ابھی دو ہفتے پہلے کی بات ہے کہ میں پیدل اپنے دفتر جا رہا تھا صبح کا خوب صورت سماں تھا لڑکیاں لڑکے اپنے سکولوں اور کالجوں میں حصولِ علم کے لیے جا رہے تھے گاڑیوں کا ایک جمِ غفیر تھا میں گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج اٹک کی دیوار کے باہر نرسری میں جھانک جھانک کر گلابوں کے مختلف رنگ دیکھ کر آنکھوں کو رنگ و نور سے آشنا کر رہا تھا اور رفتہ رفتہ آگے بڑھ رہا تھا کچہری چوک میں لوگوں کو آسماں کی طرف دیکھتے پایا تو میرے قدم بھی رک گئے اور میں نے بھی اوپر دیکھنا شروع کر دیا فضا کووں سے بھری ہوئی تھی اور کووں کا شور انسانوں کی سماعتوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا رہا تھا مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھا کہ کوے کیوں شور سے احتجاج کر رہے ہیں اور یہ احتجاج بھی عدالت اور دو تھانوں کے اوپر تھا۔ میں نے چوک میں کھڑے ایک رکشے کے ڈرائیور کو اپنا سوال داغ دیا تو اُس نے اوپر پتنگ کی ڈور سے الجھے ہوئے ایک کوے کی طرف اشارہ کیا تو میں بھی حیران ہو گیا کہ عدالت اور دو تھانوں پر کووں کا احتجاج پتنگ بازی پر تھا کیونکہ اس کی ڈور سے کسی انسان کی گردن بھی کٹ سکتی تھی اور یہ احتجاج لٹکے ہوئے ادھ موئے کوے کے لیے بھی تھا لیکن ہماری انتظامیہ اس طرف دیکھنا ہی نہیں چاہتی تھی اور پتنگ بازی بہت منظم انداز سے اٹک شہر میں ہو رہی ہے۔ اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے گھروں کی چھتوں پر پتنگ اڑاتے ہوئے لڑکے چادر اور چار دیواری کا کس طرح تقدس پامال کر رہے ہیں لیکن انتظامیہ کسی انجان شخص کی گردن کٹنے کے انتظار میں ہے
بہرحال میں نے فورا موبائل نکالا اور 1122 کو کال کی انہوں نے میرا نام اور کام پوچھا تو میں نے کوے کی روداد سنا دی اور اپنے دفتر کی طرف چل پڑا دو منٹ کے بعد 1122 کی گاڑی کا ہوٹر بے ہنگم ٹریفک کے شور میں اضافہ کر رہا تھا اور ریسکیو 1122 کی گاڑی کوے کو ظالم ڈور کے شکنجے سے آزاد کرانے پہنچ گئی تھی کاش پاکستان کے باقی محکمے بھی ایسے ہوتے جیسے 1122 کا پُردم محکمہ کام کرتا ہے اور یہ محکمہ حادثے میں سیاسی پارٹی، سٹیٹس اور ذات نہیں پوچھتا بلکہ صرف اطلاع دینے والے کا نام اور حادثے کی جگہ پوچھ کر بالکل تھوڑے وقت میں امداد کے لیے پہنچتا ہے بہت تیزی سے کوے کو آزاد کرا کر ریسکیو عملہ واپس چلا گیا تو میں نے ریسکیو عملے کو دوبارہ فون کر کے شکریہ ادا گیا۔
مجھے حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل کا اپنے بھائی کو قتل کرنا یاد آ گیا جب اُس نے ہابیل علیہ السلام کو قتل کیا اور پریشان کھڑا تھا کہ لاش کا کیا کیا جائے تو اسی اثنا میں حکمِ خدا سے دو فرشتے کووں کی صورت میں اترے اور آپس میں لڑنے لگے ایک کوے نے دوسرے کوے کو مار دیا اور اپنے پنجوں سے زمین کھودی اور مردہ کوے کو دفنا کر اڑ گیا۔ قابیل نے کوے کا قتل اور دفن دونوں دیکھے تو دل میں سوچا کہ میں تو کوے سے بھی گیا گزرا ہوں کہ لاش کو ٹھکانے لگانے کا پتہ ہی نہیں ہے۔ اس وقت قابیل نے سوچا کہ کوے جیت گئے اور میں ہار گیا۔
آج جب کچہری چوک اٹک میں ڈور کے ساتھ لٹکے ہوئے کوے کو دوسرے کووں نے شور مچا کر بچا لیا تو میں بہت رویا کہ آج پھر کوے جیت گئے اور ہم انسان ہار گئے معاشرے کی حالت یہ ہے کہ کوئی سڑک کے کنارے پر مر رہا ہو یا قتل ہو رہا ہو تو ہم خاموشی سے گزر جاتے ہیں اور ظلم پر احتجاج بھی نہیں کرتے اور اس کو مصلحت سمجھتے ہیں اگر کووں کا احتجاج اپنے ایک کوے کی جان بچا سکتا ہے تو ہم انسان کسی ظلم پر احتجاج کیوں نہیں کرتے ہم ظالم کا ہاتھ کیوں نہیں روکتے بےحسی کا یہ عالم کب تک رہے گا ۔کب مظلوموں کو جبرِ سلطانی سے نجات ملے گی کب اونچے ایوانوں میں زلزلہ آئے گا کب فرعونیت لتاڑنے کے لیے کوئی موسیٰ علیہ السلام جلوہ گر ہوگا۔
مملکت خدا داد پاکستان میں انسانیت کی فلاح کے لیے کون آگے بڑھ کر دکھی انسانیت کو گلے لگائے گا۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر صرف انسان کی بقا اور فلاح کا درس دینے کے لیے آئے لیکن ہم آج بھی اُسی جگہ پر کھڑے ہیں جہاں کوے جیت جاتے ہیں اور انسان اشرف المخلوقات ہار جاتے ہیں۔ کچہری چوک میں ڈور سے لٹکے ایک کوے کی جان اپنے احتجاج سے بچا کر آج کے دور کے کوے پھر جیت گئے اور ہم بے حس انسان پھر ہار گئے۔
سیّد حبدار قائم
اٹک
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔