بن کر شفق کے پھُول سرِ شام آگئے
آنسو تمہاری یاد کے تھے ،کام آگئے
کیا کیا کلام خط میں وہ لکھتے رہے مجھے
کِس کِس ادا سے نامے میرے نام آگئے
خوابوں کی وادیوں میں اُترنے کے ساتھ ہی
کتنے حسین چہرے سرِ بام آ گئے
دن بھر وہ ہم کو دیکھ کے چُراتے رہے نظر
راتوں کو میل جول کے پیغام آگئے
چِھڑتے ہی ذِکر ایک پری وَش کا دوستو
گردش میں جیسے سوۓ ہوئے جام آگئے
میں نے تو اسپِ عزم روانہ کیے مگر
ہو کر ہر ایک موڑ سے ناکام آگئے
کم بخت ، بد نصیب ، دغا باز، بدلحاظ
تحسین کے بجائے یہ دُشنام آگئے
فرمان ِ احتساب میں جانے تھا کیا لکھا
زیرِ زمین سارے ، سرِ عام آگئے
کلام عمران اسؔد
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔