نماز شب کے متعلق ایک اور روایت ہے کہ:
جن گھروں میں نماز شب پڑھی جاتی ہو اور قرآن کی تلاوت ہوتی ہو ، جس طرح زمین والوں کو ستارے چمکدار اور روشنی پھیلانے والے نظر آتے ہیں ان لوگوں کے گھر بھی اسی طرح روشن اہلِ فلک دیکھتے ہیں
میرا شعر ملاحظہ کیجیے:۔
نمازِ شب سے روشن تھا مرا گھر بھی ستاروں سا
اگرچہ قمقمے نہ تھے مرے گھر میں کہیں روشن
سبحان اللہ ! نمازِ شب کی کیا شان ہے ؛ کیا عظمت ہے؛ کیا عرفان ہے؛ اللہ کی بارگاہ میں آنسووں ، سسکیوں، آہوں اور استغفار کے نذرانے دے کر ہی انسان رحمتوں کے خزینے ، سعادتوں کے مرکز اور انوار الٰہی سمیٹ کر منور ہو سکتا ہے۔
نمازِ شب کے لیے بیدار ہونے والے شخص کی نظر جب گلاب کی پنکھڑیوں پر موجود شفاف شبنم کے قطروں پر پڑتی ہے تو روحانی سکون کے ساتھ جسمانی سکون بھی حاصل ہوتا ہے ۔ بے ساختہ سبحان اللہ اور ماشاءاللہ جیسے عظیم کلمے لبوں پر مچل جاتے ہیں اور اللہ رب العزت اس شخص کے قلب کو مجلٰی اور اس کے وجود کو مزکٰی کر دیتا ہے اور یہ مبارک ساعتیں تمام عمر دل کے آبگینوں میں معرفت و حکمت کی تنویر بن کر فروزاں رہتی ہیں نماز شب کا پڑھنا قلب کی پاکیزگی کے علاوہ چہرے کو پر نور اور روح کو معطر کرتا ہے۔ سید الساجدین حضرت امام زین العابدینؑ سے پو چھا گیا کہ کیا وجہ ہے ؟ کہ جو لوگ نمازِ تہجد پڑھتےہیں ان کے چہرے دوسرے تمام لوگوں کی نسبت نیکوتر ہوتے ہیں ؟
آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا
"چونکہ یہ لوگ اللہ تعالٰی سے تنہائی میں راز و نیاز کرتے ہیں اور اللہ اپنے نور سے ان کے چہرے منور کر دیتا ہے”
امام زین العابدینؑ
سیّد السّاجدین کے اس قول پر میرا یہ شعر کتنا صادق آتا ہے:۔
خدا نے کر دیا روشن مرے چہرے کی زردی کو
نمازِ شب سے ملتی ہے بزرگوں سی حسیں صورت
سیّد حبدار قائم
کتاب ” نماز شب ‘ کی سلسلہ وار اشاعت
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔