"مکتبتہ محمد بن راشد”
جب ایڈیٹوریل انچارج نے آج کے کالم کے لئے وٹس ایپ کیا تو ہم ‘محمد بن راشد لائبریری’ میں تھے۔ ایک گزشتہ کالم میں ‘شارجہ دانش کدہ’ اور متحدہ عرب امارات کے ‘بک فیئرز’ کا ذکر کیا تھا کہ وہاں پاکستان کی نمائندگی کے لئے اردو کتب نہ ہونے کے برابر تھیں۔ ہم نے لائبریری کے اردو سیکشن کا پوچھا اور ایکسیلیٹر کے ذریعے لائبریری کی دوسری منزل پر پہنچ گئے۔ اردو سیکشن کے ریکس ‘پی اے’ (PA) کے نام سے مختص تھے۔ ہم بڑے خوش ہوئے کہ شائد ‘پی اے’ کے الفاظ "پاکستان” کا مخخف ہیں۔ لیکن وہاں اردو زبان کی کوئی کتاب نہ دیکھ کر بڑی مایوسی ہوئی! ہم واپس استقبالیہ پر پلٹے اور اردو کتب کے بارے میں دوبارہ پوچھا تو استقبالیہ پر موجود خاتون نے کمپیوٹر پر اردو کتابوں کی فہرست کو چیک کیا اور بتایا کہ ابھی تک اس لائبریری کو اردو زبان کی کوئی کتاب موصول نہیں ہوئی ہے جس وجہ سے وہاں عربی اور دیگر زبانوں کی کتابیں رکھی گئی ہیں!!
دبئی کو ڈیرا دبئی اور بردبئی کے دو حصوں میں تقسیم کرنے والے قدرتی ساحل سمندر ‘کریک’ (Creek) اور ‘فیسٹیول سٹی’ (Festival City) کے ایریا میں واقع محمد بن راشد لائبریری میں دنیا کی 30 مختلف زبانوں میں 4 ملین سے زیادہ کتابیں رکھی گئی تھیں مگر دنیا کی تیسری بڑی زبان اردو کی وہاں ایک کتاب بھی موجود نہیں تھی!!!لائبریری کے گائیڈ نے بتایا کہ محمد بن راشد لائبریری (اور شارجہ وزڈم ہاوس) کا شمار عرب ممالک میں سب سے بڑی لائبریریوں میں ہوتا ہے جسے ایک بلین درہم کی لاگت سے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس لائبریری کا افتتاح ایک سال قبل 16 جون 2022 کو متحدہ عرب امارات کے نائب صدر، وزیراعظم اور دبئی کے حکمران عزت مآب شیخ محمد بن راشد المکتوم نے کیا تھا۔ اس لائبریری کی 7 مختلف منزلیں ہیں، جس میں پرنٹ کے علاوہ ڈیجیٹل کتب بھی دستیاب ہیں، 60 لاکھ سے زیادہ مقالے شامل ہیں، تقریبا 73,000 میوزک اسکورز، 75,000 ویڈیوز، 325 سالوں پر محیط آرکائیو ہیں، 5,000 سے زیادہ تاریخی پرنٹ اور ڈیجیٹل جرائد بھی رکھے گئے ہیں، جبکہ دنیا بھر سے تقریبا 35,000 پرنٹ اور ڈیجیٹل اخبارات بھی قارئین کے مطالعہ کیلئے موجود ہیں۔
ہم نے دیکھا کہ یہ لائبریری آرکیٹیکچر اور قدرتی حسن کا بے مثال نمونہ ہے کہ آپ چاہیں تو اپنی پسند کی کتاب لے کر اس کا مطالعہ سمندر کے کنارے بیٹھ کر بھی کر سکتے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی لائبریری واشنگٹن ڈی سی میں ‘گانگرس لائبریری’ ہے جو 1800ء میں تعمیر ہوئی تھی اور جس میں کتابوں سمیت 164 ملین آئٹمز ہیں۔ آپ یہ سن کر حیران ہونگے کہ اس لائبریری میں رکھی گئی کتابوں کے ریکس کا ایریا 1350 کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی لائبریری ‘برٹش لائبریری’ ہے جس میں خوبصورت نیشنل میوزیم بھی ہے۔ میں نے برٹش لائبریری کا وزٹ 1999ء میں کیا تھا جس کے بعد کسی لائبریری کو دیکھ کر میں سب سے زیادہ متاثر ہوا تو یہ ‘محمد بن راشد لائبریری’ ہی ہے۔ اس لائبریری میں دو لائیو پروگرام بیک وقت چل رہے تھے۔ پہلے ہم نے پوڈ کاسٹ Podcast کی ورکشاپ میں شرکت کی اور پھر ہم نیچے فرسٹ فلور پر آ گئے جہاں بچوں اور بڑوں کو شطرنج کھیلنا سکھایا جا رہا تھا۔ اس کھیل کے ماہرین کا شمار بھی ذہین و فطین لوگوں میں ہوتا ہے۔ ہر فلور پر چائے پانی کا فری انتظام تھا جس سے ہم وقفے وقفے سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ مقامی مصنوعات کے سٹالز بھی لگائے گئے تھے۔ لائبریری میں کافی رش تھا، مختلف قومیتوں کے لوگ فیملیوں اور بچوں کے ساتھ آئے ہوئے تھے۔ تین چار گروہوں کے افراد کے ساتھ ہماری ہیلو ہائے بھی ہوئ اور ہم نے ان کے ساتھ فوٹو اور سیلفیاں بنائیں۔ اسی دوران ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا تو ہم بیسمنٹ میں چلے گئے جہاں ایک عالیشان مسجد عربی آرٹ اور کلچر کا بہترین نمونہ پیش کر رہی تھی۔
یہ لائبریری دبئی میٹرو کے آخری سٹیشن ‘کریک میٹرو سٹیشن’ سے سات منٹ کے پیدل سفر پر واقع ہے۔ کریک میں کشتیوں کی ایک ڈاک بھی واقع ہے جہاں ہر سال نومبر دسمبر میں لگثری بوٹس (Yachats) کی خرید و فروخت کا ایک میلہ بھی لگتا ہے جن کی قیمت 5 ملین سے لے کر 50 ملین درہم تک ہوتی ہے! کریک سے پہلے ‘جداف’ میٹرو سٹیٹس آتا ہے جو فری زون ہے اور جہاں شپ مینیوفیکچرنگ ہوتی ہے۔ ہم نے واپسی پر عصر کی نماز جداف فری زون میں پڑھی۔ جب ہم ‘اود مہتا’ پر واقع اپنے ایک دوست کے دفتر میں پہنچے تو شام کا وقت ہو رہا تھا، راستے میں ہم علم، صفائی ستھرائی اور کتب کے حوالے سے گفتگو کرتے رہے۔ ہم نے پاکستان کی سب سے بڑی ‘نیشنل لائبریری’، اسلام آباد کا موازنہ دبئی کہ اس لائبریری سے کیا! اس دوران ہم نے کراچی میں گڈانی کی بندرگاہ اور ساحل سمندر کلفٹن کا موازنہ کریک اور جداف سے کیا تو ہمیں افسوس ہوا کہ نجانے ہم اس قدر پسماندہ کیوں ہیں؟ ہم جمہوریت سے کیا نکالنا چاہتے ہیں؟ متحدہ عرب امارات میں بادشاہت ہے اور دبئی اس کی ایک ریاست ہے مگر جس طرح کی پالیسیوں پر دبئ کے حکمران عمل پیرا ہیں اور جتنی تیزی سے دبئی دنیا کا عظیم الشان ‘میٹرو پولیٹن’ شہر بن گیا ہے اس کی مثال دنیا بھر میں دینا مشکل ہے۔
ہم شارجہ، دبئی اور ابوظہبی کی لائبریریوں، کتاب میلوں اور ان کی علم دوستی کو دیکھ کر سوچ رہے تھے کہ متحدہ عرب امارات اور دبئی کے برق رفتاری سے ترقی کرنے کی وجہ ان کی کتاب دوستی اور مطالعہ کا شوق ہے جو ان کے اندر وسعت نظر، برداشت اور ویژن کو جنم دیتا ہے۔
یقین مانیں، جب ہم دبئی کے ٹرمینل3 سے فلائی کر کے کراچی یا لاہور ایئرپورٹ پر اترتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے ہم شہر سے نکل کر گاؤں میں آ گئے ہیں۔۔۔!!!
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔