عاصم بخاری کی شاعری کا ماحولیاتی تناظر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر مقبول زکی مقبول ، بھکر
حسب ِ معمول میں اپنے اس تبصرے اور مضمون کا آغاز بھی عاصم بخاری کے ایک شعر سے ہی کروں گا ۔
مجھ کو اعزاز یہ بھی حاصل ہے
میں نے ماحول پر ، بھی لکھا ہے
عاصم بخاری کی شاعری میں جہاں دیگر عصری موضوعات پاۓ جاتے ہیں وہاں ساتھ ساتھ ماحولیاتی شاعری بھی بڑے پر اثر انداز میں ملتی ہے ۔
ایک پردرد اور فکر انگیز ماحولیاتی نظم ملاحظہ ہو
جانے کیا جرم تھا درختوں کا
۔۔۔۔۔۔۔۔
(نظم)
کون فریاد سنتا ، بے چارے
کتنی بے جگری سے چلے آرے
قتل بے دردی سے ہوئے سارے
جانے کیا جرم تھا درختوں کا
پوچھتے ہو قصور ، ان کا تو
جرم بتلاتا ہوں ، درختوں کا
آکسیجن کا یہ ذریعہ تھے
ٹھنڈی لے کر ہوائیں، آتے تھے
جرم یہ تھا کہ چھاؤں، دیتے تھے
جرم یہ تھا سبب ، تھے بارش کا
جرم یہ تھا کہ روکتے آندھی
اتنا کافی یا اور ، بتلاؤں
(عاصم بخاری)
اسی طرح ماحولیات کو متاثر کرنے والے عناصر میں ایک کا تذکرہ اپنی نظم میں کچھ ایسے کرتے ہیں
شور
۔۔۔۔۔۔
(نظم)
شہروں میں ہے دھواں دھواں ہر سمت شوخیاں
چین و سکوں کا چور یہ ہر سمت شور یہ
درخت لگانا اگرچہ کارِ ثواب ہے مگر پھر نجانے ایسا کیوں دکھائی دیتا ہے ۔
اِسی طرح موسموں کے تغیر اور جانوروں اور پرندوں کے قدرتی حسن اور ماحول کے ساتھ انسان دشمن رویے کو کچھ ایسے قطعہ میں بیان کرتے ہیں
اجڑ کتنے گئے ہیں جانے مسکن
ہوا اشجار کا قتل اجتماعی
بظاہر اک لدی لکڑ سے گاڑی
حقیقت میں جنازے جا رہے ہیں
ماحولیاتی شور کی آلودگی کا ہمارے رویوں میں احساس تک دکھائی نہیں دیتا۔ ایک ثلاثی نظم میں خوب آئینہ دکھاتے ہیں ۔
ثلاثی
۔۔۔۔۔۔
سونے دیتا ہے کب جگاتا ہے
صرف سنتا نہیں وہ خود گانے
سارے گاؤں کو وہ سناتا ہے
ماحول پر انتہائی اثر انداز ہونے والے عوامل میں ایک قدرتی پانی بھی ہے جس کا انسانوں حیوانوں جانوروں سب سے براہء راست تعلق ہے ۔ جو کہ زندگی کا جزو لازم ہے مگر بڑی بے حسی اور بے جگری سےندی نالے نہریں اور دریا آلودہ کیے جا رہے ہیں ۔ ایک فکری نظمِ معریٰ دیکھیں
پانی آلودہ
(نظم)
پانی آلودہ کارخانوں کا
میں نے دریا میں گرتے دیکھا ہے
مچھلیاں جائیں گی کہاں جانے
آبی مخلوق کا بنے گا کیا
ماحول جن عوامل سے متاثر ہوتا ہے اور سماج کے افراد کو اعصابی اذیت دیتا ہے وہ ہمارے ارد گرد بجنے والے بائیک اور گاڑیوں کےعجیب و غریب آوازوں والے ہارن ہیں ۔ جو کہ ہمارے سماجی شعور اور اخلاقی پستی کی تصویر ہیں ۔ اور فطری ماحول کو غارت کرنے کا بڑا سبب ہیں ۔ ایک ثلاثی نظم میں جس کی مکمل اور کامیاب عکاسی کی گئی ہے ۔
ہارن
۔۔۔۔۔۔۔
(نظم)
اچانک بجنے سے دل کانپتا ہے
سنے ہیں تو نے ہارن گاڑیوں کے
کسی ہارن میں کتا بھونکتا ہے
صاف شفاف اور پرسکون فطری اور قدرتی ماحول کو مشینوں کی حکومت اور اس صنعتی دور نے ناقابلِ تلافی نقصان پہچایا ہے ۔ فسوس اور دکھ کی بات تو یہ ہے کہ معصوم سیدھے سادے اور بھولے بھالے ہم وطن اس مشینری کو رحمت گراننے لگے ہیں ۔ جب کہ یہ ایک زحمت ثابت ہوئی ہے مشنیری۔۔۔فضائی آلودگی کے منبعوں کی نشاندہی کرتی ایک نظم
دھڑا دھڑ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ثلاثی)
دھڑادھڑ ہر طرف چلتے تھریشر
کریں ماحول کو آلودہ عاصم
یہ آبادی میں سب قائم کریشر
فطری حسن ماند پڑتا جا رہا ہے ۔ پرندے فقیر اور درویش منش ہوتے ہیں ۔ پیار کے متلاشی ہوتے ہیں ۔ نفرتوں سے دور بھاگتے ہیں ۔ ان کو پرسکون اوعر محفوظ ماحول کی ضرورت ہے مگر افسوس
پرندے
۔۔۔۔۔۔۔۔
نظم معریٰ
کہاں جھیلیں ہیں عاصم کب شجر ہیں
کہاں ٹھہریں بخاری اب پرندے
دھماکوں پر دھماکے ہو رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فضاؤں میں زہر گھل چکا ہے ۔ دھماکوں کے شور نے فطری ماحول کی سازگاری کو ناسازی میں بدل دیا ہے ۔ پرندوں کو پرامن ماحول کی ضرورت ہے مگر جائے امان کہیں نہیں ملتی زیادہ تر تو اس دہشت کے بھینٹ چڑھ چکے ہیں جو باقی ہیں وہ نقل مکانی اور ہجرت پر مجبور ہوگئے ہیں ۔ منظر کشی دیکھئے
نظم
(معریٰ)
پرندے کوچ کرتے جا رہے ہیں
فضا بارودی کچھ ایسی ہوئی ہے
زیادہ تر تو مرتے جا رہے ہیں
اشرف المخلوقات حضرتِ انسان کا طرز عمل بھی اس فطری سکوت میں خلل ڈالنے میں بڑی کوشش سے مصروف ہے اور اس تخریب میں کامیاب بھی دکھائی دیتا ہے ۔ اس نے ایسے ایسے مصنوعی شور شرابے کے خرابے ایجاد کر لیے کہ سکون برباد ہو گیا ہے نظم دیکھیں
ہارن
۔۔۔۔۔۔۔
اچانک بجنے سے دل کانپتا ہے
سنے ہیں تو نے ہارن گاڑیوں کے
کسی ہارن میں کتا بھونکتا ہے
یہ تصویر کشی ماحول کی ارد گرد کی انھوں نے خوب پیش کی ہے اور اس ماحولیاتی برباد میں انسان کا اپنا ذاتی عمل دخل بہت زیادہ ہے ۔اس کا موردِ الزام کسی اور کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا
آبی آلودگی کی صورت میں ماحول کو آلودہ کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ۔کارخانے بظاہر خوشحالی کے ضامن ہیں مگر حقیقت میں فطری ماحول کو نیست و نابود کرنے میں اپنے عروج پر ہیں
آلودہ پانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(نظم معریٰ)
پانی آلودہ کارخانوں کا
میں نے دریا میں گرتے دیکھا ہے
مچھلیاں جائیں گی کہاں جانے
آبی مخلوق کا بنے گا کیا
قدرت نے ہمیں لاجواب فطری شفافیت سے نوازا تھا مگر ہم سے اس نعمت کو سنبھالا نہ جاسکا۔ سانس لینے کے لیے اب تازہ ہوا کا فقدان ہے ۔ بھلا کیوں نہ ہو ساری فضا کو انسان نے خود ہی اپنی بے شعوری سے کیا ہے ایک نظم میں تصویر کشی دیکھیں
گرد ہی گرد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظم معریٰ
گرد ہی گرد کی اجازت ہے
گرد ہی گرد اب تو ہونی ہے
چار سو ہو گی کو بکو ہوگی
تم تھریشر کی بات کرتے ہو
اب کریشر بھی شہر میں ہوگی
آج کے اس سائنسی دور میں انسانی شعور اپنے کمال پر ہے مگرتھوڑے اور وقتی فائدے کی خاطر بڑے بڑے نقصان کرنا بھی اِسی انسان کا خاصا ہے سورہء والعصر گواہ ہے ۔ ثلاثی نظم ملاحظہ ہو
بارش
۔۔۔۔۔۔
بارشوں کو تو اب ترسنا ہے
پودا اک بھی نہ لگ سکا ہم سے
بادلوں نے کہاں برسنا ہے
اب گلوبل وارمنگ بڑا اہم موضوع ہے ۔ دنیا جس سے دوچار ہے ۔ اس طرح تو ہوتا ہے جب ہمارے جنگلات کا تناسب کم سے کم ہوتا جائے گا تو پھر ان مسائل سے تو ہم لا محالہ دوچار ہوں ۔
ایک ثلاثی نظم خوب عکاسی کرتی ہوئی
گرمی
۔۔۔۔۔۔
گرمی شدت کی تو پڑے گی اب
یاد رکھنا یہ بھول جانا مت
تم نے اشجار کاٹ ڈالے سب
***
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |