اپنے مادی جسم سے باہر پرواز کا تجربہ
لاتعداد ایسے علمی موضوعات ہیں جن پر لکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمیں ایسے عنوانات میں الجھایا گیا ہے کہ جن پر جتنے مرضی صفحات کالے کر لیں ان سے کچھ حاصل وصول نہیں ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے کہ مذہب، سیاست اور عصری مضامین پر لکھنے سے قارئین کا علمی اور شعوری معیار بڑھتا ہے مگر جب مذہبی مضامین میں تفرقہ ہو اور جمہوریت و سیاست صرف ایک شریف اور بھٹو فیملی یا عمران خان جیسے معروف مگر متنازعہ رہنما کے گرد گھوم رہی ہو تو اس سے علم و آگاہی یا شعور کشید کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہو جاتا ہے۔
دنیا کی کسی بھی ملک اور حکومت میں ایک طبقہ ایسا ہونا چایئے کہ جو دنیا و مافیہا اور غم روزگار سے الگ ہو کر ایسے جدید ترین علمی اور سائنسی موضوعات پر خامہ فرسائی کرتا رہے کہ جس سے عوام الناس کی "شعوری آگہی” مسلسل پروان چڑھنے لگے۔
جدید ترین علوم میں عصر حاضر کے مضامین کے علاوہ کچھ ایسے ذاتی تجربات پر مشتمل مضامین بھی شامل ہیں جن کا تعلق "خرق عادات” (Para Normal) یا قبل از وقت کے واقعات (Foreseen Happenings) وغیرہ سے ہوتا ہے۔ روحانی پرواز کرنا بھی انہی مضامین میں سے ایک ہے جسے آپ اپنے مادی جسم سے نکل کر باہر سفر کرنے کا تجربہ (Traveling Out of Your Material Body) بھی کہہ سکتے ہیں۔ اگرچہ ایسے کسی تجربے کا تعلق صرف اپنی ذات تک محدود ہوتا ہے مگر اسے دوسروں تک پہنچانا اور متعارف کروانا ایک حیران کن علمی، حسیاتی اور محسوساتی تجربہ ہے۔ لیکن اس لحاظ سے یہ موضوع انتہائی حیران کن، دلچسپ اور سنسنی خیز ہے کہ ایک شخص اپنے اصل مادی جسم سے باہر نکل کر کیسے دور دراز کی چیزوں کا مشاہدہ کر سکتا ہے یا انہیں عین اپنے سامنے ان کی اصلی حالت میں دیکھ سکتا ہے؟
یہ سوال ان چند منتخب افراد کے لیئے قطعا مشکل نہیں ہے جن کو اپنے مادی جسم سے واقعی باہر نکلنے کا تجربہ ہوا ہو۔ یہ ایک قسم کا اپنے حسیاتی نظام کو اپنے شعور سے منسلک کرنے کا حیرت انگیز تجربہ ہے۔ ہم میں سے ہر انسان کو عام حالات میں بھی روزانہ کی بنیاد پر تخیلاتی یا روحانی پرواز کرنے کا موقعہ ملتا ہے کہ جب ہم دور دراز کے مقامات اور افراد کے بارے میں سوچتے اور محسوس کرتے ہیں۔ لیکن ہم در حقیقت دور کی چیزوں کو صرف اپنی باطنی آنکھ سے دیکھتے اور محسوس وغیرہ کرتے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اسلام آباد، لندن، پیرس یا نیویارک وغیرہ میں ہوں مگر وہاں اپنی مادی موجودگی کے باوجود اپنے جسم سے نکل کر شنگھائی، یروشلم یا کسی دوسرے سیارے پر بغیر کوئی وقت ضائع کیئے اتنی ہی جلدی پہنچ کر چیزوں کو دیکھنے، چھونے اور محسوس کرنے لگیں جس طرح ہم اپنے پہلے اصل مقام پر چیزوں کو دیکھتے، چھوتے اور محسوس کرتے ہیں؟
اگر کسی غیرمعمولی ماورائی صلاحیت کے حامل شخص کو ایسا تجربہ ہوتا ہے کہ وہ بیک وقت نزدیک اور دور کی چیزوں کو اپنے حسیاتی دائرہ میں لا سکتا ہے تو اسے ہم "مادی جسم سے باہر پرواز” (Flight Out of Body) کا نام دیں گے۔
دنیا میں کچھ لوگ ٹائم ٹریول کا دعوی بھی کر چکے ہیں کہ جو بیک وقت ماضی، حال اور مستقبل میں سفر کرنے اور مشاہدات کرنے کے بارے میں ہے۔ اس بنیاد پر وہ وقت کے تینوں زمانوں ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں کچھ سچی پیش گوئیاں بھی کرتے ہیں۔ انسان کو وقت میں سفر کرنے پر عمومی عبور حاصل ہو تو وہ ابتدائے آفرینش اور مستقبل میں ہونے والے واقعات کی عین درست پیش گوئی بھی کر سکتا ہے جو صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ پہلے انسانی اپنے موجودہ مادی جسم سے باہر نکلنا اور پھر اپنی ان پانچویں مادی حسوں کو اپنے مادی جسم کے بغیر استعمال کرنا سیکھ لے۔
دنیا میں بہت سے ایسے غیرمعمولی صلاحیتوں کے مالک انسان گزرے ہیں جنہیں خرق عادات یا مافوق الفطرت (Super Natural) مظاہرے کرنے پر عبور حاصل تھا. سائنس اور ٹیکنالوجی بھی اسی جگہ پروان چڑھتی ہے جہاں متنوع فکری ماحول اور سوچنے، غوروفکر کرنے اور سوال کرنے کی پوری آزادی ہو۔ ایسے گوہر نایاب خوبصورت علمی و فکری ماحول کے بغیر پیدا کرنا ممکن نہیں ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک و معاشرے میں نہ تو ایسا منفرد اور فکری تعلیمی نظام ہے اور نہ ہی ہمیں اپنے اردگرد ایسا ماحول میسر ہے جہاں ایسی تخلیقی سوچ کو پروان چڑھایا جا سکے۔ آنے والے ادوار ایسے نئے اور جدید علوم کے حیران کن ادوار ہیں جن میں ممکن ہے انسان اپنے اس ناقص مادی جسم سے بھی آزادی حاصل کر لے۔ ان روائتی مذہبی اور سیاسی زنجیروں کو توڑنے کا واحد ذریعہ ایسے ہی جدید علوم کو فروغ دینے سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر وطن عزیز میں بھی ایسی جدید طرز کی فکر کو رائج کیا جائے تو ہم بھی جدید اور ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ کھڑے ہو سکتے ہیں، جس کے بارے ایک حدیث مبارکہ ہے کہ، "ایک لمحہ کی فکر دو جہانوں کی عبادت سے افضل ہے۔”

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |