جرمن قوم اور ڈاکٹر رتھ فاؤ
یہ 80 کی دہائی میں ایف سی کالج لاہور کا زمانہ تھا۔ ان دنوں ہم چند قریبی کلاس فیلوز لاہور اور قرب و جوار میں ہر ہفتے کسی نہ کسی سیرگاہ کو جایا کرتے تھے۔ اس روز ہم چند مخصوس دوستوں کا پروگرام جناح باغ جانے کا تھا۔ ہم سفید رنگ کی بلڈنگ والی جناح لائبریری کے قریب سے گزرے تو ہم نے ایک درخت کے سائے تلے ایک انگریز جوڑا بیٹھا دیکھا۔ کالج لائف میں ہچکچاہٹ نہیں ہوتی اور نہ بندہ انجانے لوگوں سے بات کرتے ہوئے گھبراتا ہے۔ ہم ان کی طرف پلٹ گئے اور گپ شپ شروع کر دی۔ میں ان دنوں گلبرگ کے ایک بنگلہ کے سرونٹ کواٹرز میں رہتا تھا جو کرنل مختار شاہ کی ملکیت تھا۔ ان کے ساتھ والا بنگلہ شاہ محمود قریشی کے والد سجاد حسین قریشی کا تھا۔ وہ ان دنوں گورنر پنجاب تھے۔ جب اس جوڑے سے علیک سلیک ہوا تو انہوں نے بتایا کہ وہ قذافی سٹیڈیم کے نزدیک گلبرگ تھری میں رہتے ہیں۔ اتفاقا ان کا گھر میری رہائش سے تین بنگلے چھوڑ کر تھا۔ اگلے دن شام کو انہوں نے مجھے چائے پر بلایا۔ اس جوڑے کا تعلق میونخ جرمنی سے تھا جہاں علامہ اقبال بھی تعلیم حاصل کرتے رہے تھے اور وہ دونوں واپڈا ہاوس لاہور میں شائد منیجر اور انجینئیر کے عہدوں پر کام کرتے تھے۔ کرنل مختار شاہ کے بھائی اقتدار علی شاہ دارا پاکستان ہاکی ٹیم کے پہلے کپتان تھے۔ کرنل سید مختار شاہ صاحب انتہائی خلیق اور نرم مزاج انسان تھے۔ جب میں نے کرنل صاحب کے سامنے جرمن دوستوں کا ذکر کیا تو انہوں نے اگلے ہفتہ انہیں رات کے کھانے پر بلا لیا۔ کھانے کی میز سے پہلے اور بعد میں یہ میٹنگ انتہائی متاثر کن تھی۔ میں نے زندگی میں پہلی بار عالمی تاریخ پر اتنی خوبصورت گفتگو سنی۔ کرنل صاحب نے جنگ عظیم دوم کی بہت سی یادیں دہرائیں، ہٹلر اور نازیوں کے کردار پر بھی روشنی ڈالی اور ہم سارے مبہوت ہو کر ان کی گفتگو سنتے رہے تھے۔ بعد وہ دونوں واپس جرمنی چلے گئے اور ایک عرصہ تک ہمارے درمیان خط و کتابت ہوتی رہی۔وہ دن اور آج کا دن جرمن قوم سے مجھے خصوصی لگاو’ پیدا ہو گیا۔
جرمن قوم کے بارے مجھے دوسری دفعہ جانکاری رتھ فاو کے بارے پڑھ کر ہوئی۔ ڈاکٹر رتھ فاو کا پورا نام کیتھرینا مارتھا فاؤ (1929ء تا 10 اگست 2017ء) تھا۔ وہ ایک 30سالہ نوجوان جرمن ڈاکٹر، سرجن اور سوسائیٹی آؤ ڈاٹرز آف دی ہارٹ آؤ میری نامی کے کی رکن تھیں۔ وہ پہلی بار کراچی سنہ 1960ء میں آئیں۔ ان کا دل سڑک پر ایک جذام کے مریض کی حالتِ زار دیکھ کر ایسا پسیجا کہ پھر وہ واپس جرمنی نہیں گئیں اور اپنی پوری زندگی کوڑھ کے مریضوں کا علاج کرنے کے لئے وقف کر دی۔ حتی کہ سنہ 1996ء میں عالمی ادارۂ صحت نے پاکستان میں کوڑھ کے مرض کو قابو میں قرار دے دیا۔ پاکستان اس ضمن میں ایشیا کے اولین ملکوں میں سے تھا جو ڈاکٹر رتھ فاؤ کی انسانی ہمدردی کے توسط سے یہ درجہ حاصل کر سکا۔ پاکستان نے ڈاکٹر رتھ کے لئے سنہ 1989ء میں ہلال پاکستان، 2010ء میں نشان قائداعظم اور ستارہ امتیاز کا اعلان کیا۔ ان کا انتقال 19اگست 2017ء میں ہوا اور انہیں گورا قبرستان کراچی میں دفن کیا گیا۔
ڈاکٹر رتھ فاو کو پاکستان کی "مدر ٹریسا” بھی کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ 57 سال تک پاکستان میں انسانیت کی خدمت کرتی رہیں۔ انہوں نے جذام کے مریضوں کے علاج کی ذمہ داری اس وقت لی جب پاکستان میں اس بیماری کو ‘لاعلاج’ اور ‘خدا کا عذاب’ سمجھا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ سگے رشتے دار بھی اس مرض میں مبتلا آدمی کو بھلا دیتے تھے۔ حتی کہ والدین اس مرض میں مبتلا اپنی سگی اولاد اور بچے اپنے سگے ماں باپ کو پیٹھ پر بٹھا کر شہر سے باہر ویرانے میں چھوڑ آتے تھے۔ لیکن یہ عظیم الشان خاتون ڈاکٹر رتھ فاؤ تھیں جو انہی مریضوں کا علاج نہ صرف اپنی اولاد سمجھ کر کرتی تھیں بلکہ اکثر مریضوں کے گھر کا چولہا بھی اپنی جیب سے چلاتی تھیں۔
ڈاکٹر رتھ فاو سنہ 1929ء میں جرمنی میں دوسری جنگِ عظیم کی تباہ کاریوں کے درمیان پیدا ہوئی تھیں۔ وہ جرمنی سے فرانس گئیں اور وہاں طب کی تعلیم حاصل کی۔ سنہ 1960ء میں سماجی خدمت کے لئے انھوں نے انڈیا جانے کا فیصلہ کیا لیکن ویزا کے مسائل کی وجہ سے اُنھیں پاکستان کے شہر کراچی میں رُکنا پڑا۔ کراچی میں اس قیام کے دوران انہوں نے آئی آئی چندریگر روڈ پر جذام کے مریضوں کی ابتر حالت دیکھی تو اُنھوں نے انڈیا جانے کا ارادہ ترک کر کے کراچی ہی میں رُکنے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ نے عارضی ڈسپنسری کو مستقل کلینک کی شکل دی اور چند برسوں بعد کراچی کے علاقے صدر میں "میری ایڈیلیڈ لیپروسی سینٹر” کی بنیاد رکھی۔ پچاس بیڈ پر مشتمل یہ ہسپتال آج بھی قائم ہے جہاں دوائیں، ٹیسٹ اور دیگر تمام سہولیات پہلے دن کی طرح آج بھی بالکل مفت دی جاتی ہیں۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔