آواز کا جادوگر: سید مبشر حسین اثر ؔبہرائچی
جنید احمد نور
9616502261
اثر ؔ بہرائچی صاحب کا نام ذہن میں آتے ہی ایک ایسے شاعر کی تصویر آنکھوں میں آتی ہے جن کا کسی بھی ملنے والے سے نرم لہجہ ،خوش مزاجی سے ملنا ،محبت سے بات کرنا ملنے والے کو اپنا مرید بنا لے۔راقم کو بھی آپ سے کئی بار ملنے کا موقع ملا ہے خاص طور پر استاد محترم حضرت اظہار ؔوارثی صاحب مرحوم کے دولت خانے پر۔جو بھی آپ سے ایک بار ملے وہ آپ سے دوبارہ ملنے کی تمنا ضرور اپنے دل میں رکھتا ہے۔راقم سے جب بھی ملے ہمیشہ شفقت سے ملے اور کہتے کہو بیٹا، کیسے ہو ؟،آج کل کیا چل رہا ؟ جب بھی بتاتا کی بس بہرائچ کی ادبی تاریخ پر کام چل رہا ہے۔بڑے خوش ہوتے اور دعاؤں سے نوازتے۔میں وہ لمحہ کبھی نہیں بھول سکتا جب سن ۲۰۲۲ء میں میری کتاب بہرائچ ایک تاریخی شہر حصہ دوم (بہرائچ اردو ادب میں ) کا رسم اجرا آپ کی ہی صدارت میں ہوا تھا۔اس موقع پر آپ نے ہمارے دولت خانہ پر اپنی دلکش اور محسور کن آواز سے اپنے نعتیہ کلام سے محفل کا آغاز کیا تھا۔اب آئیں اثرؔ صاحب کی زندگی اور ادبی سفر پر باتیں کرتے ہیں۔
حضرت سید مبشر حسین اثر ؔبہرائچی کی ولادت شہر بہرائچ کے محلہ چکی پورہ چھوٹی بازار میں سید عنایت حسین صاحب کے گھر میں یکم؍کتوبر۱۹۴۶ءکو ہوئی۔ آپ کی والدہ کا نام مسماۃ مسلمہ خاتون تھا۔ اثرؔ صاحب نے ہائی اسکول تک تعلیم حاصل کی۔ جب آپ ہائی اسکول میں تھے اس وقت آپ کے والد کا انتقال ہو گیا جس کے سبب آپ صرف ہائی اسکول تک ہی تعلیم حاصل کر سکے اور۱۹۶۴ءمیں ضلع مجسٹریٹ بہرائچ کے آفس میں سرکاری ملازمت اختیار کر لی اور جہاں سے ۲۰۰۶ءمیں آپ ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔
حکیم محمد اظہر ؔ وارثی صاحب(شاگرد مولانا حسرتؔ موہانی و مولانا عبدالکلام آزادؔ) شہربہرائچ کے مشہور حکیم ہونے کے ساتھ ایک مشہور استاد شاعر بھی تھے اور حکیم اظہر ؔصاحب نے آپ کو اثر ؔکا تخلص دیا اور پھر آپ اثرؔ بہرائچی کے نام سے پوری ادبی دنیا میں مشہو رہوئے۔ استاد حکیم محمد اظہر ؔوارثی ؔصاحب کے انتقال کے بعد آپ نے استادالشعرا حضرت اظہار ؔ وارثی سے شرف تلمذ حاصل کیا جو اظہار ؔ صاحب کی وفات تک قائم رہا۔ اثرؔ بہرائچی کا ادبی سفر۱۹۶۹ءمیں ملک محمد جائسی کی سرزمین جائس رائے بریلی کے ایک مشاعرے سے ہوا،اور اب تک ملک و بیرون ملک میں سیکڑوں مشاعرے پڑھے۔ آپ کاآخری ادبی پروگرام اپنی نعتیہ مجموعہ ’’سرتاجِ خوباں‘‘ کی رسم اجرا رہا، جو شہر کے لگن پیلس میں منعقد ہوا تھا جس میں آپ کے قریبی دوست جناب واصف فاروقی( جن کی زندگی کےتقریباً ۳۵ سالوں کا لمبا عرصہ بہرائچ میں بہ سلسلہ ملازمت گزرا )، صوفی سید اظہارعلی ، شکیل گیاوی صاحبان اور مقامی ادبی اور علمی شخصیات نے شرکت کی تھی ۔
آپ نے ۳ بار کاٹھ مانڈو(نیپال) میں۱۹۶۹ء،۱۹۷۰ءاور ۱۹۷۲ءمیں مشاعروں میں شرکت کی اور نیپال کے بادشاہ مہندرا ویر وکرم شاہ دیو اور ہندوستانی صفیر کے سامنے کلام پیش کیااور داد تحسین حاصل کی۔ اس کے علاوہ ۲۰۱۰ءمیں ریاستہائے متحدہ امریکا کے مختلف شہروں نیویارک،ہوسٹن،شکاگو،نیوجرسی،کیلیفورنیا وغیر ہ میں تقریباً۱۲؍مشاعروں میں شرکت کی اور سامعین کو اپنے کلام سے متاثر کیا۔ آپ کا کلام ملک زادہ منظور احمد کے رسالے امکان میں شائع ہوتا رہتا تھا۔
پد م شری بیکلؔ اتساہی آپ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’اردو شعری اثاثے کا قیتمی اور محبوب سرمایہ صنف غزل ہی تو قلی قطب و لی دکنی سے جگر مرادآبادی تک سب نے اپنےخون جگر سے اس کی آبیاری کی،دکن سے شمال تک اس پیکر ِ محبوبی کے سجاؤ سنگار کے لیے کئی نظریاتی اور فنی اسکول بنا لیے گیے وہ چاہے دلی ہو یا لکھنؤ سبھی اپنے اندازِ فکر سے اسے حسِین سے حسِین تر بنانے میں مصروف رہے اور غزل اپنے رموز و علائم سیاق و سباق میں ہر دور میں پیر ہن بدلتی رہی ہے۔ دورِ نو صنف غزل کے لیے بڑا پُرآشوب دور ہے پھر بھی یہ محبوب صنف ہر اذیت کو برداشت کرتے ہوئے سامعین و قارئینکے دلوں کو لبھاتی رہی ہے۔ایسے انتشاری دور میں عزیز م اثرؔ بہرائچی نے غزل سے وابستگی رکھی ہے اور غزل کی روایتوں کو احترام و اہتمام کے ساتھ نبھایا ہے۔ایسا نہیں کہ اثرؔ بہرائچی صرف روایت اور بزرگوں کی تقلید میں سر بہ خم ہیں بلکہ عصری حیثیت کی بھی قدر کی ہے۔‘‘{ حرف حرف خوشبواز اثرؔ بہرائچی، ص۱۱}
پروفیسر مالک جادہ منظور احمد لکھتے ہیں:۔
”اثر ؔ بہرائچی نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز مشاعروں کے حوالے سے کیا اور اپنے کلام کے میعار اور اپنے ترنم کی نغمگی کے باعث پورے ملک کے مشاعروں پر آندھی اور طوفان کی طرح چھائے رہے۔گذشتہ چاردہائیوںمیں مختلف شہروںمیں ہونےوالے مشاعروںمیں دیکھایہ ہے کہ ان کے اشعار کے زیر وبم اور ان کے ترنم کی نغمگی میں سامعین کے دلوں کی دھڑکنیں شامل ہوگئی۔اثرؔنے مشاعروں میں خواص کے دلوںمیں بھی جگہ بنائی اور عوامی ذہنوں کی تربیت بھی کی ہے۔ آپ کے کلام میں انسانیت کی اعلیٰ وارفع قدروں کی ترجمانی بھی ہوتی ہے اور بصیرتوں کے بہت سے پہلو بھی پیدا ہوتے ہیں۔اثرؔ بہرائچی کےیہاں عصرِ حاضر کے مسائل کی ترجمانی میں بھی بوجھل نہیں ہوتی اورپوری نغمگی آہنگِ صوتی اور تغزل کی ایک موج تہ نشیں کے ساتھ نئے موسموں کا اشاریہ بنتی ہے۔“{ حرف حرف خوشبواز اثرؔ بہرائچی، ص۷-۸ }
خورشید افسر بسوانی لکھتے ہیں:
’’اثرؔ بہرائچی سے میرے دیرینہ تعلقات ہیں،میں تقریباً تیس سال سے مشاعروں میں ان کا کلام سنتا رہا ہوں ،آج بھی مشاعروں میں ان کے نام کی شمولیت ایک خوش گوار اضافہ سمجھتی جاتی ہے۔خوش آواز،خوش اخلاق،اور خوش پوش و خوش آہنگ شاعر ہیں۔ عام شعراء کی طرح ان میں کوئی بُری عادت نظر نہیں آئی بجز اس کے کہ پان کے شوقین ہیں یا چائے پیتے ہیں۔اثرؔ بہرائچی کلاسیکی غزل کے اچھے شاعر ہیں،ہاں محب وطن ہیں حب الوطنی ان کے مزاج کا حصہ بن چکی ہے لہذا مختلف موقعوں کے لیے حب وطن ست سرشار نظمیں بھی لکھی ہیں ۔ جن میں وطن پرستی اور حسنِ وطن کی پیکر تراشی کی گئی ہے۔شاعر(اثرؔ )نے لفظوں کے رنگوں سے مصوری کا کام لیا ،لیکن غزل انہیں زیادہ عزیز ہے اس صنف پر ان کی پھر پور توجہ رہی ہے ‘ ‘{ حرف حرف خوشبواز اثرؔ بہرائچی، ص۱۲}
شہر بہرائچ کی ایک عظیم ادبی ہستی جو اثرؔ صاحب سے اس قدر قلبی تعلق رکھتے تھے کہ اثرؔ صاحب اور ان کی محبت صرف زندگی میں ہی نہیں بالکہ موت پر بھی ساتھ رہی اور صرف دس دنوں کے اندر ہی دونوں حضرات اس دارِ فانی سے کوچ کر گیے میری مراد مشہور افسانہ نگار،شاعر،ناظم ، غلام علی شاہ (متوفی ۳۱؍ مارچ ۲۰۲۵ء مطابق یکم شوال ۱۴۴۶ھ) اثرؔ صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’اثرؔ کے یہاں انقلابی فکر بھی غنائی لہجہ میں ہے۔انھوں نے انقلابیت کے لیے غنائیت کو یا غنائیت کے لیے انقلابیت کو کبھی قربان نہیں کیا بلکہ اپنی غیر معمولی تخلیقی صلاحیت سے انقلابی فکر اور عاشقانہ لہجے کو ایسا آمیز کیا کہ ان کی شاعری میں ایک جمالیاتی شان پیدا ہو گئی ۔جیسے؎
مرے اشکوں پہ ہے شبنم کا گماں تم کو مگر
آگ لگ جائے نہ دامن کو ، بچائے رکھنا
غنائی سطح پر اثرؔ کی شاعری میں ایسی قوت شفا ہے ،ایسی دلاسائی ،ایسی دلآویزی ایسی نرمی اور ایسا شبنمی لمس ہے کہ محسوس ہو تاہے جیسے کسی نے دل کے رُخسار پر پیار سے ہاتھ رکھ دیا ہو۔ایسی کھنک ہے کو یا آبشاروں نے ترنم چھیڑ دیا ہوں۔مختصر یہ کہ جناب اثر بہرائچی ایک خالص غزل گو شاعر ہیں ۔ ان کی غزلیہ شاوری قدیم و جدید رنگ ِ شاعری کا ایک خوب صورت امتزاج ہے۔ ان کے یہاں حُسن وعشق کی رنگینیاں بھی ہیں ،رعنائیاں بھی ،حدیث دل بھی ہےاور حدیث دیگراں بھی ۔غم جاناں کی چاشنی بھی اور غم دوراں کی لذت بھی ۔خیال کی پاکیزگی بھی اور اور جذبے کہ صداقت بھی روشنی کی جستجو بھی ہے اور اندھیروں سے لڑنے کا حوصلہ بھی۔زندگی کے نئے تجربے بھی ہیں اور عصری آگہی کے نمونے بھی ،فکر و نظر میں گہرائی بھی اور تنوع بھی ۔زبان و بیان میں سلاست بھی اور اسلوب میں ندرت بھی ،نئی علامتیں بھی ہیں اور نئے اشارے کنائے بھی ۔فنکارانہ مہارت بھی ہے اور پیکر تراشی بھی ،وہ کہتے ہیں ؎
ورق ورق ہے پریشاں فضا میں پھولوں کا
سزا ملی ہے ذرا دیر مسکرانے کی
(حرف حرف خوشبو،اثرؔ بہرائچی،ص ۲۲)
اثرؔ بہرائچی صاحب کے دو مجموعہ کلام اب تک منظر عام پر آئے اور داد تحسین حاصل کی۔ پہلا مجموعہ نعتیہ مجموعہ ہے جس کا نام ’’رُوح‘‘ ہے۔ ’’روح ‘‘ کی اشاعت ۔ جب کہ دوسرہ مجموعہ غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے اور اس مجموعہ کا نام ’’حرف حرف خوشبوں ‘‘ ہے۔اثرؔصاحب کو بہت سی ادبی تنظیموں نے انعامات سے نوازا ہے جونپور کی ایک تنظیم نے آپ کو ’منظوم‘ ایوارڈ سے سرفراز کیا ہے۔ ڈی۔ ایم۔ بہرائچ نے بھی انعامات سے نوازا ہے۔ آل انڈیا ریڈیو لکھنؤ و دور درشن لکھنؤ سے آ پ کئی بار اپنا کلام پڑھ چکے ہیں۔
آپ کی طبیعت گزشتہ کئی سالوں سے ناساز چل رہی تھی لیکن ۲۰۲۴ءمیں اپنی کتاب ’’سرتاجِ خوباں‘‘ کی رسم اجرا والے دن گھر پر گِر پڑے تھے جس کی وجہ سے آپ کو کافی چوٹیں آئیں اور پھر اپریشن بھی ہوا اور طبیعت میں سدھار بھی ہوا لیکن پھر گزشتہ دو ماہ قبل بیماری بڑھتی گئی اور لکھنؤ کے ایک ہاسپٹل میں زیر علاج رہے اور جہاں تقریباً ایک ماہ تک علاج چلا اور پھربہ روز شنبہ ۲۲ ؍مارچ ۲۰۲۵ مطابق ۲۱؍رضمان ۱۴۴۶ھ کو بہ وقت ڈھائی بجے دن میں ’’روح‘‘ پرواز گئی۔ آپ کی نماز جنازہ آپ کے سمدھی جناب سید ؔ نیپالی صاحب نے پڑھائی اور تدفین رات میں دس بجےخانقاہ بسم اللہ شاہ ؒ چھوٹی تکیہ کے آبائی قبرستان میں ہوئی۔ جس میں ضلع بہرائچ کے ادبی اور سماجی حلقے کے سرکردہ افراد اور عوام الناس کثیر تعداد میں شرکت فرمائی تھی۔
آپ کی دو صاحب زادے اور دو صاحب زادیاں ہیں ۔ سید دانش ہاشمی اور سید نیر ہاشمی (علیگ)۔ دانش بھائی سعودی کی ایک کمپنی سے وابستہ ہیں جب کہ نیر بھائی محکمہ تعلیم سے وابستہ ہیں او بہرائچ میں ہی رہتے ہیں،اثرؔ صاحب کی ایک صاحب زادی ضلع بہرائچ کے مشہور شاعر سید نذرالحسنین المعروف شاعرؔجمالی کے صاحب زادے جناب سید ظفر الحسنین ظفرؔ جمالی سے منسوب ہیں، جب کہ دوسری صاحب زادی بہرائچ کے تاریخی قصبہ نان پارہ میں مولانا سید مسیح اللہ ہاشمی کے چھوٹے صاحب زادے سید محمد سالک امین اللہ ہاشمی سے منسوب ہیں۔
نمونہ کلام
میرے چہرے پہ اُداسی کی جھلک ہے پھر بھی
میرے سینے میں محبت کے کنول کھلتے ہیں
تیرے دامن میں بہاریں ہیں تو کیا ہے حاصل
تیری آنکھوں میں تو نفرت کے دیئے جلتے ہیں
٭٭٭
ترا غم ، تری محبت ہے جبین دل کا مرکز
میرا ذوق سجدہ ریزی ابھی در بدر نہیں ہے
٭٭٭
ابھی تو جذب محبت پہ ہے یقین مجھے
ابھی نہ کھاؤ قسم لوٹ کے نہ آنے کی
٭٭٭
تغیر نام ہے انسان کی فطرت بدلنے کا
زمانہ کب بدلتا ہے زمانہ تو زمانہ ہے
٭٭٭
بے نیاز آج مرے غم سے یہ دنیا ہے اثرؔ
کل مرے بعد مرے پیار کا چرچا ہوگا
٭٭٭
میں ہوں خاموش تو خاموش ہے ذرہ ذرہ
میری آواز زمانے کی صدا ہو جیسے
جلوؤں کی تمازت سے کبھی طور جلا دیں
اور چاہیں تو شعلوں کو بھی گلزار بنا دیں
کیا زیست ہے کیا زیست کا انجام بتا دیں
بچھڑے ہوئے قطروں کو سمندر کا پتہ دیں
جلتا ہے اگر دل بھی ہمارا تو جلا دیں
نفرت کے اندھیروں کو بہر حال مٹا دیں
رہ جائے نہ دنیا میں کوئی دوست کسی کا
ہم آپ کے چہرسے اگر پردہ ہٹا دیں
آنکھوں میں اُداسی ہے تو ہونٹوں پہ خموشی
ہر شخص ہے تصویر یہاں کس کو صدا دیں
روشن ہے ہر اک گوشئہ دل جس کی ضیا سے
اس شمع فروزاں کو اثرؔ کیسے بجھا دیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |