ہماری تنزلی کا ذمہ دار طبقہ؟
مختصر وقت میں ترقی کرنے والے ملکوں کو دیکھ کر حسرت پیدا ہوتی ہے۔ ان میں بہت سے بدحال اور خرابی کا شکار ملک ایسے تھے جنہوں نے پاکستان کو دیکھ کر ترقی کرنا سیکھا اور پاکستان نے بھی دل کھول کر ان ممالک کی مالی مدد کی۔ شائد آپ کو یقین نہ آئے سنہ 1960ء تک دنیا پاکستان کی ترقی کو دیکھ کر حیران و ششدر تھی۔ لیکن پھر کیا ہوا کہ گزشتہ تقریبا نصف صدی سے لے کر آج تک ہم ترقی کی بجائے مسلسل تنزلی کر رہے ہیں، جبکہ وہ ممالک جن کو ہم نے پاؤں پر کھڑا ہونا سکھایا وہ ایک تسلسل کے ساتھ آگے سے آگے ہی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
جب امریکہ نے 6 اور 9 اگست 1945ء کو جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرائے تو جاپان کی جانی، معاشی اور سیاسی لحاظ سے اینٹ سے اینٹ بج گئی۔ جاپان 1960ء تک انتہائی غربت کا شکار رہا، جاپانی بچے خوراک کی قلت کی وجہ سے کمزور اور لاغر پیدا ہوتے تھے۔ جاپانی اس دور میں چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک وقت کا کھانا کھاتے تھے۔ پاکستان نے سنہ 1957ء میں خوراک، چینی اور چاولوں وغیرہ سے بھرا ہوا ایک بحری جہاز ٹوکیو بھجوایا جس پر جلی حروف میں "جاپان کی امداد کیلئے پاکستان کا تحفہ” لکھا ہوا تھا۔ اس وقت کی جاپانی حکومت نے دست بستہ حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا تھا، جاپانی قوم کو پاکستان کا یہ احسان آج بھی یاد ہے۔
جنگ عظیم کے بعد جرمنی بھی تباہ حال تھا۔ پاکستان نے سنہ 1950ء میں جرمنی کو پانچ کروڑ روپے کا بلاسود قرضہ دیا، پاکستان نے پولینڈ کے متاثرین کو پناہ دی۔ چین پاکستان کی آزادی کے دو سال بعد 1949ء میں آزاد ہوا۔ چین کی سرزمین پر اترنے والی دنیا کی پہلی ائیر لائن پی آئی اے تھی جس کا استقبال ماؤزے تنگ اور چو این لائی نے ائیرپورٹ پر آ کر کیا تھا۔ یہ پاکستان تھا جس نے ماؤزے تنگ کو ذاتی استعمال کیلئے ایک جہاز تحفہ کے طور پر دیا تھا۔ یہ جہاز آج بھی چین کے میوزیم میں پاکستان کے لیئے احساس تشکر کے طور پر کھڑا ہے۔
متحدہ عرب امارات کی سات برسرپیکار ریاستوں کے اتحاد میں پاکستان نے اہم ترین کردار ادا کیا اور ایمریٹس آئیرلائن (جو آج دنیا کی بہترین ایئر لائن ہے) کو جہاز اور پائلٹ پاکستان نے فراہم کیئے تھے۔ پاکستان نے اپنے ترک بھائیوں کی قیام پاکستان سے پہلے اور قیام پاکستان کے بعد بھی مدد کی، ترکی کے دارالحکومت استنبول میں اترنے والا پہلا بوئنگ طیارہ بھی پاکستان کا تھا۔ پاکستان نے مراکو، تیونس اور الجزائر کی آزادی میں بھی مرکزی کردار ادا کیا۔
صدر ایوب خان کے دور میں چین کے صدر چو این لائی سنہ 1960ء میں اپنی ٹیم کے ہمراہ لاہور آئے اور پیکو کا کارخانہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہوں نے واپس چین جا کر پاکستان کی مدد سے اسی طرز کا لوہے کا پہلا کارخانہ لگایا۔ اسی طرح ایران کی ترقی میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا۔ کہا جاتا ہے سنہ 1970ء تک سعودی عرب میں پاکستان سے امداد جاتی رہی اور سعودی شہری خانہ کعبہ میں پاکستانیوں کے رزق میں اضافے کے لئے ہاتھ اٹھا کر دعائیں کیا کرتے تھے۔ دنیا کے امیر ترین ممالک میں شامل سنگا پور ائیرلائن اور ائیر پورٹس دونوں پاکستانی ماہرین نے بنائے، ملائیشیا کا آئین تک پاکستان کے وکلاء نے لکھا۔ جنوبی کوریا نے پاکستان کے وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق کے پنج سالہ منصوبے پر عمل کر کے ترقی کی۔ جنوبی کوریا کے انچھن ایئر پورٹ پر آج بھی ڈاکٹر محبوب الحق کی قد آدم تصویر لگی ہوئی ہے۔
سنہ 1990 کی دہائی تک بھارت پاکستان سے بجلی خریدتا رہا اور من موہن سنگھ نے ”شائننگ انڈیا” کا پورا منصوبہ پاکستان سے مستعار لیا تھا۔پھر کیا ہوا کہ یہی پاکستان جو 1960 سے لے کر 1990 تک صنعت اور زراعت کے شعبے میں تیزی سے ترقی کر رہا تھا، اسے کسی کی نظر لگ گئی۔ پاکستان کے صنعتی یونٹ اور خاص طور پر پاکستان کی سٹیل مل اور منگلا ڈیم وغیرہ کو دیکھنے اور مشاہدہ کرنے کے لیئے پوری دنیا سے محققین آتے تھے یہاں تک امریکی وفود بھی پاکستان کی سٹیل مل کا دورہ کرنے کے لیئے آئے تھے اور اسے دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے، وہی پاکستان تیزی سے تنزلی کرنے لگا۔ سنہ 1971ء آیا اور پہلے ہی جمہوری انتخابات نے پاکستان کو "سقوطہ ڈھاکہ” کا تحفہ دیا۔ کہا جاتا ہے کہ جب مشرقی پاکستان میں 90ہزار پاکستانی فوجی بھارتی فوجیوں کے سامنے ہتھیار ڈال رہے تھے اس وقت صدر پاکستان یحیحی خان داد عشرت دے رہے تھے۔ تب وطن عزیز پر ایسا زوال آیا کہ جمہوریت اور آمریت کی آنکھ مچولی سے پاکستان کی یہ ترقی تنزلی میں بدل گئی اور ہم معاشی طور پر اتنے تباہ و برباد ہو گئے کہ دور نہ جائیں ابھی ماضی قریب میں ہم ایک ایک ارب ڈالر کیلئے انہی ممالک کے دروازوں پر "بھکاری” بن کر ہاتھ پھیلائے کھڑے رہے ہیں جن کو ترقی کرنے کے راز اور طریقے ہم نے سکھائے تھے:
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے،
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
لھذا وطن عزیز کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیئے ضروری ہے کہ کوئی بھی منصوبہ یا پالیسی بنانے سے پہلے یہ تحقیق کی جائے کہ ہم ماضی میں ترقی کی بجائے تنزلی کیوں کرتے رہیں ہیں اور اس کا اصل ذمہ دار کونسا طبقہ ہے؟ ہو سکتا سیاستدانوں کے مطابق اس کا موجب مقتدرہ ہے اور مقتدرہ کے مطابق ہو سکتا ہے اس کے ذمہ دار سیاستدان ہیں۔ جب تک ہم اس سوال کا صحیح جواب ڈھونڈ کر اپنی غلطیاں تسلیم نہیں کرتے ہماری تنزلی کا یہ سفر مسلسل اسی طرح جاری و ساری رہے گا۔
Title Image by Sammy-Sander from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔