قومی خودانحصاری کا مشکل مرحلہ

قومی خودانحصاری کا مشکل مرحلہ

Dubai Naama

قومی خودانحصاری کا مشکل مرحلہ

یہ مشہور واقعہ ہے کہ جب فرانس میں معاشی بحران پیدا ہوا تھا تو بادشاہ نے دکھاوے کے لیئے شاہی گھوڑے بیچ دیئے تھے جس پر معروف دانشور اور فلاسفر والیٹیئر نے طنزا کہا تھا کہ: "بادشاہ کو چایئے تھا کہ بجائے شاہی گھوڑوں کے وہ اسمبلی میں بیٹھے گدھے بیچ دیتا”۔ پاکستان کا معاشی بحران اتنا گہرا ہو گیا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف (IMF) کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور دکھائی دیتی ہے۔ اس عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف IMF ) کی شرائط میں بجلی پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کے علاوہ 88 ریاستی کارپوریشنوں میں سے ان 31 کی نجکاری بھی شامل ہے جو نقصان میں جا رہی ہیں۔ ان سرکاری اداروں میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی، پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز بھی سرفہرست ہیں. حکومت نے آئی ایم ایف IMF کے دباو’ پر جو رپورٹ جاری کی اس کے مطابق پاکستان کی ان 31 ریاستی کارپوریشنوں میں امسال 730 ارب روپے کا خسارہ ہوا۔ یہ خوفناک تجارتی نقصان کیوں اور کیسے ہوا اس کی ایک ہی بنیادی وجہ ان اداروں میں پائی جانے والی کرپشن ہے۔ چین کی ترقی کی ایک اہم ترین وجہ چینی حکومت کا "کرپشن” کے خلاف سخت ترین سزاوُں کا نفاذ اور ان پر عمل درآمد ہے۔ سنہ 2018ء میں عمران خان بھی کرپشن کے خلاف انتخابی نعرہ لے کر برسراقتدار آئے مگر جب وہ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے تو ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیئے کوئ پائیدار پالیسی بنانے کی بجائے انہوں نے بھی فرانسیسی بادشاہ کی طرح دکھاوے کے طور پر وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں اور کٹے بیچنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی پنجاب اسمبلی کے ممبران کی تنخواہوں اور مراعات میں 100% اضافہ منظور کروا دیا۔ اسی طرح سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف پہلے منتخب وزیر اعظم تھے جنہیں معیشت کو اپنے پاو’ں پر کھڑا کرنے کے لیئے ملکی قرضے اتارنے کا شوق چرایا۔ انہوں نے 1997/98 میں "قرضہ اتارو ملک سنوارو” سکیم کا آغاز کیا۔ میاں محمد نواز شریف نے مئی سنہ 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے عوض عام شہریوں کے غیرملکی کرنسی اکاؤنٹس منجمد کر دیئے۔ اس سکیم کے تحت عوامی عطیات، قرضِ حسنہ اور ٹرم ڈپازٹس کی شکل میں 998 ملین روپے جمع ہوئے۔ اس میں سے صرف 170 ملین روپے قرض اتارنے کے لیئے استعمال ہوئے۔ جبکہ کچھ رقم خرد برد کی گئی اور کچھ عطیات دینے والوں کو واپس کی گئی۔ آج پاکستان سنہ 1998ء کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ مقروض ہے اور سود ادا کرنے کے لئے بھی پاکستان کو دوست اور برادر ممالک سے ہر سال مزید قرض لینے کی شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے۔ بلکہ اب تو چین سمیت سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی پاکستان کو واضح طور پر وارننگ دے چکے ہیں کہ حکومت پاکستان معاشی بحران سے نکلنے کے لیئے خود انحصاری پر مبنی پالیسیاں ترتیب دے۔

سنہ 2024ء کی متحدہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف، صدر مملکت آصف علی زرداری، وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور نجکاری کے وزیر علیم خان نے وزارت خزانہ پر بوجھ نہ بننے کے لیئے تنخواہیں نہ لینے کا اعلان کیا۔ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیئے یہ ایک مستحسن فیصلہ ہے۔ لیکن غور سے دیکھا جائے تو ملک کو شدید معاشی بحران سے نکالنے لیئے اس کا کسی مستقل معاشی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ جب تک ٹیکس کولیکشن کے نظام میں اصلاحات نہیں کی جاتی ہیں یا ملک سے کرپشن کا خاتمہ نہیں کیا جاتا ہے تب تک ملک کا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا تقریبا ناممکن ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق اس وقت بھی سٹیٹ بنک نے 626 افراد کو 2200 ارب روپے کے بلاسود قرضے دے رکھے ہیں۔ ملک لوٹنے والے ان افراد سے یہ قرضے واپس کیوں نہیں لیئے جاتے ہیں؟ سرکاری کارپوریشنوں میں کرپشن کی وجہ سے حکومت کو ہر سال اربوں روپے جیب سے ڈالنے پڑتے ہیں۔ جبکہ ان اداروں کے سربراہان اور بڑے افسران لاکھوں کروڑوں کی شکل میں تنخواہیں اور مراعات وصول کرتے ہیں۔ ملک میں ہر سال ایس ڈی اوز، لائن سپرنڈنٹس اور میٹر ریڈرز سے گٹھ جوڑ کر کے اربوں روپے کی بجلی چوری کی جاتی ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان کے مختلف محکمہ جات میں روزانہ 4 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے انسپکٹرز پراپرٹی ٹیکس وصول کرنے کی بجائے رشوت لے کر گھروں کو مالکانہ رہائش ظاہر کر کے ٹیکس سے مستشنی قرار دے دیتے ہیں۔ آپ ضلع کونسل یا روڈز کنسٹرکشن کے ایس ڈی اوز، ایکسئین یا فنانس ڈیپارٹمنٹس کے کمیشن کو دیکھیں تو آپ کانوں کو ہاتھ لگائیں گے۔ یہاں تک کہ گزشتہ 3 دہائیوں سے منتخب ایم این ایز اور ایم پی ایز بھی ٹھیکیدارں سے 3 سے 5 فیصد اپنا کمیشن ایڈوانس وصول کر لیتے ہیں۔

وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت نے بلترتیب ساڑھے 12 ارب اور 30 ارب روپے کے رمضان پیکیج شروع کیئے۔ جبکہ بے نظیر انکم سپورٹ کے لیئے پہلے ہی 450 ارب روپے مختص ہیں۔ بے شک مجموعی طور پر رمضان ریلیف پیکیج کے تحت مستحق افراد کو بازار سے 30% سستی اشیاء ملنے کا امکان ہے۔ آٹے پر فی کلو 77 روپے اور گھی پر 70 روپے فی کلو سبسڈی دی جائے گی جس سے 64 لاکھ سے زائد خاندان مستفید ہونگے۔ اسی طرح سندھ حکومت نے بھی ساڑھے 22 ارب روپے کے رمضان پیکیج کا اعلان کیا۔ جبکہ وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے سندھ کی 60 فیصد آبادی کو رمضان شریف میں 5 ہزار روپے نقد دینے کی بھی منظوری دی۔ اسی دیکھا دیکھی میں وزیراعلی خیبر پختونخوا نے احساس پروگرام کے تحت رمضان شریف میں نقد 10 ہزار روپے دینے کا اعلان کیا۔ لیکن جس انداز میں ان پیکیجز کی تقسیم کی جا رہی ہے اس کی سوشل میڈیا پر ویڈیوز وائرل ہو چکی ہیں جس میں پولیس باپردہ خواتین کی پٹائی کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اس پر مستزاد شہروں کی انتظامیہ اور ٹاو’ن کمیٹیوں کی کارکردگی یہ ہے کہ رمضان کریم کے پہلے ہفتہ میں ان سارے معاشی ریلیف ملنے کی بجائے روزمرہ کی اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں 30 سے 80 فیصد اضافہ ہوا۔

ہمارا معاشرہ آئی ایم ایف IMF کا مقروض ہونے کے بعد مسلسل مہنگائی کی زد میں ہے۔ اس دفعہ آئی ایم سے حکومتی مذاکرات میں امریکی سفارش کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کو آئی ایم ایف IMF کے قرضوں کی تاریخ میں شدید ترین مالی بحران سے گزرنا پڑے گا۔ چونکہ آئی ایم کی شرائط کے مطابق ٹیکس کولیکشن کے نظام کو بہتر بنانے کی بجائے پٹرول، بجلی اور گیس وغیرہ کی قیمتوں میں اضافے پر زور دیا گیا ہے۔ لھذا زخیرہ اندوزی اور گراں فروشی کا لامحالہ طوفان آئے گا۔ رمضان شریف کے مقدس مہینے کے باوجود انتظامی چیک اینڈ بیلنس بھی کہیں نظر نہیں آ رہا جس وجہ سے اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں من مرضی کا اضافہ کیا جا رہا۔ جب تک حکومت کی نظام پر گرفت نہیں ہو گی ناجائز منافع خور اور ذخیرہ اندوز مافیاز کو قابو میں لایا جا سکے گا اور نہ ہی آئی ایم ایف IMF کے قرضوں سے جان چھوٹے گی، بلکہ یہ قرضے مسلسل بڑھتے ہی چلے جائیں گے۔

پاکستان میں غربت کے شکار افراد کی تعداد 12 کروڑ 66 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ لیکن پاکستان کا اصل مسئلہ غربت نہیں بلکہ کرپشن ہے اور اس کے بعد بیوروکریسی اور سیاسی اشرافیہ کے وہ اللے تللے ہیں جن پر ہر سال 300 ارب روپے سے زیادہ خرچہ اٹھتا ہے۔ اگر حکمران ملک و قوم سے اتنے ہی مخلص ہیں اور اپنی تنخواہیں تک نہ لینے کا اعلان کر چکے ہیں تو وہ آگے بڑھ کر اپنی اربوں کی جائیدادوں کی بھی قربانی دیں تاکہ بیرونی قرضہ اتارنے کی ابتداء اوپر سے نیچے کیطرف شروع کی جا سکے۔ سرکاری افسران کی شاہانہ طرز زندگی اور بست وکشاد کی عیاشیوں، اور غیر ضروری IMFپروٹوکول کا خمیازہ غریب عوام عرصہ دراز سے بھگت رہے ہیں۔ ملک آئی ایم ایف IMF کی بھیک کے سہارے آخر کب تک چلتا رہے گا؟ گزشتہ نو ماہ میں تجارتی خسارہ 22 ارب 90 کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے۔ مہنگائی میں بھی 48 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ برس پاکستان کی معاشی شرح نمو انتہائی کم رہی۔ عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر مالیاتی ادارے پاکستان کی معاشی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو احسا س ہی نہیں ہے کہ عوام کس قدر اذیت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ملک کے موجودہ نامساعد معاشی حالات کی وجہ سے لوگ دھڑا دھڑ بیرون ممالک منتقل ہو رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کے پاس آئی ایم ایف IMFکے علاوہ عوام کو ریلیف دینے کے لئے کوئی دوسرا منصوبہ نہیں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو ممالک بھی آئی ایم ایف IMF کے ہتھے IMFچڑھے ان کی معیشت تباہ ہو گئی۔ حکومت کو چایئے کہ وہ آئی ایم ایف IMF کی بجائے قومی خود انحصاری کے ذریعے ملکی معیشت کو سدھارنے کی کوشش کرے۔ یہ مرحلہ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں ہے۔

Image by Nicolae Baltatescu from Pixabay

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

سرائیکی شاعرہ ملکہ غزل کی نظم "میرے رب"

ہفتہ مارچ 23 , 2024
سرائیکی شاعرہ ملکہ غزل کی نظم، “میرے رب” انسانی روابط کی پیچیدہ تعلقات کا احاطہ کرتی ہے، جس میں رشتوں کی عارضی نوعیت
سرائیکی شاعرہ ملکہ غزل کی نظم “میرے رب”

مزید دلچسپ تحریریں