سیاسی و آئینی بحران سے نکلنے کا واحد راستہ؟
حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات سپریم کورٹ کے کہنے پر ہوئے تھے. مذاکرات میں ایک ہی دن الیکشن کروانے پر تو اتفاق ہو گیا تھا مگر الیکشن کروانے کی تاریخ پر اتفاق رائے قائم نہیں کیا جا سکا تھا۔ چونکہ پی ٹی آئی نے اپنی تجاویز کی 8 نکاتی سمری بھی سپریم کورٹ میں جمع کروا دی تھی جس کے پس منظر میں سپریم کورٹ نے ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کروانے کا کیس سماعت کے لئے منظور کر لیا تھا جس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ 4 مئی کو شروع بھی کر چکا تھا جس کے بینچ کے دیگر ممبران میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔ لیکن سماعت کے پہلے ہی روز چیف جسٹس عمر عطا بندیال پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کروانے کے 3 رکنی بنچ کے گزشتہ فیصلے پر بدستور قائم اور مصر نظر آئے۔ 14 مئی کو جتنا وقت بچا ہے، سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق اس تاریخ کو الیکشن کروانے ناممکن ہو چکے ہیں۔ اب سیاسی بحران کے خاتمے کی درج ذیل تین صورتیں باقی بچی ہیں، اول سپریم کورٹ دونوں فریقین کو دوبارہ مذاکرات کرنے پر آمادہ کرے، دوم سپریم کورٹ اپنے سابقہ فیصلے پر نظر ثانی کر کے انتخابات کی از خود نئ تاریخ دے دے جو حکومت اور پی ٹی آئ دونوں کے لئے قابل قبول ہو اور سوم 4 اپریل والے سوموٹو بنچ کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کی بناء پر وزیراعظم (اور فرنٹ لائن کابینہ ممبران اسحاق ڈار، خواجہ آصف اور رانا ثناء اللہ وغیرہ) کے خلاف توہین عدالت کا فیصلہ سنا کر انہیں گھر بھیج دے۔
حکومتی کمیٹی سے مذاکرات کیلئے پی ٹی آئی ٹیم کے رکن بیرسٹر علی ظفر نے جیو ٹی وی میں حامد میر کے پروگرام ‘کیپیٹل ٹاک’ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ، "مذاکرات کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ہمیں ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھنے کا موقع ملا۔ انہوں نے کہا کہ اب بھی (دوبارہ) مذاکرات ممکن ہیں مگر اگلا مرحلہ توہین عدالت کا ہو گا، جس کی زد میں پوری کابینہ بھی آ سکتی ہے، کل سماعت ہے ہو سکتا ہے کوئی راہ نکل آئے۔”
پی ٹی آئ کے مزاکراتی نمائندے بیرسٹر علی ظفر کا یہ نقطہ نظر بہت مناسب اور معتدل ہے مگر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اس سیاسی بحران کو ختم کرنے کے لئے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ حکومت 14 مئ سے پہلے پہلے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو توڑ کر 90 دن کے اندر اندر انتخابات کا اعلان کرے جس کے لئے وہ عدلیہ پر بھی اس کے حق یا مخالفت میں دباو’ بڑھا رہے ہیں، جیسا کہ اسلام آباد کی عدالت میں پیشی کیلئے روانگی سے قبل گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ، "تمام پاکستانی ہفتے کو چیف جسٹس سے اظہار یکجہتی کے لیے ایک گھنٹے کے لیے باہر نکلیں۔ مافیا چیف جسٹس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہوا ہے۔ میں 4 ریلیاں کر رہا ہوں، لاہور میں ریلی کی قیادت کروں گا، اسلام آباد، راولپنڈی اور پشاور میں بھی ریلیاں ہوں گی، ہم چیف جسٹس کو بتانے کے لیے ریلیاں نکالیں گے کہ ساری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے۔”
سابق وزیراعظم عمران خان ماضی قریب میں ایک طرف بار بار فوج کی سیاست میں مداخلت کی طرف اشارہ کرتے رہے ہیں اور اپنی ناکامیوں (وزارت عظمی سے بے دخلی تک) کا الزام فوج پر لگاتے رہے ہیں اور دوسری طرف آج وہ خود سپریم کورٹ کو سیاست میں مداخلت پر اکسانے کے لئے چیف جسٹس کے حق میں ریلیاں نکالنے کا عزم کر چکے ہیں۔ اگر کوئی جرنیل سیاست میں دراندازی کرتا ہے اور وہ غیر آئینی اقدام ہے تو کسی جج کو سیاسی فیصلہ دینے پر کندھا فراہم کرنا اور اس کا اپنی پارٹی کے حق میں فیصلہ کروانا کیسے آئینی اقدام ہو سکتا ہے؟ حالانکہ پاکستانی تاریخ میں جسٹس منیر سے لے کر سجاد علی شاہ، چوہدری افتخار، آصف سعید کھوسہ اور ثاقب نثار تک ججز سیاست میں بری طرح ملوث رہے ہیں۔ حتی کہ کچھ ججز نے تو فوجی آمروں سے بھی تعاون کرنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی، یہاں تک کہ انہیں آئین میں ترمیم کرنے کا بھی اختیار دے دیا۔ امریکہ جیسے جمہوری ملک میں ججز تاحیات کام کر سکتے ہیں۔ وہاں بڑے اور سینیئر ججز نے عدلیہ کو سیاسی فیصلے عدالتوں میں نہ سننے پر کتابیں لکھی ہیں اور اپنے جونئیر ججز کو بتایا ہے کہ اس سے کس طرح انصاف اور عدالتوں کا وقار تباہ ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ججز تو کیا پوری عدلیہ کو ہی ایک ‘سیاسی پارٹی’ کا کردار ادا کرنے کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔
شائد یہی وجہ ہے کہ اس بار کے آئینی و سیاسی بحران میں عدلیہ پارلیمان کے قانونی فیصلوں کو بڑی جرات سے سماعت کے بغیر ہی معطل کر رہی ہے جیسا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کو نافذ ہونے سے پہلے ہی 8 رکنی بنچ بنا کر غیر موثر یا معطل کر دیا گیا۔ بعد میں چیف جسٹس نے اس قانون کے حوالے سے سماعت کی سربراہی کرتے ہوئے پارلیمانی ریکارڈ طلب کرنے کا حکم بھی دے دیا، جس کے خلاف پارلیمنٹ میں شدید رد عمل سامنے آیا۔ یہاں تک کہ وزیر داخلہ نے سما ٹی وی کے ایک پروگرام میں توہین عدالت اور وزیراعظم کی برطرفی کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پارلیمان یا عدلیہ (چیف جسٹس) دونوں میں سے ایک کو جانا ہو گا، عدلیہ پہل کرے گی، مگر اس اقدام کے خلاف ہم نے بھی تیاری کر لی ہے۔” ممکن ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے عدالت عالیہ ایسے اقدامات اٹھانے میں حق بجانب ہے مگر عدلیہ پر اس کے حق یا مخالفت میں پی ٹی آئ اور اس کے سربراہ عمران خان کا عدالت کو پبلکلی متاثر کرنا بذات خود توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔
اگر چیف جسٹس صاحب یہاں عدالتی وقار کو قائم رکھتے ہوئے ملک کو اس سیاسی بحران سے نکالنا چاہتے ہیں تو وہ پی ٹی آئی کی کسی سیاسی چال میں نہ آئیں اور انتخابات کی ایسی موثر اور غیرجانبدارانہ تاریخ دیں، اور کچھ ایسا فیصلہ لکھیں کہ انتخابات کے انعقاد کی یہ تاریخ دونوں فریقین ماننے پر مجبور ہو جائیں۔
چند روز قبل کی سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو حالات بند گلی کی طرف بڑھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ آپکو یاد ہو گا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی ہونے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کا 22 مارچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کا حکم جاری کیا تھا، تو الیکشن کمیشن نے اسی روز پنجاب میں امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کا نیا شیڈول جاری کر دیا تھا۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن نے وزارت خزانہ کو فنڈز جاری کرنے کی بھی درخواست کی اور جب حکومت کی طرف سے فنڈز منظور نہ ہوئے تو الیکشن کمیشن نے وہی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا کر جہاں 14 مئی کو الیکشن کروانے سے معذوری ظاہر کی وہاں چند روز قبل اس نے سپریم کورٹ کو 14 مئی کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست بھی کر دی۔ اب عدلیہ کے پاس یہ نادر موقع ہے کہ وہ اپنی ماضی کی متنازعہ تاریخ کو دہرانے کی بجائے ایک ایسی نئی تاریخ رقم کرے کہ وہ حکومت اور پی ٹی آئی دونوں کو جھکنے پر مجبور کر دے۔ بصورت دیگر، خدا نہ کرے، ملک کسی بھی ناخوشگوار سانحہ میں داخل ہو سکتا ہے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔