شہرہ آفاق لیڈی ڈیانا اور ان کا المناک انجام
پرنسز آف ویلز لیڈی ڈیانا ایک پراسرار طلسماتی کہانی تھی۔جب 31اگست 1997ء کو فرانس پیرس کی ایک زیرزمین گزرگاہ میں وہ کار حادثے کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہوئیں تو انسانی خدمت اور وقار سے محبت کرنے والے دنیا کے لاکھوں کروڑوں لوگ دھاڑے مار مار کر روئے تھے۔ میں اس روز اسلام آباد میں تھا جب ایک ٹیکسی ڈرائیور محمد انور بہت دیر تک روتا رہا تھا۔ ہم دوستوں نے اسے چپ کرانے کی بہت کوشش کی تھی مگر وہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد دوبارہ بلک بلک کر رونا شروع کر دیتا تھا۔ اگلے روز ہم نے محمد انور سے اس کی وجہ پوچھی تو وہ دوبارہ رونے لگا تھا اور سسکیاں بھرتے ہوئے اس نے بتایا تھا کہ، "لیڈی ڈیانا دکھی انسانوں کے سروں پر ہاتھ رکھتی تھی۔”
برطانیہ کی سابقہ شہزادی لیڈی ڈیانا کی وفات کے 28برس بعد ان کے مقبرے کو عام لوگوں کے دیکھنے کی خاطر پہلی بار کھول دیا گیا ہے۔ لیڈی ڈیانا کے عروج و زوال کی داستان برطانوی بادشاہ شہزادہ چارلس کے ساتھ شادی سے زیادہ ان کے فلاحی کاموں کی شہرت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ 1992ء میں انڈیا کے سرکاری دورے کے موقع پر ڈیانا "محبت کی علامت” سمجھے جانے والے تاج محل کے سامنے تنہا بیٹھی تھیں۔ اس وقت لوگوں میں یہ تاثر عام ہو گیا تھا کہ ہردلعزیز لیڈی ڈیانا شہزادہ چارلس کے ساتھ ایک جوڑا ضرور ہیں مگر درحقیقت وہ ایک الگ قسم کی سماجی شخصیت ہیں جو اشرافیہ اور اونچی ذات کی بجائے عام اور دردمند لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونا زیادہ پسند کرتی ہیں۔ اسی دورے کے دوران لیڈی ڈیانا اور مدر ٹریسا کے درمیان دوستی ہو گئی جو آخری دم تک قائم رہی۔ ٹریسا ایک معروف رومن کیتھلک راہبہ تھیں جنھیں بعد میں سینٹ کا درجہ دیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی غریبوں اور مریضوں کے لئے وقف کر دی تھی۔ وہ دنیا کے لئے امن کا پیامبر تھیں، جنہیں 1979ء میں امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔ لیڈی ڈیانا کی مدر ٹریسا سے دوستی ان کے اسی انسانی خدمت کے جذبے کی وجہ سے ہوئی تھی۔
لیڈی ڈیانا کا پورا نام ڈیانا فرانسس سپنسر تھا جو یکم جولائی 1961ء کو انگلینڈ کی کاؤنٹی نورفک میں سنڈرنگھم کے قریب پارک ہاؤس میں پیدا ہوئیں۔ وہ اپنی بہنوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔ سنہ 1969ء میں ڈیانا کے والدین کے میں طلاق ہو گئی۔اس کے بعد ڈیانا غم کی حالت میں نارتھمپٹن شائر اور سکاٹ لینڈ میں ان کے گھروں کے درمیان اکثر سفر کیا کرتی تھیں۔ لیڈی ڈیانا نے نورفک میں ریڈل زورتھ ہال نامی سکول سے تعلیمی سفر کا آغاز کیا۔ وہ 1974ء میں کینٹ کے ویسٹ ہیتھ نامی بورڈنگ سکول میں داخل ہوئیں۔ انھوں نے 1977ء میں ویسٹ ہیتھ چھوڑا اور سوئٹزر لینڈ میں ایک فنشنگ سکول سے تعلیم حاصل کی۔ ڈیانا نے اس سکول کو 1978ء میں ایسٹر کے بعد چھوڑا۔
آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ ڈیانا نے تعلیم کے بعد اپنی عملی زندگی کا آغاز لندن میں بطور نینی، کُک اور پھر ینگ انگلینڈ کنڈرگارڈن نامی سکول میں اسسٹنٹ کے طور پر کیا۔ اسی دوران ایک روز ان کے سکول میں شہزادہ چارلس نے دورہ کیا جس دوران وہ لیڈی ڈیانا کو اپنا دل دے بیٹھے اور یہ افواہیں پھیلنے لگیں کہ وہ پرنس آف ویلز شہزادہ چارلس کی ایک خاص دوست ہیں جن کے درمیان تعلقات سنجیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ وہی وقت تھا جب پریس اور ٹی وی نے ہر روز ان کا پیچھا کرنا شروع کر دیا، چاہے وہ کہیں واک کر رہی ہوں یا کام پر ہوں۔ اب انہیں اتنی پریس کوریج ملنے لگی کہ ان کے لئے بطور ٹیچر کام کرنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔
24 فروری 1981ء کو شہزادہ چارلس اور لیڈی ڈیانا نے بکنگھم پیلس میں اپنی منگنی کا اعلان کیا۔ 29 جولائی 1981ء کو لیڈی ڈیانا اور شہزادہ چارلس کی شادی ہوئی جسے "صدی کی سب سے بڑی شادی” کہا گیا۔ بکنگھم پیلس سے لگ بھگ 6لاکھ لوگ کیتھیڈرل تک گئے تاکہ جوڑے کی ایک جھلک دیکھ سکیں۔ نئے شادی شدہ جوڑے نے پیلس کی بالکونی سے ہاتھ ہلایا اور اس موقع پر ان کے ساتھ ملکہ الزبتھ دوم بھی موجود تھیں۔ یہ تقریب ٹی وی پر نشر کی گئی اور دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں لوگوں نے اسے دیکھا۔ شادی کے وقت ڈیانا کی عمر 20 سال تھی۔ ڈیانا اپنے والد ایرل سپنسر کا ہاتھ پکڑ کر سٹیچ پر پہنچی تھیں.
ڈیانا کو ہمیشہ سے ایک بڑے خاندان کی خواہش تھی۔ شادی کے ایک سال بعد 21 جون 1982ء کو ان کے گھر شہزادہ ولیم کی پیدائش ہوئی جو شہزادہ چارلس کے بعد تخت کے لئے دوسرے نمبر پر ہیں۔ سنہ 1984ء میں 15 ستمبر کو ولیم کے بھائی کی پیدائش ہوئی جن کا نام ہیری رکھا گیا مگر انھیں شہزادہ ہیری کے نام سے جانا جاتا ہے۔
امریکہ کے پہلے سرکاری دورے پر شہزادی ڈیانا نے وائٹ ہاؤس میں اداکار جان ٹریوولٹا کے ساتھ ڈانس کیا۔ یہاں سے ڈیانا کی شہرت بڑھتی چلی گئی۔ وہ فیشن کی علامت بھی بن گئیں اور ان کے کپڑے لوگوں کی توجہ کا مرکز بننے لگے۔ کسی بھی سرکاری تقریب میں شرکت کے موقع پر ان کی امدادی سرگرمیوں کو سراہا جاتا اور دنیا بھر میں اس کی سرخیاں بنتیں۔ انھوں نے امداد جمع کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور انہوں نے معروف شخصیات کی جانب سے امدادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کو عام بنا دیا۔ انھوں نے اپنی کئی تقاریر میں امتیازی سلوک کے خاتمے پر زور دیا۔ لیڈی ڈیانا نے ایڈز کے مریضوں سے محض ہاتھ ملانے جیسے معمولی کام کر کے ثابت کیا کہ عوامی سطح پر روابط قائم کرنا کوئی خطرناک بات نہیں ہے۔
پھر معروف زمانہ اس جوڑے کو جیسے کسی کی نظر لگ گئی۔ سنہ 1992ء میں لیڈی ڈیانا اور شہزادہ چارلس کے درمیان علیحدگی ہو گئی مگر ایک معاہدے کے تحت یہ جوڑا سرکاری تقریبات میں اکٹھے جاتا رہا۔ اس حوالے سے بے شمار کہانیاں ہیں۔ شہزادہ چارلس کی کمیلا پارکر سے دوستی بھی علیحدگی کی وجہ بنی جبکہ شہزادی ڈیانا کی پاکستانی ڈاکٹر حسنات خان سے دوستی بھی اس کی وجہ بتائی جاتی ہے۔ انہی افواہوں کے درمیان ملکہ برطانیہ الزبتھ کے کہنے پر بلآخر لیڈی ڈیانا اور چارلس کے درمیان 28 اگست 1996ء کو باقاعدہ طلاق ہو گئی۔ لیکن اسی سال اس جوڑے نے پاکستان کا دورہ کیا جب عمران خان اور ان کی برطانوی بیوی جمائما خان نے پاکستان میں ان کی مہمان نوازی کی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لیڈی ڈیانا عمران خان کو بھی بہت پسند کرتی تھیں اور جب وہ کرکٹ کے میدان میں بولنگ کرواتے تھے تو ڈیانا ٹی وی کے ساتھ چپک کر بیٹھ جایا کرتی تھیں۔ عمران خان کی جمائما گولڈ سمتھ سے شادی میں بھی ڈیانا کا رول بتایا جاتا ہے کیونکہ ڈیانا اور ارب پتی باپ گولڈ سمتھ کی بیٹی جمائما خان میں گہری دوستی تھی۔ پاکستان کے اس دورے میں ڈیانا شاہی مسجد لاہور کے اندر بھی داخل ہوئی تھیں۔
اس کے باوجود جنوری 1997ء میں شہزادی ڈیانا نے اس وقت عالمی سطح پر شہرت کے عروج کو چھواء جب انھوں نے ہتھیاروں پر پابندی کا مطالبہ کیا۔ بارودی سرنگوں کے خلاف مہم کے لئے قائم مائنز ایڈوائزری گروپ (ایم اے جی) کے شریک بانی لو مگراتھ ڈیانا کے ساتھ کام کرتے تھے۔ ان کا دعوی تھا کہ ڈیانا کی حمایت عالمی سطح پر ایسی خطرناک ڈیوائسز پر پابندی کے لئے انتہائی اہم ثابت ہوئی تھی۔ شہرت کے اسی بام عروج پر کہا جاتا ہے کہ برطانوی ملکہ الزبتھ کو محسوس ہوا کہ کسی مرحلے پر لیڈی ڈیانا برطانیہ کی "کوئین” ہی نہ بن جائیں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لیڈی ڈیانا اپنے مسلمان دوستوں سے تعلق کی وجہ سے اسلام قبول کرنے کے قریب پہنچ گئی تھیں مگر قدرت کو یہ منظور نہیں تھا۔ سنہ 1997ء ہی میں لیڈی ڈیانا کو برطانیہ میں مقیم مصر کی ارب پتی کاروباری شخصیت محمد الفاید کے بیٹے دودی الفاید کے ساتھ دیکھا جانے لگا۔ اگست 1997ء ریٹز پیرس میں رات کے کھانے کے بعد یہ جوڑا ایک لیموزین میں ریسٹورینٹ سے نکلا تھا کہ کچھ فوٹوگرافر موٹر بائیکس پر ان کا پیچھا کر رہے تھے تاکہ شہزادی کے نئے دوست کی تصاویر بنا سکیں۔ اسی دوران شہزادی ڈیانا کی کار کو ایک انڈرپاس پر حادثہ پیش آیا اور یہ دونوں موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
اس بدنصیب رات کو جو کچھ ہوا کچھ لوگوں کے لئے وہ محض ایک المناک حادثہ نہیں تھا۔ اس کی بجائے ان کا دعویٰ تھا کہ یہ حادثہ کسی طرح کی سازش یا کسی اور کارروائی کا نتیجہ تھا جو برطانوی ریاست کے ایجنٹوں نے خفیہ طور پر کی۔ اس بارے میں کم و بیش 8سازشی تھیوریاں ہیں۔ جبکہ ایک تھیوری یہ بھی مشہور ہوئی تھی کہ حادثہ کے وقت ڈیانا حاملہ تھیں اور ان سے پیدا ہونے والا بچہ ڈیانا اور ایک مسلمان باپ کی اولاد بننے جا رہا تھا۔
اس کے باوجود متعدد رپورٹوں، تحقیقات اور ماہرین سبھی واقعات کے بارے میں سرکاری بیان سے متفق ہیں کہ ڈیانا ایک کار میں سوار تھیں جسے ایک ایسا شخص چلا رہا تھا جو شراب کے نشے میں تھا اور یہ کہ ان کی اور اس کے ساتھ دیگر اداروں کی ناکامی کی وجہ سے یہ سانحہ رونما ہوا۔
سازشی نظریات نے کئی دوسری صورتیں بھی اختیار کیں لیکن سبھی ایک ہی بنیادی خیال کی طرف اشارہ کرنے کا دعویٰ کرتے تھے کہ کوئی ڈیانا کو مارنا چاہتا تھا اور اس نے اس رات کو پیش آنے والے جاں لیوا حادثے کی منصوبہ بندی میں مدد کی۔
یہ سازشی نظریات اس قدر جان دار اور اتنے وسیع پیمانے پر پھیل گئے کہ برطانوی میٹروپولیٹن پولیس، اخبار ڈیلی ایکسپریس اور مصری تاجر محمد الفاید کی معاونت سے اس پر آپریشن شروع کرنے پر مجبور ہو گئی۔ یہ ایک انکوائری تھی جس کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ آیا ان سازشی نظریات میں کوئی صداقت ہے یا نہیں۔ لیکن برسوں تک تحقیقات کا عمل جاری رہا جس پر لاکھوں پاؤنڈ خرچ ہوئے جس کے بعد پتہ چلا کہ سازشی نظریات مکمل طور پر بےبنیاد تھے۔
جب تک لیڈی ڈیانا زندہ تھیں برطانوی شہزادے چارلس نے اپنی پرانی دوست کامیلا پارکر سے شادی نہیں کی۔ جب چارلس کو لیڈی ڈیانا کی ہلاکت کی خبر ملی تو وہ بہت افسردہ ہوئے اور اپنی والدہ ملکہ الزبتھ کے منع کرنے کے باوجود وہ اپنی دونوں بہنوں کو ساتھ لے کر فرانس چلے گئے تاکہ ڈیانا کی میت کو اعزاز کے ساتھ برطانیہ لایا جائے۔
ویسٹ منسٹر ایبے میں جب ڈیانا کی میت کو لے جایا جا رہا تھا تو لاکھوں لوگوں کی قطار اس کے ساتھ چل رہی تھی۔ انھیں نارتھمپٹن شائر میں سپنسر خاندان کے آبائی گھر لے جایا گیا تو ان کی میت کے پیچھے شہزادہ چارلس اور 12 سالہ شہزادہ ہیری بھی چل رہے تھے۔ شہزادہ چارلس نے 9اپریل 2005ء میں کمیلا پارکر سے شادی کی۔ آج شہزادہ چارلس برطانیہ کے "بادشاہ” اور ان کی بیوی اور پرانی دوست کمیلا پارکر برطانیہ کی "خاتون اول” ہیں مگر شہرہ آفاق شہزادی ڈیانا کی پراسرار کہانی کی کشش آج بھی برقرار ہے۔ ایک عام انسان بھی دکھی انسانیت کی خدمت کر کے "دیوتا” کا روپ دھار لیتا ہے۔ لیڈی ڈیانا نے تو فلاحی کاموں کی خاطر اپنے 79 کپڑوں تک کو نیلام کر دیا تھا جو انھوں نے دنیا بھر کے میگزینز کے لئے پہنے تھے۔ اس نیلامی میں امدادی کاموں کے لئے 45لاکھ ڈالر جمع ہوئے۔ لیڈی ڈیانا کی موت کے اٹھائیس سال بعد بھی دنیا بھر کے لوگ ڈیانا کی انسانی خدمت کے لحاظ سے کمیلا سے زیادہ لیڈی ڈیانا کو جانتے ہیں۔
لیڈی ڈیانا اپنی سپینسر فیملی کے آبائی قصبے التھورپ پارک میں سرسبز درختوں اور ایک جھیل کے وسط میں مدفن ہیں جہاں ان کا ایک مجسمہ بھی نصب کیا گیا ہے۔ جب لیڈی ڈیانا کو دفنایا گیا تھا تو ان کے استعمال کی پسندیدہ چیزوں مثلا ان کی گھڑی، انگوٹھی، خطوط اور ایک فیملی فوٹوگراف وغیرہ کو بھی ان کے ساتھ قبر میں دفنایا گیا تھا۔ یہ ڈیانا کی شہرت کو ان کی موت کے بعد ختم کرنے کی نادانستہ کوشش تھی۔ اسی لیئے ڈیانا کی قبر کو عوام کے لیئے اتنے عرصے تک بند رکھا گیا۔ چند روز قبل جب ڈیانا کی قبر کو عوام کے لیئے کھولا گیا ہے تو دنیا بھر میں ڈیانا کے پرستاروں میں خوشی اور غم کی ایک ملی جلی لہر دوڑ گئی ہے۔ دنیا انہی کو سدا یاد رکھتی ہے اور انہی کے لیئے آنسو بھی بہاتی ہے جو انسانیت کے سر پر ہاتھ رکھتے ہیں، وہ بے شک دنیا چھوڑ کر چلے بھی جائیں مگر وہ دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں، وہ چاہے برطانیہ کی شہزادی ڈیانا ہو، بھارت کی مدر ٹریسا ہو یا پاکستان کے عبدالستار ایدھی ہوں۔ دراصل آج اگر لیڈی ڈیانا مرنے کے بعد بھی زندہ ہیں تو وہ ایک شہزادی کے طور پر نہیں بلکہ ایک "انسانی خدمت گار” کے طور پر ہیں۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |