معراج نبوی ﷺ کا علمی پہلو

معراج نبوی ﷺ کا علمی پہلو

Dubai Naama

یہ اسلامی ربیع الاول کا مہینہ ہے جس کی افادیت نبی پاک ﷺ کی پیدائش مبارکہ کی وجہ سے نہ صرف مسلم امہ بلکہ پوری بنی نوع انسانیت کے لئے دو چند ہے۔ نبی مکرم ﷺ کی آمد مطہرہ کا نکتہ عروج زمین سے آسمانوں پر بلائے جانے کا معراج النبوی ﷺ کا غیرمعمولی واقعہ ہے۔ بزبان عنبر وارثی:
سر لا مکاں سے طلب ہوئی،
سوئے منتہیٰ وہ چلے نبی۔ 
کوئی حد ہے ان کے عروج کی 
بلغ العلیٰ بکمالہ۔ 

نبی المعظم ﷺ کی معراج و معرفت اور علمی سربلندی کی بے شک کوئی حد نہیں جسے الفاظ و مفاہیم بیان کرنے سے قاصر ہیں، پھر بھی ایک بار مولانا غلام رسول کنگوہی رحمتہ اللہ علیہ نے نبی ﷺ اور امتی کے درمیان فرق کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ، “خدا کی قسم محمد عربی ﷺ معراج پر تشریف لے گئے اور اپنی امت کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیئے واپس تشریف لے آئے مگر میں اس علمی بلندی تک پہنچتا تو کبھی واپس نہ پلٹتا۔” دراصل ایک رسول ﷺ اور امتی کے درمیان یہی بنیادی فرق ہے کہ نبی اپنی امت کی فلاح اور نجات کے سوا اپنے لیئے ذات باری تعالٰی سے کوئی مطالبہ نہیں کرتا یعنی آخری نبی ﷺ جب امتی امتی کا ذکر بھی فرماتے تھے تو اس سے اخروی کامیابی کے علاوہ علم و ہنر کی دنیاوی اور مادی ترقی بھی مراد تھا۔

واقعہ معراج ﷺ کے سفر کو جدید سائنسی زبان میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ کوانٹم سائنس اور ٹائم ٹریول ٹیکنالوجی کی ترقی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ٹائم ٹریول روشنی کی 3لاکھ میل فی سیکنڈ یا اس سے زیادہ تیز رفتار سے سفر کرنے کا نظریہ ہے جس میں وقت تھم جاتا ہے۔

ان جدید علوم کے زریعے حضرت انسان لامحدو آسمان کے ستاروں پر ہی نہیں بلکہ دوسری کائناتوں Other Universes اور لامکاں کی دنیا The World of Nothingness پر بھی کمندیں ڈال سکتا ہے جس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ایک دفعہ علامہ محمد اقبال نے بھی فرمایا تھا کہ: 
سبق یہ ملا ہے معراج مصطفی سے مجھے،
کہ عالَم بشریت کی زَد میں ہے گردوں

مغربی دنیا کا انسان آج جس تیز رفتاری سے نینو اور میگا ٹیکنالوجی میں ترقی کر رہا ہے اس سے کچھ بعید نہیں ہے کہ وہ اس ستاروں بھری کائنات سے آگے سوئے لامکاں میں بھی قدم رکھنے میں کامیاب ہو جائے گا کیونکہ میرا کامل ایمان ہے کہ واقعہ معراج مصطفی ﷺ خواب یا رویا نہیں تھا جیسا کہ کچھ علامے اور غامدی صاحب کہتے ہیں کہ واقعہ معراج دراصل ‘رویا’ تھا اور رویا کے معنی خواب ہیں لہٰذا یہ خواب تھا جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے، سو اس رات رسول اللہ ﷺ نے کوئی جسمانی سفر نہیں کیا۔ حالانکہ ایسے مذہبی علاموں نے اس واقعہ کو رویا یا خواب کہہ کر اس کے مقام و مرتبہ کو گھٹانے کی کوشش کی ہے۔ میں کامل یقین کے ساتھ دعوی کرتا ہوں کہ واقعہ معراج محمد ﷺ ایک حقیقت ہے اور نبی پاک ﷺ اس کائنات سے آگے جسمانی طور پر تشریف لے گئے تھے۔ اگر عام خلاباز اور سائنس دان خلاوں میں سفر کر سکتے ہیں اور چاند پر قدم رکھ سکتے ہیں تو ایک نبی ﷺ خرق عادت معجزے کے ذریعے لامکاں کی دنیا میں کیوں نہیں جا سکتے ہیں؟

معراج نبوی ﷺ کا علمی پہلو

آپ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ ایک رات میں یا وقت کے کچھ حصے میں کوئی شخص آسمانوں کی سیر کر آئے تو یہ کیسے ممکن ہے؟ دینی اور مذہبی توجیہات کے مطابق یہ سفر اتنا تیز ترین ہوا کہ حضور اکرم ﷺ کچھ دنوں، مہینوں اور سالوں کے برابر طویل عرصہ تک سات آسمانوں پر رہے مگر اسی ایک ثانیہ میں یہ سفر مکمل کر کے واپس بھی تشریف لے آئے۔ عصر حاضر کی جدید تحقیقات کی روشنی میں اور خاص کر ٹیلی پورٹیشن Teleportation، جس کی وضاحت اگلے کالم میں کی جائے گی، کے زریعے عین ممکن ہے کہ انسان دور دراز یہاں تک کہ اربوں میلوں کا سفر بھی لمحوں میں طے کرنے لگے یا سرے سے سفر ہی نہ کرے اور کائنات میں مطلوبہ جگہ پر پہنچ جائے۔

جدید ٹیلی پیتھی Telepethy کے نظریات کی رو سے بھی انسان اپنے خیالات کے ذریعے دور دراز حتی کہ اربوں کلومیٹر دور تک ہر جگہ پہنچنے کی نہ صرف صلاحیت رکھتا ہے بلکہ وہ ان مقامات پر اپنے خیالات کو مجسم کر کے بغیر سفر طے کیئے بھی آنا فانا پہنچ سکتا ہے۔ 

معراج رسول اللہ ﷺ ایک معجزہ تھا اور ایک نبی ﷺ کے ہاتھوں معجزہ ہمیشہ مافوق الفطرت ہوتا ہے یعنی وہ عموما ایسی سنت ﷺ ہوتا ہے جو حاضر وقت سے پہلے یا وقت کی قید  سے آزاد ہو کر رونما ہوتا ہے جسے دیکھ کر عام فہم اور وقت کی قید کے پابند انسان حیرت زدہ ہو جاتے ہیں کیونکہ اس کا تعلق بھی غیب کی دنیا سے ہوتا ہے جس تک رسائی ہم عام انسانوں کو حاصل نہیں ہوتی۔ قرآن پاک ایمان بالغیب کی تفصیل ہے جس کا آغاز درج ذیل الفاظ سے ہوتا ہے کہ “یہ کتاب ان لوگوں کے لیئے ہے جو بِن دیکھے ایمان لاتے ہیں۔” سائنسی نظریات اور دریافتوں کا بغور مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ سائنس بھی ان چیزوں کی دریافت کرتی ہے جو پہلے انسان کے علم میں نہیں ہوتی ہیں یا “پردہ غیب” میں ہوتی ہیں۔

معراج آخرالزماں ﷺ کا ذکر سورۃ الاسراء کی پہلی آیت میں یوں آتا ہے جس کا ترجمہ ہے کہ: “پاک ہے وہ ذات جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو ہم نے بابرکت بنایا ہے، تاکہ ہم اس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔” لفظ ‘اسراء’ سے مراد آسمانوں کی بلندی کی طرف سفر طے کرنا ہے۔ اس ضمن میں اللہ کی نشانیاں دکھانے کا مفہوم و مقصود وہ دنیائیں ہیں جن کو اللہ کے آخری نبی ﷺ نے بنفس نفیس دیکھا اور اب اس کے امتیوں نے سنت کے ذریعے دیکھنا ہے جس میں مسلمان ہی نہیں غیر مسلم بھی شامل ہیں کیونکہ علم کو حاصل کرنا ہر نبی نوع انسان پر فرض ہے تاکہ وہ ایسی بلندیاں حاصل کرے جن کا مقصود انسان کی مادی اور ترقی سے ہو۔

قرآن پاک میں مومن کی نشانی یہ بتائی گئی ہے کہ وہ دنیا میں بھی کامیاب ہوتا ہے اور آخرت میں بھی کامیاب ہوتا ہے۔ اگرچہ مسلم دنیا علمی پستی کا شکار ہے مگر معراج نبوی ﷺ پر ہمارا ایمان ہے تو یہ علمی زوال بھی وقتی ہے، مسلم دنیا ایک دن سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف ضرور پلٹے گی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

علامہ اقبال اور ٹیلی پورٹیشن ٹیکنالوجی

اتوار ستمبر 22 , 2024
اگر علامہ اقبال جیسے عظیم مفکروں اور سائنس دانوں کے طبیعاتی نظریات کی صحت کو سچ مانا جائے تو حقیقت بطور حقیقت کوئی معانی
علامہ اقبال اور ٹیلی پورٹیشن ٹیکنالوجی

مزید دلچسپ تحریریں