نبیلِ فکر جب اوجِ مدحتِ غم گسارِ دل فگاراںؐ کی طرف سفر کرتی ہے تو ندرت ہر گام پر خیال و فکر کے نایاب گوہر دامن میں ڈال دیتی ہے خامہ ء توصیفِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرطاس کا سینہ چوم چوم کر الہام کی رم جھم کو ایک ریشمی تبسم سے لکھتا جاتا ہے جو درد آشنائی، لذت آشنائی اور حقائق آشنائی کے گلاب بانٹتا ہوا تاریخِ مدحت کا درخشاں باب مرتب کرتا جاتا ہے تاریخِ مدحت میں ایسے بہت سارے ناعت موجود ہیں جو بحرِ نعت سے مسلسل مستفید ہو کر دوسروں کو مستفید کرتے آئے ہیں ان میں سے ایک سید نورالحسن نور نوابی عزیزی بھی ہیں جو نعتیہ ادب کے فروغ کے لیے کوشاں رہتے ہیں آج مجھے ان کی کتاب "گلابِ اسمِ نبیؐ کی خوشبو” کی نسیمِ مدحت کے نشیلے جھونکوں میں ادراکیء پرواز کو لے کر جانا ہے جہاں پر سہل ممتنع بھی ہے سلاست و روانی بھی ہے اور فصاحت و بلاغت بھی ہے خوبصورت خیال کو حمد میں کتنی آسانی سے یوں رقم کرتے ہیں:-
ماں سے زیادہ رب کریم
ہم کو چاہنے والا تو
کالی رات کے سینے پر
جگنو رکھنے والا تو
عاشق جب عشق کی معراج پر پہنچتا ہے تو اسے محبوب کے راستوں کے پتھر بھی گوہر لگتے ہیں اور وہ ان سے بھی عشق کرتا ہے جب سید محمد نور الحسن بھی راحتِ قلب و جسم و جاں،چارہ گرِ آزردگاں،نگاہِ بے نگاہاں حبیبِؐ خدا کے عشق سے آشنا ہوتے ہیں تو جدتِ خیال کے ریشمی تبسم کو لطیف حسن و رعنائی کے ساتھ قرطاس پر ایسے نقش کرتے ہیں:-
تیرے راہی کو اگر دھوپ پریشان کرے
سائبانی کے لیے مثلِ شجر ہو جاوں
ہر گھڑی خوف ستاتا ہے فنا کا مجھ کو
اپنے کوچے میں بلا لیں کہ امر ہو جاوں
عشق جب مزید اوجِ ثریا کی طرف محو پرواز ہوتا ہے تو محبوب کے قدموں کی خاک عاشق کو پیاری لگتی ہے اور وہ اس سے بھی بہارِ ضو کشید کر کے شفا یاب ہوتا ہے چشمِ امواجِ بقا نبی اکرمؐ کے عشق پر سید محمد نور الحسن کا دعوی بھی مودت کی ایک کڑی ہے جسے انتہائی شائستگی سے یوں بیاں کرتے ہیں :-
ہے خاکِ مدینہ کا مری آنکھ میں سرمہ
دعوی نہ کرے مجھ سے کوئی دیدہ وری کا
سرکارؐ کے نعلین نے بدلا ہے ارادہ
ورنہ ہے کسے شوق یہاں تاجوری کا
گنبد خضری کا جمال و کمال تصورات کی کامل آنکھ سے ہی دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ مراقبہ سینکڑوں میلوں کا سفر منٹوں میں طے کرا دیتا ہے بالیدگیءافکار کی کئی منزلیں مراقبے سے طے ہو جاتی ہیں اسرارِ مہ و نجوم کو باطنی آنکھیں دیکھتی ہیں جن کا ذکر شعر میں سید محمد نورالحسن نوابی یوں کرتے ہیں:-
بکھرے ہیں میرے گرد ہزاروں مہ و نجوم
بیٹھا ہوا ہوں گنبد خضری کی چھاوں میں
دیدارِ نبیؐ کس کی حسرت نہیں ہے ؟ عاشقانِ نبیؐ دیدار کے لیے فرخندہ بخت اشعار لکھ کر اپنی حسرت کو یوں زینت دیتے ہیں:-
آپؐ کی رحمت سے یوں تو سب میسر ہے حضورؐ
بس مرا دامن ہے خالی دولت دیدار سے
جہاں جہاں نبی اکرمؐ کے قدمین شریفین گئے زمین ،پہاڑ اور غار تک منور ہو گئے اور عزو شرف، دولتِ دیدار سے پاتے گئے شاہ صاحب نے ایک ایسا ہی بہار آفرین شعر رقم کیا ہے جس کی لذت روح کے تار تک ہلا دیتی ہے ہزاروں کہکشائیں فکرو شعور سے ضیا کی بھیک مانگتی نظر آتی ہیں شعر میں فکری نظافت اور اسلوبیاتی صباحت یوں رقصِ جمیل کرتی ہے:-
آواز ان کی، نقش قدم ان کے، ان کی یاد
کیا کیا حسیں خزانے ہیں غار حرا کے پاس
آفتابِ ھدی، نور الہدی، صاحبِ جود و سخا سے مودت ایک عجیب کیف و طرب اور سر مستی عطا کرتا ہے مودت اور عشق جب باہم مل جاتے ہیں تو دست قدرت انیس بے کساںؐ سے روشنی،خوشبو، طمانیت، روح میں بالیدگی اور نہ جانے کیا کیا وصف عطا کرتا یے جس کا اظہار نگار خانہءشعر میں ڈھلے فن پاروں کے عکس ہائے جمیل سے یوں ظاہر ہوتا ہے:_
میں ان کی یاد میں ڈوبا تو یہ ہوا محسوس
سراپا کل مرا شہرِ تجلیات میں ہے
قرآنِ مجید فرقانِ حمید کی سورہ تکویر میں اللہ تعالی نے قیامت کے مناظر کو ایسے بیان فرمایا ہے”جب سورج لپیٹ دیا جائے گا اور جب تارے بے نور ہو جائیں گے اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے”
قاری پڑھتا ہے تو جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن عاشقوں کی دنیا میں حضورؐ جلوہ فرما ہوتے ہیں اس لیے ان کو شفاعت کی گھنی چھاوں دنیا میں ہی نصیب ہو جاتی ہے ان کی عقل و شعور پر قسیم و جسیمؐ، تسنیم و وسیمؐ، خلیل و حکیمؐ، روف و رحیمؐ مخزنِ رحمت مدنی آقاؐ کا تصور ایسے گل افشانی کرتا ہےکہ قیامت کی ہولناکیاں بھلی لگتی ہیں اور شرفِ زیارت لبوں پر یوں مچلتا ہے :-
قیامت کے بھیانک منظروں سے ہم نہیں ڈرتے
شفیعِؐ حشر کا ہے چہرہءضو بار آنکھوں میں
وہ انہی آنکھوں سے کائنات کے اسرار و رموز کو یوں دیکھنے کی تلقین کرتے ہیں:-
سرمہ لگا لے آنکھ میں عشقِ رسولؐ کا
پھر روئے کائنات کا پردہ پلٹ کے دیکھ
جب جمال وخصالِ مصطفیؐ کی بات ہو تو آپ ہی سیدِ ابرارؐ، احمدِ مختارؐ، مدنی تاجدارؐ، حبیبِ غفارؐ، محبوبِ ستارؐ، خاصہ کردگارؐ، شافع یومِ قرارؐ، صدرِ انجمنِ لیل و نہارؐ، آفتابِ نو بہارؐ ہیں اور آپ کا نہ سایہ نہ ہی ثانی ہے آپ کے حسنِ بے مثال کی ایک جھلک سید محمد نورالحسن یوں بیان کرتے ہیں:-
زبان ناخن پا کی ثنا سے قاصر ہے
کہاں مجال کہ شرحِ صفات و ذات کرے
حضورؐ سے عشق ہو اور اہل بیت عظام سے نہ ہو یہ نہیں ہو سکتا شاہ صاحب اہل بیتؑ سے اپنی مودت کا اظہار یوں کرتے ہیں:-
پاوں حسنینؑ کریمین جو آ کر رکھ دیں
میرا چھوٹا سا مکاں باغِ ارم ہو جائے
یا ایک اور جگہ پر حضرت حسینؑ کی عظمت یوں بیان کرتے ہیں :-
حسینؑ کہتے ہیں پہچانو مرتبہ میرا
رسول پاکؐ نے خود کی ہے تربیت میری
آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گھر مبارک ،منور راستے، غار حرا،گنبد خضری، مکہ و مدینہ کی گلیاں اور خاکِ مدینہ جس پر آپؐ کے مبارک قدم آئے یا جہاں جہاں حضورؐ تشریف لے گئے یا سکونت اختیار کی اس کو تقریبا ہر نعت گو شاعر نے موضوعِ سخن بنا کر اپنی بے پناہ عقیدت کا اظہار کیا ہے شاہ صاحب نے بھی متعدد جگہ پر مختلف انداز سے ان کا ذکر کیا ہے لیکن طوالت کے ڈر سے بس یہ دو شعر پیش خدمت ہیں:-
سبز گنبد میں جو اک شمع ضیا رکھی ہے
ماہ و خورشید نے لو اس سے لگا رکھی ہے
ہر وبا آ کے پلٹ جاتی ہے دروازے سے
کیا کرے! گھر میں مرے خاکِ شفا رکھی ہے
تبصرہ کے آخر میں سید محمد نورالحسن نور نوابی عزیزی کے لیے دعا گو ہوں کہ اللہ ستارالعیوب ان کی توفیقات میں اضافہ فرمائے اور ان کے عقل و شعور پر نعتیہ الہام کی رم جھم جاری و ساری رہے۔آمین
سید حبدار قائم آف اٹک
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔