تحریر : شاندار بخاری
مقیم مسقط
بینظیر بھٹو کو اگر سیکیورٹی کا خطرہ نا ہوتا تو وہ بم اور بلٹ پروف گاڑی استعمال نا کرتی اور اگر یہ بات ان پر واضح تھی تو اتنی لائق اور قابل شخصیت سے کون یہ توقع کر سکتا تھا کہ وہ کوئی ایسا اقدام کریں جس سے سیکیورٹی، یہاں تک کے جان سے جانے کا مسئلہ بنے ۔
کڑیاں ملائیں اور تحقیقاتی مضامین جو کہ انٹرنیشنل میڈیا پر موجود ہیں یہی کہتے ہیں کہ کسی نے انہیں بار بار فون کر کے گاڑی کی چھت سے باہر آنے پر اصرار کیا اور جب وہ اس شخص کی باتوں میں آکر باہر نکلیں تو اگلے ہی لمحے لقمہ اجل بن گئیں اس ایک لمحے کے فیصلے نے ساری سیاست، ان کی اپنی زندگی اور گھر والوں کے مقدر کا نقشہ بدل دیا پھر نا تو کبھی وہ فون ملا اور ان کی سیکیورٹی پر مامور افراد شہر سے فرار اور قریبی ساتھی یہاں میں نام نہیں لوں گا کراچی میں تشویش ناک حالت میں مردہ پا ئے گئے۔
اس ساری روداد کا اچانک تذکرہ اس لئیے کر رہا ہوں کہ آج کل جو ایک مخصوص طبقہ کو اشتعال دلا کر اور ان کے جذبات سے کھیل کر حالات بنائے جا رہے ہیں وہ بھی ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے میرا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں نا ہی وابستگی ہے لیکن عقل اور فہم یہی کہتی ہے کہ وزیراعظم صاحب کو سوچی سمجھی سازش کے تحت مجبور کر کے ، پروپیگنڈا کر کے دباو ڈلوا کر بلایا جا رہا اور اور حساس اداروں نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کے آتے ہی دھماکہ کرنے کی اطلاعات ہیں ۔ ہمارے آقا ؐکا فرمان بھی ہے کہ مومن کو ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈساجاسکتا تو ماضی کے اس تلخ تجربہ کو سامنے رکھتے ہوئے دانشمندی کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ان کے مطالبات مان لئیے گئے ہیں وفاق اور صوبائی دونوں حکومتیں معاوضہ بھی دیں گی تو اپنے پیاروں کو یوں کسی کی باتوں میں آ کر رسوا نا کریں شریعت کا بھی حکم ہے کہ جتنا جلدی ہو سکے تدفین کر دینی چاہیے اس کہ بعد گورنر ہاوس میں لواحقین کو بلوا کر ملاقات بھی کی جائے گی مگر یوں کھلی سڑک پر نہیں جہاں ڈرون بھیج کر بھی حملہ کروایا جا سکتا ہے۔
حالیہ دنوں میں ٹرمپ کے ہامی وائٹ ہاوس جس کی سیکیورٹی دنیا کی مانی ہوئی ہے میں یوں دندناتے ہوئے گھس گئے کہ جیسے کسی میلے میں آئے ہوں تو ہم اتنی سازشوں میں گھرے ہوے ملک اور علاقے میں ایسے کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ کوئی سیکیورٹی بریچ نہیں ہوگی مجھے ایک واقع یاد آگیا کئی سال پہلے ایک کم عمر خودکش حملہ آور کا انٹرویو نشر ہوا جس میں اس سے سوال پوچھا گیا کہ کیا آپ کے دھماکہ کرنے سے ڈر نہیں لگا تو اس نے جواب میں کہا کہ ہمارے قائد نے کہا تھا کہ آپ دھماکہ کر دینا آپ کو کچھ نہیں ہوگا۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن میں تو کوئی بھی شریف فیملی کی طرف سے ملنے نہیں گیا تھا اب مچھ تک پہنچ گئی ہیں لوگوں کے جذبات سے کھیلنے تو خدارا میرے ہم وطنوں کسی کی جذباتی باتوں اور مصلحت کے تحت چلی ہوئی چال میں نا آئیں ، اپنے لیڈر کی بات کو سمجھیں اس کو دور اندیشی کو سمجھیں اور ذرا سارے منظر کو کچھ دور سے بیٹھ کر عقل کی روشنی اور فہم کی عینک میں دیکھیں تو کافی راز عیاں ہوں گے۔ وہ ایک مثال ہے نا کہ اگر کوئی آپ سے کیے کہ کُتا آپ کا کان لے گیا ہے تو کتے کے پیچھے بھاگنے سے پہلے کان کو ٹٹول کر دیکھ لیں۔
مسقط، سلطنت عمان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔