بڑے دکان داروں کا طریقہ واردات
آپ اکثر سوچتے ہوں گے کہ یہ اتنے بڑے بڑے سٹورز جن کا کرایہ لاکھوں میں ہوتا ہے، انھیں اس کاروبار میں کیا بچتا ہو گا۔یہ بھی ایک جادو ہے ۔اس جادو کی کہانی میری زبانی سنیں:
بڑے بڑے سٹورز سے مہینا بھر کی اشیا خریدنا ایک فیشن کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ان بڑے بڑے سٹورز پر خریداری کے بعد جو بل ہمارے ہاتھ میں تھما دیا جاتا ہے اس کا فونٹ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ آپ اسے پڑھ ہی نہیں سکتے۔ان سٹورز پر رش بھی بہت ہوتا ہے اس لیے آپ کے لیے ممکن نہیں کہ آپ وہاں بل کے مطابق تمام چیزیں چیک کر سکیں۔اس ساری صورتحال کا فائدہ بڑے بڑے مال کے مالکان یوں اٹھاتے ہیں کہ جو چیز تین سو کی ہے، بل میں اس قیمت چار سو وصول کر لی گئی ہے۔ایک بات کی وضاحت کر دوں کہ ہر خریدی گئی چیز کے ریٹ اصل قیمت سے زیادہ نہیں لگاے جاتے بلکہ کچھ چیزوں کی قیمت میں ہیرا پھیری کی جاتی ہے۔اگر آپ دس ہزار روپے کی خریداری کریں تو اس میں پندرہ سو روپے اضافی ہوں گے اور یہ ٹھگی ہر گاہک کے ساتھ کی جاتی ہے۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ایک آئٹم دو بار سکین کر لیا جاتا ہے۔فرض کریں آپ نے ایک ٹوتھ برش لیا ہے، وہ اسے دو بار سکین کر کے دگنی قیمت لے لیں گے۔
دو چار دن پہلے میں ایک سٹور پر گیا۔چار پانچ چیزیں ہی خریدی تھیں۔ایک آئٹم پر 350 روپے قیمت درج تھی، انھوں نے بل میں 450 لکھ رکھے تھے۔میں نے نشاندہی کی تو کہنے لگے کہ پرانی قیمت 350 ہے لیکن نئی قیمت 450 ہی ہے لیکن چلیں آپ 350 ہی دے دیں۔
میں وہی آئٹم لینے دوسری بڑی دکان پر گیا، انھوں نے 380 روپے لگاے۔یہاں بھی اعتراض کرنے پر یہی جواب ملا کہ قیمت بڑھ گئی ہے لیکن آپ 350 ہی دے دیں۔
تو دوستو یہ ہے وہ ٹھگی، وہ جادو، جس کو استعمال میں لا کر یہ مال والے وہ لاکھوں کا کرایہ ہم سے وصول کرتے ہیں ۔
ایم فل
پروفیسر اردو
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اٹک
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔