اسلامک کانفرنس کے جسد خاکی کو زندہ کرنے کی ضرورت
21 اگست 1969ء میں مسجد اقصی کو آگ لگانے کے واقعہ پر اسرائیل کی ایک سابقہ خاتون وزیراعظم گولڈا میئر نے کہا تھا کہ ”میری زندگی کا سب سے برا اور خوشگوار دن وہ تھا جب میں نے مسجد اقصٰی کو آگ میں جلتے دیکھا تھا۔”
جب اس سے وجہ پوچھی گئی تھی تو اس نے کہا تھا کہ
بُرا دن اس لئے تھا کہ جس دن میں نے مسجد اقصٰی جلتے دیکھی تھی تو میں ساری رات سو نہ سکی تھی کہ کہیں صبح عالم اسلام ہم پر حملہ نہ کر دے کیونکہ اگر ایسا ہو گیا تو پھر اسرائیل کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا اور
خوشگوار اس لئے کہ ساری رات گزر گئی، اگلے دن کا سورج نکلا اور میں نے مسجد اقصٰی کے جلانے پر مسلمانوں کا رد عمل دیکھا کہ مسلم حکمرانوں میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ سب اسرائیل پر حملہ کرتے بلکہ وہ لوگ تو خود اپنی عوام کو جنگ سے ڈرانے اور روکنے میں پیش پیش نظر آ رہے تھے. یہ سب دیکھ کر میں مطمئن ہو گئی تھی کہ اب اسرائیل عرب دنیا کی حدود میں محفوظ ہے اور ہمیں امت مسلمہ سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
اس روز مسجد اقصی کو آگ لگانے والا شرپسند بدبخت ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان تھا جس سے مسجد اقصی جو مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی تھی جس سے جنوب مشرق اور عین قبلہ کی جانب مسجد کا بڑا حصہ گر گیا تھا۔ محراب میں موجود 800سالہ پرانا منبر بھی نذر آتش ہو گیا تھا جسے صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب گیا تھا۔ اس المناک واقعہ کے بعد مسلم دنیا کا اتنا ردعمل ضرور سامنے آیا تھا کہ اس کے بعد خواب غفلت میں ڈوبی ہوئی امت مسلمہ کی آنکھ ایک لمحے کے لئے بیدار ہوئی اور اس سانحہ کے بعد مفتی اعظم فلسطین کی پکار پر سعودی عرب اور مراکش نے قائدانہ کردار ادا کیا، جن کی کوشش سے مراکش کے شہر رباط میں مسلم دنیا کے سربراہ اکٹھے ہوئے اور 25ستمبر 1969ء کو اسلامی سربراہی کانفرنس کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی۔
اسلامی سربراہی کانفرنس کے قیام کے 6ماہ بعد ایک مرتبہ پھر سعودی عرب آگے بڑھا اور اسلامی ممالک کے تمام وزراء خارجہ کا پہلا باقاعدہ اجلاس جدہ میں منعقد کیا۔ سنہ 1972ء میں او آئی سی کو باقاعدہ تنظیم کی شکل دی گئی اور یہ طے پایا کہ اس کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہر سال ہو گا جبکہ سربراہی اجلاس ہر 3 سال بعد ہوا کرے گا۔ 57مسلم ممالک کی اس عالمی سربراہی کانفرنس کے اجلاسوں کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو پاکستان میں 1974ء میں منعقد ہونے والی سربراہی کانفرنس ابھی تک کی واحد کانفرنس ہے جس میں دنیا کے سب سے زیادہ ممالک نے شرکت کی تھی۔ اس کانفرنس کو کامیاب کرانے میں بھی سعودی عرب کے سربراہ شاہ فیصل نے بنیادی کردار ادا کیا تھا، یہی وہ کانفرنس تھی جس میں ذوالفقار علی بھٹو، شاہ فیصل، معمر قذافی اور یاسر عرفات عالمی لیڈر بن کر اُبھرے تھے۔ پاکستان میں ہونے والی سربراہی کانفرنس میں پہلی دفعہ فلسطین کو علیحدہ مملکت کا اسٹیٹس دیا گیا تھا، جس کے بعد اسی بنیاد پر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے فلسطین لیڈران کو خطاب کرنے کا موقع ملا۔ 1974ء میں لاہور میں منعقد ہونے والی سربراہی کانفرنس میں مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی، فلسطین سے یاسر عرفات، سعودی عرب سے شاہ فیصل، یوگنڈا سے عیدی امین، تیونس سے بومدین، لیبیا سے کرنل قذافی، مصر سے انور سادات، شام سے حافظ الاسد، بنگلہ دیش سے شیخ مجیب الرحمان اور ترکی سے فخری کورو سمیت تمام بڑے مسلم رہنما شریک ہوئے تھے۔
اس وقت تنظیم کے عروج کا یہ عالم تھا کہ 1980ء میں پاکستان کے صدر محمد ضیاءالحق نے امت مسلمہ کے متفقہ لیڈر کے طور پر اقوامِ متحدہ سے خطاب کیا تھا اور ان کے خطاب سے قبل ریکارڈڈ تلاوت قرآن پاک بھی چلائی گئی تھی اور پھر اس کے بعد اس تنظیم کے زوال کا یہ عالم تھا کہ یہ تنظیم ایران عراق جنگ کو بند کرانے میں ناکامی کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ غیرموثر ہوتی چلی گئی۔ اگست 1990ء کو عراقی فوج نے کویت پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا مگر آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (او آئی سی) صدام حسین کے حملے کا کوئی آبرو مندانہ حل نہ نکال سکی۔ آج کشمیر اور فلسطین کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ او آئی سی کے ساتھ ایک دردناک حقیقت یہ بھی وابستہ ہے کہ اس کے عروج سے جڑے تمام کردار آہستہ آہستہ غیر طبعی موت مارے گئے۔
گزشتہ چند روز ہوئے اسرائیل نے غزہ میں قیامت صغری برپا کر رکھی ہے۔ رمضان کے ماہ مقدس میں اور اس کے بعد اسرائیل تقریبا ہر سال فلسطینی مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ ہم مشرق وسطیٰ کا نقشہ تبدیل کر کے رکھ دیں گے۔ نیتن یاہو کے اس بیان سے پہلے مشرق وسطیٰ کی ہر ریاست یہی سوچ رہی تھی کہ اگر ہم فلسطینیوں کو مرنے دیں گے تو خود بچ جائیں گے، یاہو نے یہ بیان دے کر ثابت کر دیا ہے کہ خاموشی اور بے حسی مشرق وسطیٰ کے عربوں کو کسی صورت نہیں بچا پائے گی. عراقی صدر صدام، کرنل قذافی اور حافظ الاسد وغیرہ کی صورت میں اسرائیلیوں کے سامنے جو رکاوٹیں تھیں وہ عرب مسلمانوں نے خود ہی رضاکارانہ طور پر ختم کر دی ہیں۔ آج غزہ کی تباہی پر اسلامی کانفرنس (اور آئی سی) مگر مچھ کے آنسو بہانے سے بھی قاصر ہو چکی بلکہ اس کی کارکردگی یہ ہے وہ بیانات اور قراردادیں پاس کرنے سے بھی محروم ہو چکی ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس اسلامی تنظیم پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا قبضہ ہے اور عملا یہ تنظیم کب کی مر چکی ہے جس کے جسد خاکی کو بس دفنانا باقی یے۔
اسرائیلی عزائم سے تو یہی نظر آ رہا ہے کہ اب اس خطے میں ترکی، اسرائیل اور سعودی عرب کے تین ممالک ہی دنیا کے نقشے پر نظر آئیں گے۔ خلیجی ممالک کو چایئے کہ وہ اپنی آزادی اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیئے اسرائیلی وزیراعظم کے اس بیان کے خلاف رد عمل ظاہر کریں اور آئیندہ کا اپنا لائحہ عمل طے کریں۔ عرب ممالک کو یورپی یونین کی طرز پر اپنا تحفظ کرنا چایئے جو اسی صورت میں ممکن ہے کہ خلیجی ریاستیں اپنے درمیان فوجی اور اقتصادی تعاون کو مزید بہتر بنائیں۔ حالانکہ مسلم سکالرز کی تبلیغی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو "گریٹر اسرائیل” کا تصور بھی او آئی سی کی طرح خود ہم نے ہی تخلیق کیا تھا اور اس کے نتائج بھی ہم مسلمانوں ہی کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ اگر مسلم اتحاد ہو جائے چاہے او آئی سی کے مردہ گھوڑے ہی میں جان ڈالی جائے تو کچھ بعید نہیں ہے کہ اسرائیل کی سابقہ خاتون وزیراعظم گولڈا میئر کی طرح موجودہ وزیراعظم نیتن یاہو کی بھی نیندیں اڑ جائیں۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |