تبصرہ: صادق جاوید ( گڑھی اختیار خان )
عمرانیات ِ روحانی اور رجال الخیر کا مثالی پیکر…محمد یوسف وحید
علمی و ادبی مجلہ ’’ شعوروادراک‘‘ ۔ کتاب نمبر 5
(جنوری تا مارچ 2021ء)
میں شامل خصوصی گوشہ’’ سید محمد فاروق القادری ‘‘ پر تبصرہ
راز ہائے طبق، انوار ہائے فلک، شہکار ہائے عمق اور بازگشت ِلاحاصل کا قلق ایسے حقائق ادق قلبِ آدم میں حیرت کدہ، عیاں اور تجسس ہائے نہاں قدرتِ کاملہ کے وہ کرشمے ہیں جو اس خاک کے پتلے کو ونفخت فیھا من روحی کی دل آویز نویدِ باکمال سنا کر قبل از یک ثانیہ نہ صرف جمادات سے یک لخت الگ کر دیتے ہیں بلکہ علم الآدم اسماء کلھا ایسی رمزِ دلفریب کے بل بوتے پر نہ صرف مسجود ِملائیکہ قرار دیے دیتے ہیں بلکہ حیرتِ حیراں کو بھی ازخود جواب دیے دیتے ہیں۔
مفہوماً الانسان سری و انا سرلہ تو ایک عارف کو شرح حقائق کے لیے مندرجہ ذیل الفاظ کو افضل ترین شعور کی افضل ترین لڑی میں پرونے میں سہولت کار کا کردار بدرجہ احسن میسر آ جاتا ہے کہ
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہم کو عبث بدنام کیا
قارئین کرام! اس مرحلے پر ہم آپ کی خدمت میں عطائے ربّ کی اور قسمت کی یاوری کے اتصال کی پروردہ، احمد بلامیم (م) اور احد بامیم (م) کی ذرہ نوازی پاک پنجتنؑ کی اُتم غم سازی۔ہم و ہم سرمن کنت مولا کی لاج داری،کلنا محمدؐ سے قلبی ربط داری،رجال لا یحزنوں کی ادائے داس داری،مریدی لاتخف کی خبرداری،خصوصاً مشائخ شاہ آباد شریف کی پاک نعلین برداری اور اپنے مرشد ِمن کی من داری کی نسبت سے محصولہ زنبیل ِمعمور اور نطقِ مامور سے اشغال ِروحانی سے ایک حرزِیمینی و دُرِیمانی حوالہ سماعت کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
عطا کی آرزوئوں کو آسانیاں اُچھال دیتا ہے
مت دیکھو کون کہہ رہا ہے؟ بس دیکھو کیا کہہ رہا ہے
مندرجہ بالا چند سطور اُصولِ آمادگی کے تحت آپ کی توجہ آمدہ اصلاحاتِ ثلاثہ پر مبذول کرانے کو معرض ِتحریر میں لائی گئی ہیں۔ جن کو نہ صرف بہ اذن ہائے دل حرز سماعت کرنے کی اشد ضرورت ہے بلکہ یہ باور کرانا بھی مقصود ہے کہ اگر ہم سعیٔ لاحاصل کے مرتکب ہوئے تو اپنے تمام خاکم بدہن نہ صرف نصف شبی جنبش قلم اپنے تمام تر محرکات سمیت اکارت جائے گی بلکہ ہاتھ لگیں گے وہی ڈھاک کے تین پات یعنی
خدا ہی ملا نہ وصال ِصنم
ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
نہ صرف قاری ِذی حشم بلکہ یہ خادمِ قلم بھی وہی راگ الاپنے کے سوا چارہ نہ پائے گاکہ
تم اک گورکھ دھندا ہو
قارئینِ ذی وقار! قسمت، یاوری اور آپ کی عقل ِسلیم کو فیصل مانتے ہوئے اور یہ جانتے ہوئے کہ
تھی انا الحق مگر منصور کو کہنا نہ تھی
یار کی محفل سے باہر یار کی محفل کی بات
طشت ازبام کیے دیتے ہیں کہ مذکورہ بالا اصلاحات ِثلاثہ بالترتیب ہیں
خیر البشرؐ…ابو البشر… بشر
یاد رکھیں یہ اصلاحات سلسلہ در سلسلہ بلاشبہ فیوض ِاظہر وا بطن کی قاسم، قسیم و مقسوم ہیں۔
کہنے کو نعت سرورِ عالی وقار کی
منہ میں زبان چاہیے پروردگار کی
الغرض بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر، روز ِروشن کی طرح عیاں ہے کہ فضائل ہم قسم کو لذت اسریٰ سے نوازنے کے لیے مراقب حرا کرم فرمائے۔
ازحد عظیم ذاتِ کریم اور یثرب کے دُرِیتیم کے سواکسی کی ذیشانی پہ راضی نہ زلف دگر کی اسیری و ایاری کو قبولتے ہیں۔ نہ چکا چوند عالم درخور ِاعتنا مانتے ہیں بلکہ قلب ِمضطرب کی کائناتی ہمنوائی میں زلف و اللیل کے اتم دلکش پیچوں کا قصیدہ فقط اس انداز میں سنانا جانتے ہیں کہ
واحسن منک ولم طرقط عینی
واجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبرء امن کل عیب
کانک قد خلقت ماتشاء
معراج ِکمال پر فائز اس قطع کے بہت سے منظوم تراجم بھی فدایانِ جمال کے سہولت کار ثابت ہو چکے ہیں۔ ہم شاہد فاروق کا ترجمہ آپ کی نذر کرتے ہوئے تقدیم الی الخیر کی سعادت حاصل کیے چاہتے ہیں۔
نہ دیکھا میری آنکھوں نے کوئی تم سا حسیں جاناں
صدف نے تم سا اُگلا ہی نہیں دُرِثمیں جاناں
تمہیں پیدا کیا ہر عیب سے یوں پاک فرما کر
کہ جیسے اپنی مرضی سے بنے ہو نازنیں جاناں
٭٭٭
وجہ وجودِ کائنات ، محبوب ذات فی ذات
اصلِ حیات و کل حیات مشکل کشائے ہر جہات
٭٭٭
نگینے بکھرتے رہے جس کے کل پرتو زمانی و مکانی
حدود و قیود سے بے نیاز مسابقت کے خواہاں ازلی رہے
٭٭٭
عرش است کمی پائے ز ایوان محمدؐ
جبریل امیں خادم و دربان محمدؐ
(سعدیؒ)
٭٭٭
چوں سوئے من گذر آری ، منِ مسکیں زِ ناداری
فدائے نقشِ نعلینت کنم جاں یا رسول اللہ
(حضرت جامیؒ)
٭٭٭
اتھاں میں مٹھڑی نت جاں بلب
اُتھاں خوش وسدا وِچ ملک عرب
(خواجہ غلام فریدؒ)
جس دن سے سے تیرے کوچے میں سویا ہوں خاک پر
میری ہے گویا عرش پہ بستر لگی ہوئی
تنہا فرید کو نہیں روح الامیں کو بھی
ہے خاک تیرے تلووں کی منہ پر لگی ہوئی
(خواجہ غلام فریدؒ)
ماسلطنت بکوچۂ جاناں فروختیم
مور حقیر راہ سلیمانی فروختیم
(خواجہ محمد یار فریدیؒ)
قسمت جو یاوری کرے بن جاؤں گردِ راہ
پھر قطب چومتا چلوں ان کی رکاب کو
(خواجہ قطب الدین فریدی )
مندرجہ بالا سطور میں ہم نے کشش ِعکس ِجمالِ حق کی جھلک پیش کرنے کی سعیٔ سعادت فزا کی ہے۔
ورنہ الحمد للہ اتنی آشنائی ہے کہ
ذکرِ یار آخر نہ شد شب آخر شد
بلکہ ہمارا وجدان کہتا ہے کہ
عمر ہا آخر شد
عزیزان ِذی وقار!مذکورہ اصطلاحی مثلث کے اشہبِ خیال کو مہمیز کرنے سے پہلے آپ کو حکم روحانیت کا یہ نکتہ آپ کو یاد دلانا قریبِ قلب معلوم ہوا ہے کہ
چشم اظہر کے لیے تو اس عالم بے ثبات کی
چکا چوند پادشاہی اور بے وقعت کروفر کو
درخور اعتنا لانے کی ہزاروں سبیلیں نکل سکتی ہیں۔جس کے تمثیلی و عارضی خاکے کا منہ حضرتِ غالبؒ کچھ اس طرح منہ چڑانے میں کامیاب رہے ہیں اور خوب رہے ہیں کہ
بازیچۂ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے
ہاں مگر ایسا نہیں ہے کہ اس کا کوئی مثبت پہلوسرے سے ہے ہی نہیں بلکہ ہے اور یقینی ہے۔مظفر وارثی نے یہ فرما کر فلسفہ اور روحانیتِ اتصال کی بہترین صورت میں داغ بیل ڈال دی ہے۔
کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے وہی خدا ہے
جو دن کو رات اور رات کو دن بنا رہا ہے وہی خدا ہے
حُبِ حضور تو شرطِ ایمانی ٹھہری آلِ اطہارؑ کے صدقے میں اللہ والوں سے قلبی لگائو ،مرشدِ کریم کی نظرِ ِکرم کا خصوصی تحفہ ملا ہے۔ تحدیثِ نعمت کے فریضۂ برتریں کی ادائیگی کے تقاضے نبھاتے ہوئے آپ کے سامنے حرز جان بنانے کے لائق الفاظ آپ کی نذر کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ اس آگاہی کے ساتھ کہ
جے یار فرید قبول کرے سرکار وی توں سلطان وی توں
نتاں کہتر، کمتر، احقر، ادنیٰ لاشے لا امکان وی توں
ایک وقت میں ساری دنیا میں غوث۔ ایک ،قطب ۔چار،اوتار۔چھ،ابدال ۔چالیس اور اولیا ئے کرام تین صد رہتے ہیں۔دنیا کا سارا انتظام و انصرام ان ہی کے حوالے رہتا ہے۔ جن کا منشورکل ان صلا تی و نسکی و محیای ومماتی للہ رب العالمین ہوتا ہے جس سے وہ نہ ذرا برابر ہٹتے ہیں، نہ گھٹتے ہیں۔یہی وہ نفوسِ قدسیہ ہیں خیر ِبشر کے معنوی تسلسل ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ وہی نورانی تسلسل جس کے ڈانڈے صفہ کے نظام ِفیض رساں سے ملتے ہیں جس کے حصار میں چہار دانگ عالم کی صدری، قولی و عملی تربیت ایسے چراغ روشن ہوئے جن کی ایمان افروز کرنیں عرب و عجم کے ساتھ ساتھ دنیا کے ہر کونے میں آباد افراد ِعالم کے سینوں کو لگاتار منور کرتی چلی گئیں۔ جو قرنوں سے جہالت کی شب تیرگی میں گم کرتا رہااور اپنی مقسومی زبوں حالی کا نوحہ یوں پڑھ چکے تھے۔
چرخ پر بیٹھ رہا جان بچا کر عیسیٰ
ہو سکا جب نہ مداوا ترے بیماروں کا
ابتداء میں متذکرہ عمرانی و روحانی مثلث کے کردارِ ثانی ابو البشر کی جملہ کہانی ۔اثبات اور نفی ،خیر اور شر الغرض۔ادب و آداب ،تسلیم و رضا، حاصل و لاحاصل سے عبارت اس انقلابی و اصلاحی قصے میں وجود ِشہر اور احساس ِزیاں کے ذریعے اصلاح ِاحوال کا درس موجود ہے۔ جس میں پچھلی قومیں اکثر ناکام رہیں لیکن ملت ِمسلم کی باری آئی تو اس شعر کے مصداق کایا پلٹ ہو گئی کہ
جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا جو نکتہ وروں سے حل نہ ہوا
وہ راز اک کملی والے نے بتلا دیا چند اشاروں میں
ازل سے ابد تک میں سے وہ تریسٹھ (63)برس جنہیں نبی اکرم ؐ کی نسبت سے بہترین دور قرار دیا گیا ہے۔ حیات ِمبارکہ کی ظاہری تکمیل کے بعد نبوت کا سلسلہ رک گیا لیکن اصلاح ِ احوال کا مشن آئمہ، اصحاب عظام سے ہوتا ہوا اولیائے کرام اور صوفیا حضرات تک پہنچا۔جسے ستاروں سے منور و مزین کہکشاں کہنا زیادہ بہتر ہو گا ۔جس کے نورانی فیض سے ارض خدا کا چپہ چپہ ضیا بار ہوا۔
عرب ،عجم، ہند ،سندھ ،پورب، پچھم، اتر ،دکن میں جہاں جہاں نمود پائی وہ مقام اللہ والوں کے قدموں کی برکت سے عیون نور قرار پائے اور وہ برگزیدہ ہستیاں روحانی طبیب ثابت ہوئیں جنہوں نے ابوالبشر کے تسلسل و من منشرہ کے پروردہ ،قلبِ آزردہ کے غم اندوہ کو دستِ شفقت اور نظرِ کرم کی اثر آفرینی سے پل بھر میں کافور کر دیا۔ بارانِ نور کے یہ سلاسل صوفیا سے موسوم ہوئے اور دوائے دل بانٹتے ہوئے وہ طبیب کے اسمائے گرامی سے موسوم ہوئے۔
سلسلہ عالیہ قادریہ بلاشبہ منفرد واضح اور قانع مقام و منشور رکھتا ہے۔ جس میں اصلاحِ باطن سمیت مجموعی و اخروی فلاحِ انسانیت کو فوقیت حاصل ہے ۔جس میں اعمال و اشغال تزکیہ کے اطوار کڑے ضرور ہیں مگر قرب و قبول کی خاصیت نہایت واضع اوربدرجہ اتم رکھتے ۔جس میں مریدی لاتخف کا مژدہ ٔجاں فزاکی افادیت موج سل سبیل سے کسی طور کم نہیں ہے۔
عظیم روحانی آبشار کے ایک دھارے نے ضلع رحیم یار خان تحصیل خانپور کے مغرب میں تقریباً پندرہ کلو میٹر پر موجود تاریخی مگر عرصہ دراز سے سامراجی قوتوں کے نرغے میں خود غرضی کی عفریت عفریتی پاٹوں میں پسے قصبے گڑھی اختیار خان سے اٹھتی صدائے العطش کو شرف ِقبولت بخشا۔
دل کی دنیا کو حسن اخلاق صدری قوت اور وصفِ کرم کی معجزہ نمائی سے بدل کر رکھ دینے اور چشمِ عنایت کی وردانی تاثیر سے قلوب و اذہان کی کایا پلٹ ماہر اعظم اس وردانی و روحانی دھارے کومشائخ شاہ آباد شریف کے نامِ نامی اسم ِگرامی سے جانتی ہے۔ شاہ آباد شریف گڑھی اختیار خان سے مغربی سمت تقریباً ڈیڑھ کلو میٹر پر موجود اللہ والوں کی بستی کا نام ہے جس میں اس شعر کو پیکر تمثیل و تسلیم میں ڈھالنے میں اپنے حصے کا کردار نہایت رمزیت، دلیری اور خوش اسلوبی سے ادا کیا کہ
نگاہِ ولی میں وہ تاثیر رکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی
راقم الحروف کا وجدان کہتا ہے گڑھی اختیار خان روحانی طور پر کبھی بھی بے فیض نہیں رہا ہو گا اس کا نام ہی نہایت خدا رسیدہ اور اپنے وقت کے الٰہی طبقے کے سرخیل حاجی اختیار خاںؒ سے منسوب ہے جو ظاہراً ملت ِعباسیہ مگر باطناً ملت لاصفیا کے مشاہیر و سفیران میں نہایت چمکتے دمکتے ستارے کی مانند ہیں۔
گڑھی اختیار خان یونین کونسل میں سلسلہ سہروردیہ کے مشہور عالم بزرگ حضرت شیخ عبد الستارؒ کا مزار مبارک بھی صدیوں سے اخفا و اظہر حوالوں سے سکون ِقلب کے متلاشیوں کا مقام مطلوبہ بنا ہوا ہے۔ گیارہ شہید ِولیٔ کامل حضرت شاہ محمد فقیرؒ کے مزار مبارک سمیت کئی دیگر مقدس مزارات بھی اسی کی حدود میں روحانی مطب کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
حاجی اختیار خانؒ کا مزار بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ساتھ ہی بلبلِ باغ ِفرید حضرت خواجہ محمد یار فریدیؒ ایسے عاشقِ رسول ؐ،خطیب ِمحبت ،صوفی شاعر اور حضرت خواجہ غلام نازک کریم کے مزارات مبارک یاد الٰہی کے مسلم مرکز مانے جاتے ہیں جسے حضرت خواجہ غلام قطب الدین فریدی کی دور اندیشی، محنت نے تصوف کا عالمی مرکز منوانے میں اپنا کردار خوب نبھایا ہے۔
مگر علم و فضل ،تفریر و تحریر، رشد و ہدی ،درس و تدریس، افکار و اشغال کو قلبی فتوحات کا ذریعہ بنا کر تسخیرِ قلوب کے جو کرشمے شہرہ آفاقی کے جو کارنامے مشائخ شاہ آباد کی فہم و فراست، باطنی توانائی ،کامل وجاہت اور حسنِ اخلاق نے نہ صرف مقامی و ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر کردار سازی و نیک نامی کے جھنڈے گاڑھے ہیں وہ رہتی دنیا تک خراج تبریک وُصولتے رہیں گے۔ دوائے دل کے نسخہ ہائے کیمیا کے موجود ہ محافظ اس طائفہ روحانیہ نے دین ِمتین کی خدمت اور ساغر صدیقی کے قلم سے تڑپتی روحوں کی ترجمانی میں اٹھی ہوئی اس قرینِ حقائق صدائے دلخراش کی داد رسی کے لیے ازعرب سوئے عجم رختِ سفر باندھا کہ
پلا ساقیا کوئی جام غزالی
بھٹکتی بصیرت لہو رو رہی ہے
اس فیض رساں بابرکت سفر میں نمایاں سنگ ہائے میل بخارا، اچ شریف، گجرات، لاہور ،ملتان، ہندوستان اور شکار پور میں گڑھی اختیار خان سے قبل ڈیرہ گبولہ بھی قابل ذکر ہے۔
قسام ِدولتِ درد، شرارۂ عشق کے اشارہ کناں اور طبیبان ِروحانی سے سجی اس کہکشاں کے تابندہ ستاروں کے اسمائے گرامی ہیں۔
جنید زماں، سید العارفین حضرت مخدوم سید جلال الدین سرخ پوش بخاری ؒ، آپؒ کے لخت ِجگر حضرت مخدوم سید احمد کبیر بخاریؒ، ان کے فرزند ارجمند حضرت مخدوم سید جلال جہانیاں جہاں گشت اور ان کے فرزند ثانی حضرت مخدوم سید صدر الدین راجو قتالؒ۔حضرت سید محی الدین عبید القادریؒ، آپ ؒ کے فرزند قدوۃ الاولیاء حضرت سید جعفر شاہ بخاری سہروردی قادری جو مشائخ شاہ آباد شریف میں فرد ِاوّل واعظم ہیں۔ آپؒ کے بعد آپؒ کے فرزندِ ارجمند نامور عالم دین برہان الدین حضرت سید سردار احمد القادریؒ آپ کے فرزندِ ارجمند ،عربی ،فارسی اور اُردوکے عظیم صوفی شاعر، جس کے روحانی عطاروں میں صوفی شاعر اور عالمِ دین حضرت پیر الحاج سیّد محمد سیف الدین مغفور القادری ؒ ، حضرت پیر سیّد بہار علی شاہ القادری ، حضرت علامہ پیر سیّد مظفر علی شاہ القادری کے ساتھ ساتھ ایک ایسی علمی روحانی و ادبی شخصیت جو کسی تعارف کی محتاج نہیں بلکہ ایک لحاظ سے یہ پورا خانوادہ ہمیشہ کے لیے اسی شخصیت کے نام اور کام سے پہچانا جائے گا ۔ اس کارِ سعادت میں پیش پیش ہیں ۔ مری مراد آبروئے قلم ، موقر المحققین اور جانبازِ سادات حضرت علامہ پیر سیّد محمد فارو ق القادری ؒ ہیں ۔
نیز خاندانِ کوریجہ کے مقبول بارگاہ بزرگوں کا مسکن ہونے کا شرف بھی گڑھی اختیا رخان کو حاصل رہا ہے ۔ حضرت خواجہ دُر محمد کوریجہ جنہیں عوام ’’ حضرت دُر پاک ؒ ‘‘ کے نامِ نامی سے یاد کر تی ہے ۔ حضرت خواجہ گُل محمد سئیں المعروف بدھن سئیں کوریجہ کے علاوہ ہم نے بزرگوں سے دیگر بہت سے بزرگوں کے دم قدم سے مقبولانِ بارگاہ اَولیائے کرام کے بارے میں سُنا ہے جن کے دم قدم سے رونما ہونے والے فیو ض و برکات کے تذکرے زبانِ زدِ عام ملتے ہیں ۔ حضرت خواجہ دُر محمد کوریجہ ، حضرت خواجہ محمد یار فریدی ، حضرت خواجہ غلام نازک کریم نے جس فیضان کرم کی ترسیل کا حق اَدا کیا ہے ۔ اس کی تاریخ بہت قدیم ہے جب کہ بہارِ چشت کے فاضل مصنف نے حضرت خواجہ محمد یار فریدی ؒ کی آمد سے پہلے اس سرزمین کو بے آب و گیاہ کیوں لکھا ؟ جواب تو شاید و باید مگر بہت سے سوال جنم لینے کو بے تاب نظر آتے ہیں ۔ بہر حال گڑھی اختیار خان کی فضائیں جن شخصیات کے احسانات کو اُتارنا تو درکنا شمار کرنا بھی ناممکن پائیں گی ان ہی میں سے ایک سیّد محمد فاروق القادری ؒ بھی ہے اور نام بھی کافی ہے ۔
آپ نے علوم کو حق الیقین سے ہمکنار کر کے تحقیق کی کسوٹی پر پَرکھنا شروع کیا تو محققینِ عالم نے اپنی راہیں متعین کرنے کا جواز تلاش لیا ۔تقر یر و تحریر کا میدان ہو یا فکری مباحث کی محافل آپ کی رائے ہمیشہ حکم کا درجہ رکھتی تھی ۔ آپ نہایت حلیم الطبع مگر جلالی کیفیات سے وقار ِسادات کے امین نظر آتے تھے ۔ باتوں سے دل موہ لینے میں بھی ماہر اور ضروری تبخر میں بھی تیزگا م رہتے تھے ۔
مگر تبلیغی مقاصد کے لیے بندگانِ خدا کو کشش کر نے میں بھی لاثانی صلاحیتیوں کے مالک تھے ۔ ہاں مگرتصرف ِروحانی سے سیکنڈ سے بھی قبل فیصلہ فرمالیتے تھے کہ جوہرِ مطلوبہ سے محروم اَفراد جاتے نہ دِکھتے تھے ۔
سیرت و اَخلاق آپ کا من پسند موضوع رہا ہے اور مقالہ نویسی میں جو مقام آپ نے حاصل کیا اس کو بڑے بڑے فکری ڈاکٹر بھی ترستے رَہ جاتے ہیں ۔
اس کریم گھرانے سے محبت کرنے والوں کی بے شمار تعداد میں راقم الحروف کے دادا دادی ، نانا نانی ، والد اور والدہ کی والہانہ محبت بھی دیدنی رہی ہے اور قابلِ ذکر ہے یہ ناچیز گلزارِ محمد ی کے اس وردہ یگانہ کی اُلفت کا اَسیر بھی ہے اور شرف ِ ارادت سے امیر بھی ہے ۔
سادگی میں کمال رکھنے والے اس فخرِ سادات مرشدِ کریم کی عوام الناس سے مثالی شفقت دیکھ کر اندازہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ مردِ درویش فتوحاتِ مکیہ ایسی اَدق علمی سلطنت کو طشتِ ازبام کرنے پہ تلے گا تو شارحینِ اَسلاف کو ورطہ ٔ حیرت میں ڈال دے گا ۔ ملک عزیزکی زبوں حالی کو ’’ اَصل مسئلہ معاشی ہے ‘‘ کا نادر نمونہ دان کر دے گا ۔
معرفت کے تار چھیڑے گا تو انفاس العارفین کو دامانِ عافیت نصیب ہو جائے گا ۔
چمن میں دیدہ ور کا تصور کرے گا تو ایسے علمی جواہر پارے قرطا س و قلم کی جادوگری کے پلڑے میں ڈال دے گا کہ جس پر مقامی ملکی اور بین الاقوامی اداروں کی ھل من مزید کو قرار ملے گا حتیٰ کہ جامعتہ الازہر مِصر کو بھی آپ کی کتابوں کو شامل نصاب کر تے ہوئے فخر و انبساط کا اَحسا س ہوگا ۔ عالمی شہر ت یا فتہ صوفی اسکالر حضرت خواجہ غلام قطب الدین فریدی فرماتے ہیں کہ میں جب جامعتہ الازہر مِصر میں لیکچر کی غرض سے پہنچا تو دل میں ایک مُسرّت محسوس کر رہا تھا اور یہ مسّرت اس وقت مزید بڑھ گئی جب سیّد محمد فاروقؒ القادری کی کتابیں اور عقید ت مند مجھ سے پہلے وہاں موجود ملے اور میری توقیر میں بھی اضافہ ہوا کہ میں آپ کے قصّبے سے آیا تھا ۔
حضرت پیر علامہ سید محمد فاروق القادریؒ کی قلمی و قلبی فتوحات نے علمی، ادبی، روحانی، معاشی حوالے سے نہ صرف ناقابل ِفراموش تاریخ رقم کر دی ہے بلکہ روحانی و عصری تعلیم کے تمام تر تقاضے نبھاتے ہوئے ایک عظیم الشان ادارہ تعلیماتِ اسلامیہ اور منظم ترین خانقاہی نظام کے ساتھ ساتھ اپنی دُور اندیشی کو مزید دُور ِرس کرنے کے لیے نہ صرف رسم باقی باللہ گری ادا کر دی بلکہ راقم الحروف کے ایک قلبی واردات کے نتیجے میں برآمد ہونے کا اعزاز بخش دیا۔ یہ الفاظ حضرت خواجہ محمد یار فریدی کمپلیکس میں تصوف کے حوالے سے ایک عظیم الشان محفل میں اس ناچیز کی تقریر کے دوران ملنے والی پرچی کے جواب میں بے اختیار برآمد ہوئے تھے۔
جی صاحب تاریخ میں کن ابی ذر اور باقی باللہ بنانے کی رسم بھی محفوظ ہے۔مرے مرشد کریم (حضرت سید محمد فاروقؒ القادری) کے پاس یہ قوت اختیار ہے جب بھی چاہیں گے یہ حق استعمال فرما لیں گے۔الحمد للہ تینوں مرشد زاد ِامین امانت اور فخر اسلاف ہیں مگر اس ناچیز کے وجدان کے مطابق مرشد کریم نے حضرت پیر سید صبغت اللہ سہروردی پر رسم باقی باللہ گری کا نہایت کامیاب تجربہ فرمایا ہے۔
کسے کہ حسن رخِ دوست در نظر دارد
محقق است کہ او حاصلِ عمر دارد
متذکرہ بالا روحانی ہستیوں سے حسبی ،نسبی، قلبی و کسبی ربط کا شرف ِاعزاز پانے والوں کو رجال الخیر کہا جاتا ہے ۔جن کا ایک مثالی پیکر محمدیوسف وحید ہے جو شعور و ادراک کی شمع جلائے اس کی کرنوں کی ترسیل کے لیے نہ صرف مقام ِمطلوبہ تلاشنے بلکہ دیپ سے دیپ جلانے میں ہمہ وقت مصروف نظر آتا ہے۔
اصلاح ِاحوال کے مشن میں آقائے نامدارؐکے نعلین مبارک کا لہو سے بھر جانا اس سفر کی کٹھنائیوں کی بہترین مثال ہے اور دیگر بھی کئی ایک ہیں مگر یہ تو آپ بہتر جانتے ہیں کہ یہ دنیا ایک اسٹیج ہے اور ہر کوئی ایک کردار ہے۔عالمِ کردار کا یوسف کب اور کیونکر لیلیٰ ٔ ادب کا قیس بن گیا اس راز کو ہم بعد میں طشت از بام کریں گے تاکہ اس میدان میں نوواردوں کو ایک سچے ا ور کھرے رول ماڈل سے آشنا کر دیں ۔اس سے قبل تمام علمی، ادبی اور روحانی برادری کی ترجمانی کرتے ہوئے اس یوسف ِکردار اور قیسِ ادب کی خدمت میں نہایت خلوص کے ساتھ ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں کہ جس نے حضرت قبلہ علامہ پیر سید محمد فاروق القادریؒ ایسی عبقریٔ زماں شخصیت کی علمی، ادبی اور روحانی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کا نہ صرف احسن فیصلہ کیا بلکہ نہایت جانفشانی سے موسم کی شدت، سورج کی تلخی اور خصوصاً کرونا ایسی آسمانی آفت کے ہوتے کہ جس نے نہ صرف دور ِحاضر کی سب سے بڑی حقیقت قحط الرجال کو نہ صرف قحط العوام میں بدل کر رکھ دیا ہے بلکہ ہماری سماجی و ثقافتی سرگرمیوں کے سارے حسن کو ماند کر کے رکھ دیا ہے۔ الغرض گونا گو ںمشکلات کا سامنا کیا اور ادب کی خدمت کو فوقیت دی۔ اللہ کریم نے بھی اپنے پیاروں کے طفیل محمد یوسف وحید کو ہزاروں پر فوقیت دی اور وہ اس طرح کے ایک ولی کامل کے تذکرے سے مزین خصوصی گوشے کو اپنے اندر سموئے ہوئے ’’شعور و ادراک‘‘ کے اس خزینے کانمبر ہے 5 اورآپ جانتے ہیں جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیں کہ اصل میں کائنات کا انتظام و انصرام روحانی ہستیوں کے دم قدم سے چل رہا ہے تو یقینا اس فخر ِسادات کے تذکرے اور اس کے ذریعے ترسیلِ پیغام کے لیے سہولت کاری کی توفیق پر محمدیوسف وحید کو انعام و فیض ملے گا کیونکہ
جہانِ فیض میں حاصل اسی کو پھول ہر دم ہیں
کہ بندے جو بھی خدمت میں سراپا دھول ہر دم ہیں
بہرطور یہ ایک مشکل امر تھا جو اللہ کے کرم اللہ والوں کے تصرف اور خلوص و جانفشانی سے نہ صرف مشرف بہ تکمیل ہوا بلکہ ایک عظیم ادبی و روحانی پروجیکٹ کی داغ بیل بھی ڈال گیا جس کی نوید اسی گوشے کے دوسرے مضمون ’’صحبت ِیار آخرشد‘‘ میں حضرت سید صبغت اللہ سہروردی سنا چکے ہیں۔گوشے کے حسن ِترتیب اور افادیت پر بات کی جائے تو نہایت خوشگوار مسرت کا احساس ہوتا ہے جس میں اوّلیت اس حقیقت کو ہے جس میں دُھن کے پکے محمد یوسف وحید نے نہ صرف اس نعرہ ٔمستانہ کو حقیقت میں ڈھال دیا کہ
رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی
بلکہ کچھ ایسی ادبی خدمت بھی کر لی جو ناممکنات میں شامل رہی تھی۔ اس کا ایک پہلو نئے لکھاریوں کی تلاش ،ملاقات اور حاصلات کا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے کر لینا ہے۔ یقینا اس گوشے میں بڑے جلیل القدر، رجال الخیر کے قلمی کارنامے موجود ہیں مگر پروفیسر سراج احمد قریشی صاحب،استاد محترم جناب فیاض احمد صاحب، استاد محترم جناب محمد رمضان صاحب اور راقم الحروف کے دیرینہ دوست جناب محمد مزمل خان صاحب سے تحریریں لکھوا لینا اس قیسِ ادب کا ہی امتیاز ہے کیونکہ یہ حضرت اپنی پیشہ ورانہ مصروفیت کے سبب وقت ہی نہیں نکال پاتے ہیں۔ جس تک قارئین کی رسائی محمد یوسف وحید کے ذریعے ہوئی ہے۔ یہی بنیاد بنے گا اور یہ صدقہ جاریہ جاری رہے گا اور وقت کے مؤرخ کو ماننا پڑے گا کہ
جب کبھی راستہ حالات کا دھندلایا ہے
کام آئی ہے زمانے میں ضیائے درویش
مجموعی طور پر علمی و ادبی مجلہ ’’شعور و ادراک‘‘ کا سلسلہ اشاعت نمبر 5‘دستور سے بڑھ کر بھانت بھانت کے سبق آموز ادبی، علمی اور روحانی نگینوں سے سجی ہے ۔جو برکت ہے عدد پانچ کی جس کی روحانی نسبتوں اور برکتوں سے انکار گویا کتاب ناممکنات کا سرنامہ ہے۔اہل ِفن حضرات خوب جانتے ہیں کہ غزل کی ردیف میں شاعر کے اندر سے انسان کا ایک روپ کارفرما نظر آ رہا ہوتا ہے جو کہ اس کی حساسیت اور قوت ِمشاہدہ کی بدولت سیرانی جہاں بن کر اپنے باطنی سفر کی داستانوں کے الگ الگ عنوانات کو الگ الگ ردیف میں پروتا جاتا ہے مثلاً کسی غزل کی ردیف دل ہے تو ہمیں یہ سمجھنے میں بالکل دیر نہ لگے گی کہ اس میں شاعر نے دل والوں کی بستی کے احوال و آثار کی کہانی سنائی ہے جس کا ہر شعر دل کی مخصوص واردات کے استخضارکا بہترین نمونہ لیے ہوئے ہے۔ بعینہ ایک نثر نویس حسنِ ترتیب میں عنوان بندی سے ردیف والا ہی کام لیتا ہے۔ ایک مہا عنوان کے تحت اس سے متعلق عنوانات پھر ہر عنوان پر مختلف مضامین ،مصنفین کے حفظ ومراتب کے تقاضوں کو نبھانے کی پوری کوشش کرتا ہے اور اگر وہ لیلیٰٔ ادب کے قیس بے مثال محمد یوسف وحید کی طرح تسخیر ِقلوب کا منتظر پڑھ چکا ہوتا ہے جس کی تاثیر فہرست پر پڑی نظروں کو اس جہانِ خاص کی سیر کروا کے ہی دم لیتی ہے جس سے آج تک وہ گزرا تو ہوتا ہے مگر دیکھ نہیں پایا ہوتا۔
راہ گزر کے چراغ ہیں ہم لوگ
آپ اپنا سراغ ہیں ہم لوگ
ہم نے اپنے آج کے ممدوح محترم قیسِ ادب مدیر مجلہ’’ شعوروادراک‘‘ محمد یوسف وحید کی ادبی فتوحات پر تمام تر محبان ِادب کی ترجمانی کرتے ہوئے کھلے دل سے ہدیہ ٔ تبریک پیش کرنے اور خود چنے کام کی کٹھنائیوں کے سامنے عرق ریزی، جانفشانی، خود فراموشی اور اپنے آپ کو وقف پراپرٹی سمجھ لینے والی اس کی ادائوں کو خراج تحسین پیش کرنے کی مقدور بھر جسارت کا تانا بانا ہی ’’خیر‘‘ کے تارِ لازوال سے بُنا ہے‘ اخلاص کو امام مان کر حسنِ عمل دمکتے موتیوں میںپروتے گئے ہیں۔
ہم الرجال الخیر کی تسبیح کس حد تک مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے اس کا فیصلہ آپ پر ہے۔آپ کی سہولت کے لیے کتاب نمبر 5میں ’’شعور و ادراک‘‘ کا ایک پرتو دکھائے دیتے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ فلاح انس واجب کے کتنے پہلو کتنی نفاست سے پروئے گئے ہیں اور کتنا وسیع تر علمی، ادبی و روحانی معلومات کو ابلاغ کی سہولت دان ہوتی چلی جا رہی ہے۔ القصہ محمد یوسف وحید الرجال الخیر میں اپنا مقام بنا چکے ہیں۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
حسن ترتیب خصوصی گوشہ سید محمد فاروق القادریؒ
فہرست …گوشہ سیّد محمد فاروق القادریؒ
نمبر
نام مضمون
نام مصنف
صفحہ
۱
سیّد محمد فاروق القادری کی علمی و ادبی جہتیں
محمد یوسف وحید (مدیر)
284
۲
صُحبت ِ یار آخرِ شُد
سیّد صبغت اللہ سہروردی
286
۳
آبروئے علم و قلم…سید محمد فاروق القادری
پروفیسر عون محمد سعیدی مصطفوی
289
۴
تاریخ ساز شخصیت … سیّد محمد فاروق القادری ؒ
ڈاکٹر عمر حیات الحسینی بوسن
292
۵
علامہ سیّد فاروق القادری…شخصیت و خدمات
سید زاہد نعیمی
301
۶
سرنگوں ہیں پرچم اَدب کے جہاں میں
صادق جاوید
311
۷
گوہرِ باکمال …سیّد محمد فارو ق القادری ؒ
معظمہ شمس تبریز
318
۸
مصنف و مترجم…سید فاروق القادری
اکمل شاہد کنگ
320
۹
زینتِ قرطاس و قلم …سیّد محمد فاروق القادریؒ
علامہ افتخار الحسن رضوی
322
۱۰
صاحب ِ علم شخصیت…سید فاروق القادریؒ
علامہ اسلم طاہر القادری
323
۱۱
محقق و مترجم ، شاعر و ادیب سیّد محمد فاروق القادری ؒ
انٹرویو : ڈاکٹر نذر خلیق
326
۱۲
عالم دین، محقق، شاعر…سید محمد فاروق القادری
پروفیسر رئیس نذیر احمد خان
337
۱۳
محقق العصرسیّد محمد فاروق القادری،حیات و خدمات
مرزا حبیب الرحمن
340
۱۴
تعزیت نامہ
محمد فیضان رضارضوی علیمی
344
۱۵
نامور محقق و مترجم ….سیّد محمد فارو ق القادری
سعدیہ وحید
345
۱۶
آہ !…سید محمد فاروق القادری
علامہ محمد حبیب احمد سعیدی
348
۱۷
سیّد محمد فاروق القادری کی شخصیت
صفدر بلوچ
350
۱۸
سیّد محمد فاروق القادریؒ ….یادیں اور باتیں
سردار محمد اکرم بٹر
352
۱۹
طلوع
سید ارشاد احمد عارف
354
۲۰
سید محمد فاروق القادری …جلیل القدر شخصیت
سراج احمد قریشی
356
۲۱
سیّد محمد فاروق شاہ القادری کی تصنیفات
نذیر احمد بزمی
362
۲۲
رضائے الہٰی سے دارِ بقا کو …
فیاض احمد
365
۲۳
مدبّر ، مفکر اور انسان دوست شخصیت
محمد مزمل خان
366
۲۴
آسمانِ ادب و روحانیت کا شمس و قمر
محمد رمضان
367
۲۵
دبستانِ علم و ادب…سید محمد فاروق القادری
جام ایم ڈی گانگا
369
۲۶
قطعہ ٔ تاریخ وفات ( فارسی )
سید شاکر القادری
369
۲۷
قطعہ ٔ تاریخ ِ وفات
سید عارف محمود مہجورؔ رضوی
370
۲۸
عبقری ٔ زماں شخصیت ۔ علامہ سیّد محمد فاروق القادریؒ
سید عارف محمود مہجورؔ رضوی
372
۲۹
منقبت بحضورمرشدِ کریم سیّد محمد فاروق القادری ؒ
صادق جاوید
373
۳۰
سید محمد فاروق القادریؒ دی یاد وچ
شبیر ابنِ بے رنگ
375
۳۱
عظیم مبلغ …سیّد محمد فاروق القادریؒ
سعدیہ وحید
377
۳۲
منفرد طرزِ تحریر کے مالک …سیّد مغفور القادری
سعدیہ وحید
379
۳۳
سیّد محمد فاروق القادریؒ …صاحبِ بصیرت
ظفر اقبال جتوئی
381
۳۴
مرشدِ من …سیّد محمد فاروق القادریؒ ( روداد عرس)
صادق جاوید
383
مضامین سیّد محمد فاروق القادری ؒ
۱
شیخ محی الدین ابن عربی ؒ
سیّد محمد فاروق القادری ؒ
393
۲
سیدنا امامِ اعظم ابو حنیفہ ؒ
سیّد محمد فاروق القادری ؒ
397
*بشکریہ سہ ماہی شعوروادراک خان پور ۔ شمارہ نمبر ۵ ، جنوری تا مارچ ۲۰۲۱ء
٭٭٭
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔