کے لیئے عالی ظرفی کا یہی ایک اصول ہے۔

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

علی آٹوز کے زیر اہتمام عظیم الشان شہداء کربلا کی تقریب

جمعرات جولائی 18 , 2024
لی آٹوز کے زیر اہتمام عظیم الشان شہداء کربلا کی تقریب سے علامہ مفتی ابو طیب رفاقت علی حقانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا
علی آٹوز کے زیر اہتمام عظیم الشان شہداء کربلا کی تقریب

مزید دلچسپ تحریریں