برق گرتی ہے بیچارے مسلمانوں پر

برق گرتی ہے بیچارے مسلمانوں پر

برق گرتی ہے بیچارے مسلمانوں پر

اسماعیل ہنیہ کی شہادت کی ذمہ داری ابھی تک اسرائیل نے قبول نہیں کی ہے۔ گزشتہ روز جب اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیل ہگاری سے ایک صحافی نے اس بارے سوال کیا تو انہوں نے واضح طور پر بیان دیا کہ اسماعیل ہنیہ کی قتل کی رات اسرائیلی فوج نے مشرق وسطیٰ میں کسی علاقے میں فضائی یا میزائل حملہ نہیں کیا تھا جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس شہادت کی ذمہ داری اسرائیل اٹھانے کے لیئے ہرگز تیار نہیں ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق بھی اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیل ہگاری نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ اسرائیلی فوج کے منگل کی رات لبنان میں فضائی حملے میں حزب اللہ کے سینیئر کمانڈر فواد شکر ضرور مارے گئے تھے۔ لیکن ابھی تک عالمی میڈیا اس راز سے پردہ نہیں اٹھا سکا ہے کہ اسرائیل کے خلاف برسرپیکار حماس کے بانی رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل میں ایران ملوث ہے یا اسرائیل اور امریکہ ملوث ہیں۔

یہ بات اسرائیلی فوج کے ترجمان نے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہی تھی جس میں ان سے پوچھا گیا تھا کہ وہ تصدیق کریں گے کہ آیا اسماعیل ہنیہ اسرائیل کے میزائل حملے میں یا پھر وہ بم دھماکے میں مارے گئے تھے۔

شہید اسماعیل ہنیہ کو ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں 2اگست کو قطر میں سپرد خاک کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ 31جولائی کو ایران کے دارالحکومت تہران میں سابق فوجیوں کے لئے بنائی گئی پاسداران انقلاب کی ایک محفوظ ترین عمارت میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو پُراسرار انداز میں نشانہ بنایا گیا تھا۔اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر ایران اور حماس نے حملے کا ذمہ دار اسرائیل اور امریکہ کو ٹھہرایا تھا۔ تاہم اسرائیل نے اس حملے کی تردید یا تصدیق نہیں کی تھی جبکہ کسی اور گروپ کی جانب سے بھی حملے کی ذمہ داری تادم تحریر قبول نہیں کی گئی ہے۔

پاسداران انقلاب اور ایرانی کی دیگر خفیہ ایجنسیاں تاحال اس پُراسرار حملے کا سراغ نہیں لگا پائی ہیں۔ تاہم اخباری اطلاعات کے مطابق ایران نے اس حوالے سے اپنے متعدد فوجی و انٹیلیجنس کے افسروں کو ضرور گرفتار کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت ایران میں کسی اندرون خانہ منصوبہ کے تحت ہوئی ہے کیونکہ اگر اسماعیل ہنیہ کی شہادت میزائل حملے سے بھی ہوئی ہے تو اخباری اطلاعات کے مطابق اس میزائیل کو ایرانی ایجنٹوں کے ذریعے عمارت کے بہت قریب سے فائر کیا گیا تھا۔ اس سے قبل ایک امریکی اخبار نے دعویٰ کیا تھا کہ اسماعیل ہنیہ کے کمرے میں بم نصب کیا گیا تھا اور بعد میں برطانوی اخبارات نے بھی دعوی کیا تھا کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت اسماعیل ہنیہ کے کمرے میں نصب کیئے گئے دھماکہ خیز مواد یا “ٹائم بم” کے پھٹنے سے ہوئی تھی۔دوسری جانب اسرائیلی میڈیا نے اس سے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ اسماعیل ہنیہ کو میزائل حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کی ابھی اسرائیلی فوج کے ترجمان نے تردید کر دی ہے۔

ماضی کی خلیجی تاریخ میں مصر کے صدر انور سادات، فلسطین کے صدر یاسر عرفات کی ہلاکتیں، ایران عراق کی جنگ، عراقی صدر صدام حسین کی پھانسی اور باغیوں کے ہاتھوں لیبیا کے صدر کرنل قذافی کا کسی نامعلوم مقام پر انجام کسی کو بھولا نہیں ہو گا۔

6اکتوبر سنہ 1981ء کو مصر کے تیسرے صدر انور سادات کو قاہرہ میں سالانہ وکٹری پیریڈ کے موقع پر اس وقت قتل کیا گیا تھا جب مصر اسرائیل جنگ کے دوران مصر اسرائیل کے قبضے سے نہر سویز اور صحرائے سنہائے واپس لینے کے بعد جشن منانے کے لیئے آئے تھے۔

صدر یاسر عرفات فلسطین کے علامتی صدر کے طور پر سب سے زیادہ مشہور صدر تھے جنہوں نے پی ایل او (PLO) کے اعلان کے مطابق 15 نومبر 1988ء کو یہ عہدہ سنبھالا تھا۔ صدر یاسر عرفات سنہ 1994ء تک فلسطینی نیشنل اتھارٹی کے بھی صدر رہے تھے اور کہا جاتا ہے کہ وہ بھی قدرتی موت نہیں مرے تھے بلکہ ان کی شہادت بھی پراسرار طور پر ہوئی تھی۔

یاسر عرفات نے سنہ 1950ء میں “الفتح” نامی تنظیم کی بنیاد رکھی تھی جو اسرائیل سے برسر پیکار رہی۔ یاسر عرفات نے سنہ 1988ء میں مذاکرات کے ذریعے اسرائیل کے حق خود مختاری کو تسلیم کر لیا۔ یاسر عرفات کو 1993 میں اوسلو معاہدے اور 2000ء میں کیمپ ڈیوڈ امن مذاکرات کی بناء پر امن کا “نوبل پرائز” بھی دیا گیا مگر اسرائیلی حکومتوں سے ان کے نرم گوشے اور حماس کے عروج پر یاسر عرفات سنہ 2004ء تک دو سال کے لیئے رملا کمپونڈ تک محدود ہو گئے تھے اور 11نومبر 2004 کو جب ان کی غیر متوقع طور پر 75سال کی عمر میں اچانک وفات ہوئی تو اس پر بھی دنیا بھر کے میڈیا نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا۔

اب اس پس منظر میں حماس کے سیاسی رہنما ابراہیم ہنیہ کی ایران میں پراسرار شہادت ایران کے لیئے ایک امتحان کی شکل اختیار کر گئی ہے کہ اگر ایران علامتی طور پر بھی پہلے کی طرح اسرائیل پر کوئی حملہ کرتا ہے تو جہاں ایران اسرائیل کی کھلی جنگ چھڑنے کا امکان موجود ہے وہاں اسرائیل (اور امریکہ و اتحادیوں) کے ہاتھوں حماس کے مزاحمتی رہنماؤں اور فلسطینی باشندوں کے لیئے عرصہ حیات مزید تنگ ہو جائے گا جو بلآخر مسلم امہ ہی کا جانی و مالی ہے۔

Title Image by Pexels from Pixabay

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

کتاب " ننھا بہادر'

جمعرات اگست 8 , 2024
قانتہ رابعہ پنجاب کے ایک علمی و ادبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ان کی جڑوں میں کم عمری سے ہی ادب سے گہرا لگاؤ پیوستہ ہے۔زمانہ طالب علمی سے
کتاب ” ننھا بہادر’

مزید دلچسپ تحریریں