شدید بیماروں کیلئے مرنے کا قانون
تحریر: عبدالوحید خان، برمنگھم
بطور مسلمان ہمارا ایمان اور عقیدہ ہے کہ زندگی اور موت صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور جو ذی روح اس دنیا میں آیا ہے اس نے اس فانی اور عارضی دنیا سے اپنے وقتِ مقررہ پر چلے جانا ہے لیکن مسلمانوں کے علاوہ باقی مذاہب بھی ہیں جن کے ماننے والے بہت بڑی تعداد میں ہیں اور جو زندگی و موت کو اپنی اپنی مذہبی تعلیمات یا اپنے اپنے عقیدے کی بنیاد پر دیکھتے ہیں جبکہ دنیا بھر میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو مذہب بیزار ہیں اور عملاً کسی بھی مذہب کو نہیں مانتے اور نہ ہی مذہبی بنیادوں پر موت و حیات کے فلسفے کو دیکھتے یا سمجھتے ہیں بلکہ انسانوں اور انسانوں سے متعلقہ مختلف امور بشمول موت و حیات کو محض دو اور جمع دو برابر چار کے فارمولے کے مطابق ہی دیکھتے ہیں لیکن چونکہ موت اور حیات ایسی حقیقت ہے جس سے کسی کو انکار نہیں لیکن مابعد الموت کے حوالے سے مختلف نقطہ ہائے نظر ہیں جن کو بیان کرنا یہاں مقصود نہیں-
جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے جہاں انسان کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ میڈیکل کی جدید اور اعلیٰ تعلیم کی بدولت نہ صرف مختلف بیماریوں کی تشخیص باآسانی کر سکے بلکہ مختلف قسم کے ٹیسٹوں اور ڈاکٹری معائنہ کی بدولت یہ بھی جان لیتے ہیں کہ مریض کو کونسی بیماری ہے، اس کا علاج ممکن ہے یا نہیں اور اگر علاج ناممکن ہے تو مریض کے پاس کتنی زندگی باقی رہ گئی ہے کا پتہ بھی باآسانی چلا لیا جاتا ہے- اگرچہ ایسے علاج اور دوائیں دریافت ہو چکی ہیں اور یہ ممکن ہے کہ جدید علاج اور مختلف دواؤں کے استعمال سے بیمار دوبارہ صحت مند زندگی کی طرف لوٹ سکتے ہیں لیکن حقیقتاً اس سب کے باوجود کچھ بیماریاں ایسی لاعلاج ہوتی ہیں کہ ان کا علاج ہی ممکن نہیں یا پھر کچھ بیماریاں ایسی بھی ہیں کہ جو علاج کے باوجود مریض کو دوباره صحت مند زندگی گزارنے کے قابل نہیں چھوڑتیں اور بعض بیماریوں میں تو مریض ناقابل بیان حد تک تکلیف اور اذیت کا شکار رہتا ہے جسکی وجہ سے بہت سے مریض بہت دل برداشتہ ہو جاتے ہیں اور وہ خود اپنی زندگی سے چھٹکارے کی دعائیں مانگ رہے ہوتے ہیں-
ایسے ہی مریضوں کیلئے Euthanasia یعنی سخت اذیت ناک بیماری میں مبتلا افراد کیلئے اپنی مرضی سے مرنے کا قانون جسے کچھ ممالک میں ”وقار کے ساتھ موت“ Death with dignity بھی کہتے ہیں کا بل برطانیہ کی پارلیمنٹ کے House of commons دارالعوام نے 330 ووٹوں سے ماہ نومبر 2024 میں منظور کر لیا تھا جبکہ بل کی مخالفت میں 275 ووٹ آئے تھے-
حکومتی جماعت لیبر پارٹی اور حکومت نے بل پر غیر جانبدارانہ موقف اختیار کیا ہے جسے لیبر پارٹی کی خاتون ممبر پارلیمنٹ Kim Leadbeater کم مائیکل لیڈبیٹر نے ذاتی حیثیت میں پیش کیا جس کے حوالے سے پارلیمنٹ میں موجود لیبرپارٹی کی حکومت بھی غیر جانبدار رہی اور ایوان میں موجود حزب اقتدار و حزب اختلاف دونوں اطراف نے آزادانہ طور پر بل کے حق اور مخالفت میں نہ صرف بحث میں حصہ لیا بلکہ آزادانہ طور پر اپنے ووٹ کا استعمال بھی کیا-
لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے موجودہ وزیر اعظم سر کیر سٹارمر اور چانسلر ریچل ریوز نے بل کی حمایت کی جبکہ نائب وزیراعظم انجیلا رینر، سیکرٹری خارجہ ڈیوڈ لیمی، سیکرٹری ہیلتھ ویس سٹریٹنگ اور سیکرٹری جسٹس شبانہ محمود نے بل کی مخالفت کی۔
اسی طرح کنزرویٹو پارٹی کی رہنما کیمی بیڈینوک نے بل کی مخالفت میں ووٹ دیا جبکہ کنزرویٹو پارٹی کے سابق وزیراعظم رشی سناک نے بل کے حق میں ووٹ ڈالا۔ قبل ازیں اس بل پر 5 گھنٹے ایوان میں ممبران نے بحث مباحثہ کیا اور بل کو منظور کرکے پارلیمٹری کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے جہاں پر بحث کے تناظر میں اس کی مزید نوک پلک سنوار کر بل کو ہاؤس آف لارڈز جسے دارلعمرإ بھی کہا جاتا ہے میں بھیجا جائے گا اور وہاں سے منظوری کے بعد یہ بل باقاعدہ قانون بن جائے گا-
اگر چہ بل کی مخالفت کرنے والے سمجھتے ہیں کہ اس بل کے منظور ہو جانے کے بعد باقاعدہ قانون بن جانے سے نہ صرف شدید بیمار افراد اپنے آپ کو اس معاشرے اور اپنے اہل خانہ پر ایک طرح سے بوجھ سمجھیں گے بلکہ اپنے آپ کو موت کے حوالے کرنے پر ایک طرح سے شدید دباؤ بھی محسوس کریں گے اور بعض صورتوں میں وہ نہ چاہتے ہوئے بھی یہ فیصلہ کریں گے جو ان کے ساتھ سراسر زیادتی ہو گی اسی طرح وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ بل پر دارالعوام میں بحث کے لئے مناسب وقت نہیں دیا گیا اور اس کو جلد بازی میں منظور کیا گیا ہے-
اس بل کے مطابق انگلینڈ اور ویلز میں 18 سال سے زیادہ عمر کا کوئی بھی بالغ اور عاقل انسان جو کہ کم از کم ایک سال سے جنرل پریکٹیشنر ڈاکٹر GP Doctor کے پاس رجسٹرڈ ہو اور کسی ایسی موذی مرض کا شکار ہو جس میں ماہر ڈاکٹروں نے اسے بتا دیا ہو کہ اب اس کے پاس زیادہ عرصہ تک زندہ رہنے کے چانسز نہیں ہیں، اسے زندگی کی امید نہیں ہے اور اس کے پاس صرف 6 مہینے کا وقت رہ گیا ہے تو وہ اپنی مرضی سے اپنی موت کا وقت منتخب کر سکتا ہے لیکن اس کے لئے اسے باقاعدہ ایک درخواست بقائمی ہوش و حواس دینا ہو گی جس کی منظوری دو کنسلٹنٹ ڈاکٹرز اور ھائی کورٹ کے ایک جج دیں گے اور یوں ھائی کورٹ سے درخواست کی باقاعدہ منظوری یا کورٹ آرڈر سے چودہ دن کے اندر اندر اس کی مرضی کے دن اور وقت کا انتخاب کیا جائے گا جب اسے طبعی طریقے یعنی دواؤں کے ذریعے ابدی نیند سلا دیا جائے گا-
نیدرلینڈ پہلا ملک تھا جس نے 2002 میں یہ قانون بنایا اور اس وقت دنیا کے مختلف ممالک مثلاً سپین، فرانس، نیدرلینڈ، جرمنی، سوئزرلینڈ، نیوزی لینڈ، جاپان، بلجئم، امریکہ کی کچھ ریاستوں، کینیڈا اور آسٹریلیا سمیت کئی ممالک میں لاعلاج مرض کے حامل مریضوں کو انکی مرضی سے خودکشی یا اپنی منشا کے مطابق آسان موت مرنے کی آزادی حاصل ہے اور برطانیہ میں بھی اسی سال اس قانون کی باقاعدہ منظوری سے زندگی سے تنگ تقریباً لاعلاج مریضوں کو مرنے کی آزادی حاصل ہو جائے گی-
برطانوی معاشرہ کثیرالثقافتی اور بین المذاہب معاشرہ ہے جہاں مختلف کلچر و ثقافت اور مذاہب کے لوگ آباد ہیں اس قانون کے یہاں کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہونگے اور بہت سے مذاہب کے ماننے والے جو مرضی سے مرنے کو جائز نہیں سمجھتے ان پر اس قانون کا اطلاق کیسے ہو گا اور مذہبی لوگ اس کو کس طرح سے دیکھیں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن اسلامی تعلیمات میں نہ صرف بڑے بوڑھوں کی موجودگی کو باعث خیر و برکت سمجھا جاتا ہے بلکہ ان کی خدمت اور تیمارداری کو باعث اجر و ثواب سمجھا جاتا ہے اور لوگوں کی اکثریت دل و جان سے اپنے بیمار والدین اور دیگر عزیزواقارب کی خدمت کرتے ہیں کیونکہ اسلامی نقطہ نظر سے انسان کی زندگی اللہ کی ودیعت کردہ ایک خوبصورت نعمت ہے اور یہ صرف خالقِ ارض و سما ہی کے اختیار میں ہے کہ کس انسان نے دنیا سے کب جانا ہے یہی وجہ ہے کہ انسانی جان کی حرمت بیان کی گئ ہے اور قتل و غارت و جنگ و جدل اور بے گناہ خون بہانے کو سخت ممنوع قرار دیا گیا ہے اور ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل اور ایک انسانی جان کے بچانے کو پوری انسانیت کو بچانا قرار دیا گیا ہے دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے وقتوں میں برطانیہ میں موجود مسلمان کمیونٹی بالخصوص پاکستانی کمیونٹی اس قانون کو کس طرح سے دیکھتی ہے اور یہ قانون ان پر کس طرح سے اثرانداز ہوتا ہے ویسے تو یہاں پر کئی ایسی چیزیں موجود ہیں جو ملکی مروجہ قانون کے مطابق تو جائز ہیں لیکن مسلمان کمیونٹی ان سے اپنے آپ کو بڑی حد تک دور رکھتی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہیں پر پیدا ہونے اور پروان چڑھنے والی نسل پر یہ قانون کس طرح سے اثرانداز ہو گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا فی الحال بقول شیخ ابراہیم ذوقؔ;
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
(ختم شد)
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |