تحقیق اور سچائی کا اثر
جاپانی لوگوں کی ترقی کا ایک راز یہ ہے کہ وہ ہر نئی چیز کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنانے سے پہلے اس پر کچھ تحقیق ضرور کرتے ہیں۔ بہت پہلے کی بات ہے کہ ہمارا ایک قبائلی دوست ثمر گل خان جاپان میں گاڑیوں کا کاروبار کرتا تھا۔ اس نے جاپانیوں کی زندگی کے بارے میں بہت سے واقعات سنائے جن میں سے ایک متاثر کن واقعہ یہ تھا کہ ان کے ایک جاپانی دوست کو اسلام کے مطالعہ کا شوق چرایا۔ اس جاپانی نے قرآن کریم پڑھا تو اس کا دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان جا کر قرآنی تعلیمات کو مسلمانوں کی عملی زندگیوں سے ظاہر ہوتے ہوئے دیکھے گا اور اس کے بعد اسلام قبول کرے گا۔ ایک دن اس جاپانی نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا اور کراچی کے ائیر پورٹ پر اترا تو اس نے دیکھا کہ پانی کی ایک سبیل سے ایک پلاسٹک کا گلاس لوہے کی باریک زنجیر سے بندھا ہوا تھا۔ اس جاپانی نے گلاس کے زنجیر سے باندھے جانے کی وجہ دریافت کی اور وہ یہ جان کر حیران ہوا کہ گلاس کے چوری ہونے کے ڈر سے اسے زنجیر سے باندھا گیا تھا۔ جاپانی نے اپنے گائیڈ سے سوال کیا کہ پاکستان مسلمانوں کا ملک نہیں ہے؟ گائیڈ نے جواب میں کہا "ہاں! پاکستان مسلمانوں کا ملک یے”۔ اس پر جاپانی نے پوچھا، ” تو کیا مسلمان قرآن نہیں پڑھتے ہیں جس میں چوری کرنے سے منع کیا گیا ہے اور چوری کرنے والے کے ہاتھ کاٹنے کی سزا ہے، تو پھر یہ گلاس یہاں زنجیر سے کیوں باندھا گیا ہے؟” گائیڈ نے اس جاپانی کے سامنے دلیلیں دے کر وضاحت کرنے کی کوشش مگر وہ جاپانی مطمئن نہیں ہوا۔ اس نے اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں پر مزید تحقیق نہیں کی اور وہ اسلام پر ایمان لائے بغیر واپس جاپان چلا گیا تھا۔
سچائی کا یہ اعجاز ہے کہ اس پر جتنی زیادہ تحقیق کی جائے اس کی محقق پر اسی قدر زیادہ دھاک بیٹھتی یے مگر ساتھ ہی سچائ اور حق کا دعوی کرنے والا اس پر خود عمل نہ کرے تو اس کا نتیجہ اس کے برعکس نکلتا ہے اور محقق دوسروں کو متاثر کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ اسی طرح اگر مسلمان خود قرآن کا عملی نمونہ نہ ہوں تو وہ غیر مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات اور عقائد سے متاثر کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ قرآن پاک جیسی عظیم الہامی کتاب رحمت و ہدایت اور فیضان کا منبہ ہے اور اس کی برکات تب دوچند ہو جاتی ہیں جب اسے اپنی عملی زندگیوں کا حصہ بنایا جاتا ہے۔کوئی انسان جتنا بھی سفاک اور ظالم ہو وہ قرآن کے نوادرات ہدایہ سے منور ہو سکتا ہے کیونکہ ایسے ہر انسان کے دل میں کسی جگہ کوئی نرم گوشہ ضرور ہوتا ہے جس کو قرآن متاثر کیئے بغیر نہیں رہ سکتا یے۔
جورم وین کلاون ہالینڈ کا مشہور سیاستدان تھا جو اپنی اسلام دشمنی میں حد سے بڑھا ہوا تھا. لیکن وہ اعلی تعلیم یافتہ تھا اور مذہبی پس منظر بھی رکھتا تھا. اسے ایک باعمل مسلمان ملا جو قرآنی تعلیمات کی عملی تفسیر تھا۔ اس مسلمان نے جورم وین کو بہت متاثر کیا۔ لیکن جورم اپنی اسلام دشمنی سے باز نہ آیا اور اسے مضبوط اور مدلل بنیادوں پر کھڑا کرنے کے لیئے اس کے دل میں ایک اسلام مخالف کتاب لکھنے کا خیال آیا۔ اس مقصد کو پانے کے لیئے اس نے اسلام کے بارے مختلف کتابوں کے مطالعہ کا فیصلہ کیا۔ کتاب کیلئے اسے آج کے مسلمان کی بجائے اسلام کا مطالعہ کرنا پڑ گیا.
جورم نے جب یہ مطالعہ اور تحقیق شروع کی تو عیسائیت اور اسلام کا تقابل اس کی بنیاد بن گیا. تثلیث اور توحید کے درمیان کی یہ تحقیق جورم کے تشنہ جوابات کیلئے اسے قرآن کے قریب لے آئی جہاں سے قرآن کا کوئی بھی تشنہ طالب علم خالی ہاتھ نہیں جاتا ہے. یوں اسلام کے خلاف لکھنے والا یہ غیر مسلم مسلمان ہو گیا کیونکہ جورم اسلام مخالف تھا، مسلمان مخالف تھا لیکن وہ منافق نہیں تھا. جس دل میں نفاق نہ ہو وہ بلاآخر روشنی پا لیتا ہے.
آپ سے نفرت یا ناپسند کرنے والا ہر شخص قابل نفرت نہیں ہوتا. اکثریت کنفیوز ہوتی ہے. یہی کنفیوژن ان کے لہجوں کو تلخ اور ان کے الفاظ میں نفرت بھر دیتا ہے. آپ کے دل میں اگر کسی کیلئے نفرت نہیں، کوئی جواز اور کوئی سبب نہیں تو آپ کسی کیلئے نفرت کے ردعمل کا جواز نہیں بن سکتے. نفرت تو کالا اندھیرا ہے جو ان کو مزید کنفیوز کر کے روشنی سے دور کر دیتا ہے.
ردعمل کے اسی کنٹرول کو صبر کہا جاتا ہے. صبر وقت کی وہ چھلنی ہے جو کھرے اور کھوٹے کو الگ الگ کر دیتی ہے. جو جانتے بوجھتے ہوئے نفرت صرف اپنی انا اور نفس کی تسکین کیلئے کرتے ہیں وہ منافق لوگ ہوتے ہیں. منافقین تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سامنے دیکھ کر بھی روشنی نہ پا سکے تو آپ اپنے ردعمل سے ان کے نفس کو تسکین کیونکر دے سکتے ہیں۔
قرآن پر ایمان ایسے اعتقاد اور یقین کا مجموعہ ہے جو سب سے پہلے دل میں پیدا ہوتا ہے جس کے بعد وہ ہر سچے مسلمان کو عمل کی تحریک دیتا ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پوری زندگی قرآن کا عملی نمونہ و تفسیر تھی۔ جب سے مسلمانوں نے قرآنی آیات و تعلیمات کو اپنی عملی زندگیوں سے جدا کیا ہے وہ درحقیقت اسلام سے دور ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وہ آج زوال کا شکار ہیں، بقول اقبال:
"وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر.”
Title Image by ekrem from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔