تحریر: پیرزادہ محمد طیب میلادی (گولڈ میڈلسٹ)
شوال، ہجری قمری(اسلامی) کیلنڈر کا دسواں مہینہ ہے۔ اس مہینے کا پہلا دن عید الفطر ہے عام طور پر چھوٹی عید کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ شوال کے معنی ”کسی جگہ جانے کی قصد سے سامان باندھنا” ہے۔ عربی مہینوں کے نام گزاری کے دوران یہ مہینہ شکار اور سیر و تفریح کے ایام میں آنے کی وجہ سے اس مہینے کا نام شوال رکھا گیا ہے۔اسلام میںاسکی وجہ یہ ہے کہ اس مہینے میں مومنین کے گناہ اور برے اعمال برطرف ہوتے ہیںنیز یہ مہینہ اشہر الحج میں شمار ہوتا ہے جس میں سفر حج میں جانے کا قصد کیاجاتا تھا۔ماہ شوال المکرم میں رونما ہونے والے اہم واقعات و مقامات میںعیدالفطر(1 شوال)،جنگ احد، شہادت حضرت حمزۃ بن عبدالمطلب (7 شوال 3ھ)، جنگ حنین (3 شوال 8ھ)،شہادت امام صادق رضی اللہ عنہ (25 شوال 148ھ) اوراسی طرح 8 شوال سنہ 1344ھ کو جنت البقیع میں موجود مقبروں اور مزارات کو سعودی حکومت کی جانب سے شہید ہوناوغیرہ شامل ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے رمضا ن کریم کے فوراًبعدوالے مہینہ یعنی شوّال میں چھ نفلی روزے رکھے، تاکہ رمضان کے جاتے ہی عبادات و اذکار کا سلسلہ ختم نہ ہو جائے، اور ان کا ثواب ایک سال کے روزوں کے برابر رکھا تاکہ انسان کی طبیعت اس کی طرف مائل ہو۔احادیث میں اس کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہیں۔ماہ شوّال کی باقی مہینوں پر خصوصیت یہ ہے کہ رمضان المبارک کے روزوں اور عید الفطر کے بعد ماہ شوال کے چھ روزے رکھنے کی احادیث میں بہت فضیلت اور ترغیب آئی ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَہٗ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ کَانَ کَصِیَامِ الدَّہْرِ (مسلم: 2815) ترجمہ: جس نے رمضان کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ساری زندگی کے روزے رکھنے کی طرح ہے۔
شوال کے چھے روزے جائز اور مستحب ہیں۔ان نفلی روزوں کو رکھیں تو اجرو ثواب حاصل ہو گا، اگر کوئی شخص یہ روزے نہ رکھے تو اسے طعن و تشنیع کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے، کیوں کہ یہ مستحب روزے ہیں، جسے رکھنے پر ثواب ہے اور نہ رکھنے پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔لہٰذا ہمیں اللہ کے اس فضل و کرم سے استفادہ کرنا چاہیے اور یہ سنہری موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔ایک مسلمان کا ہر عمل نبی کریم ﷺکی تعلیمات اور ہدایات کے مطابق ہو نا چاہیے۔اگر کسی کے ذمہ رمضان کے روزے ہوں تو احتیاطا پہلے ان روزوں کی قضا کی جائے، بعد میں شوال کے بقیہ دنوں میں ان چھ روزوں کو رکھا جائے،شوال کے یہ چھ روزے عید کے فوراً بعد رکھنا ضروری نہیں بلکہ عید کے دن کے بعد جب بھی چاہیں رکھ سکتے ہیں۔ بس اس بات کا اہتمام کر لیا جائے کہ ان چھ روزوں کی تعداد شوال میں مکمل ہو جانی چاہیے۔اللہ رب العزت اپنے بندوں پر بہت مہر بان ہے۔اللہ تعالیٰ کی رحمت تو بندوں کو بخشنے کا بہانہ ڈھونڈتی ہے۔بندہ نفلی عبادات بجا لاتا ہے۔بظاہر چھوٹی چھوٹی نیکیاں اللہ کی پسند آتی ہیں اور بندے کی مغفرت فرما دیتا ہے۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ نیکیاں کرتے رہیں۔
ماہ شوال کو اشہر حج میں سے ہونے کا بھی شرف حاصل ہے جو بہت بڑی فضیلت ہے، امام بخاری نے اپنی صحیح میں عبد اللہ بن عمرسے روایت کی ہے کہ اشہر معلومات سے مراد شوال ذی القعد اور عشرہ ذی الحجہ ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حج کے مہینوں کی ابتدا شوال سے ہوتی ہے، اور جو شخص اس سے قبل حج کا احرام باندھے گا اس کا احرام حج صحیح نہیں ہوگا، کیونکہ حج کا یہ احرام اس کے وقت سے پہلے باندھا گیا ہے، جس طرح اگر کوئی نماز کو اس کے وقت سے پہلے پڑھ لے تو اس کی نماز درست نہیں ہوگی، اور اسے وہ نماز کا وقت ہوجانے کے بعد دوبارہ پڑھنی پڑے گی، اسی طرح شوال سے پہلے احرام حج باندھنے والے کو ماہ شوال شروع ہونے کے بعد دوبارہ احرام باندھنا پڑے گا۔اسی طرح اگر کسی نے شوال سے پہلے تمتع کی نیت سے عمرہ کا احرام باندھا اور عمرہ کیا تو اس کا یہ عمرہ حج تمتع کا عمرہ نہیں ہوگا بلکہ نفلی عمرہ ہوگا۔
ماہ شوال کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس ماہ شادی کرنا اور رخصتی کر کے نئی نویلی دلہن کو اپنے گھر لانا بہت سے علماء کے نزدیک مستحب ہے، جبکہ اس ماہ کو شادی بیاہ کے لئے منحوس سمجھنا بالکل غلط اور جاہلیت کے امور میں سے ہے، امام نسائی نے ام المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے وہ فرماتی ہیں کہ مجھ سے نبی ﷺنے شوال میں نکاح کیا اور شوال میں ہی میری رخصتی ہوئی تو آپ ﷺکی بیویوں میں کون سے بیوی رسول اللہ ﷺکے نزدیک مجھ سے زیادہ پیاری ہے، اور حضرت عائشہ پسند کرتی تھیں کہ عورتوں کی رخصتی شوال میں ہو۔حضرت عائشہؓسے اس قول کا مقصد اہل جاہلیت کے اس عقیدہ کی تردید اور عوام کی اصلاح کرنا ہے، جو شوال میں شادی بیاہ کرنے کو منحوس سمجھتے ہیں حالانکہ یہ عقیدہ باطل ہے اور بے اصل ہے ۔افسوس کی بات ہے کہ آج بھی بہت سے مسلمان دور جاہلیت کے اس عقیدہ میں مبتلا ہیں اور اس ماہ میں شادی بیاہ کو برا اور منحوس سمجھتے ہیں، جو سراسر باطل ہے، اور رسول اللہ ﷺ نے خود اپنی اس ماہ میں ام المومنین حضرت عائشہؓ سے نکاح کیا اوراس عقیدہ کے فساد اور بطلان کو واضح کیاہے، ام المومنین حضرت عائشہؓ نہ صرف اس عقیدہ کی تردید کرتی تھیں بلکہ اس میں شادی اور رخصتی ہونا مستحب قرار دیتی تھیں اور چاہتی تھیں ان کے رشتہ دار کی خواتین کی شادی اسی ماہ میں ہو تاکہ اس عقیدہ کا نام و نشان مٹ جائے، اور لوگوں کو اس کے بطلان کے بارے میں یقین کامل حاصل ہوجائے۔اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ دین اسلام پر استقامت نصیب فرمائے ، اس ماہ شوال کی برکات نصیب فرمائے ، ملک پاکستان کو ترقی، خوشحالی، استحکام عطا فرمائے آمین۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔