میں اور ہم کا تصور
اس دنیا میں رب نے بے شمار مخلوقات پیدا کی ہیں، جن میں حضرتِ انسان اعلیٰ درجے پر فائز ہے۔ اس کے پاس سوچنے اور سمجھنے کی منفرد صلاحیت موجود ہے، جو انسان کے اعلیٰ ہونے کی مضبوط دلیل ہے۔ علاوہ ازیں، انسان میں ایک اہم احساس پایا جاتا ہے جسے "میں” (نفس) کہا جاتا ہے۔ یہ وہ احساس ہے جس کے ساتھ بندھ کر انسان اس دنیا میں آتا ہے، پوری زندگی اس کا سامنا کرتا ہے، اور یہی احساس لے کر رخصت ہو جاتا ہے۔
انسان کے لیے اس کی "میں” دنیا میں سب سے بڑا امتحان ہے، حالانکہ انسان نے حقیقی زندگی "میں” کے گرد ہی گزارنی ہے۔ ہماری تعلیمات میں شامل ہے کہ قیامت کے دن ہر انسان "نفسی نفسی” کا ورد کر رہا ہوگا، کیونکہ وہاں آپ اور آپ کے اعمال ہی سب کچھ ہیں۔
یہ دنیا وہ مقام ہے جہاں ہمیں اپنی "میں” کو قابو میں رکھنا ہے۔ اس دنیا میں ہمارا سب سے بڑا دشمن ہماری "میں” (نفس) ہے، جس کا شیطان بخوبی فائدہ اٹھاتا اور ہماری گمراہی کا سبب بنتا ہے۔ رب نے انسان کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑا اور ہر مشکل کا حل مہیا کیا ہے۔ اس نے "میں” کا توڑ "ہم” کے تصور کی صورت میں پیش کیا ہے۔
ہم کے تصور سے مراد مل جل کر رہنا اور حقوق و فرائض میں اعتدال رکھنا ہے۔ جس طرح اولاد کا فرض ہے کہ وہ والدین کی خدمت کرے، اسی طرح والدین کا فرض ہے کہ وہ اولاد کی تربیت اور بنیادی ضروریات کو پورا کریں۔ اسی طرح دنیا میں ہر طرف حقوق و فرائض کا یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ یہی سلسلہ اس اہم احساس (ہم) کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔
مختلف ثقافتوں اور سماجی نظاموں میں ‘ہم’ کے تصور کا مظاہرہ مختلف طریقوں سے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، مشرقی ثقافتوں میں خاندان اور برادری کا تصور ‘ہم’ کے احساس کو فروغ دیتا ہے، جبکہ مغربی معاشرتوں میں انفرادی آزادی پر زور دیا جاتا ہے، جو اکثر ‘میں’ کے تصور کی عکاسی کرتی ہے۔ ان اختلافات کے باوجود، ‘ہم’ کا تصور انسانی معاشرت میں ہم آہنگی اور تعاون کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پوری زندگی انسانیت کے لیے وقف کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ وجہ تخلیق کائنات ہیں جن کے پاس دونوں جہانوں کا خزانہ موجود تھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے چھوڑ کر فقیری کو اپنایا اور اپنے نفس (میں) پر قابو پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک، مل جل کر زندگی گزارنے، اور صبر پر زور دیا۔
‘میں’ انسان کو اکیلا کر دیتی ہے، جس سے وہ تباہی کی طرف جاتا ہے۔ رب نے انسان کو اس دنیا میں ایک امتحان کے لیے بھیجا ہے، جس میں کامیابی کا اہم جزو اپنی ‘میں’ کو مارنا اور ‘ہم’ کے تصور کو فروغ دینا ہے۔
دنیاوی امتحان کی تیاری کرنے کے لیے اپنے اردگرد کے ماحول کو دیکھیں، سمجھیں اور جہاں تک ہو سکے بھرپور کردار ادا کریں۔ غریبوں کی مدد، یتیموں کو ان کا حق دلوانا، ظلم کے خلاف آواز اٹھانا، اپنے مالک کی خاطر جہاد وغیرہ یہ وہ کام ہیں جن سے آپ اور آپ کا معاشرہ (ہم) کے احساس سے قریب ہو کر (میں) کو شکست دے سکتا ہے اور حقیقی کامیابی کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔
اس کے علاوہ، اسلامی تاریخ میں ‘ہم’ کے تصور کی کامیاب مثالیں موجود ہیں جیسے خلفائے راشدین کا دور، جہاں اجتماعی فلاح و بہبود کو اولین ترجیح دی گئی۔ اس کے برعکس، موجودہ دور میں انفرادی مفادات کے بجائے اجتماعی خیر و فلاح پر زور دینے سے معاشرتی ہم آہنگی کی بہتری ممکن ہے۔
میرا نام حنان شیر ہے، چنیوٹ سے تعلق ہے۔ایم بی بی ایس کے چوتھے سال کا طالب علم ہوں۔ اپنی طبی تعلیم کے ساتھ ساتھ، مجھے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں لکھنے کا بہت شوق ہے۔ میرے لیے لکھنا محض ایک تخلیقی شوق ہی نہیں ہے بلکہ اپنے اردگرد کے اکثر نظر انداز کیے جانے والے معاشرتی پہلوؤں کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کا ایک عزم بھی ہے۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔