راقم : شاندار بخاری
مقیم مسقط
جنگ کے لفظی معنی ڈھونڈیں تو ویکی پیڈیا پراس لفظ کی بہت جامع اور آسان تشریح مل جاتی ہے اور کچھ یوں ہےکے یہ دو فریقوں، قبائل، قوموں یا ملکوں کے درمیان تنازع کے نتیجے میں ہونے والے تصادم کو کہا جاتا ہے۔ جنگ کی بھی کئی اقسام ہیں۔ جنگ مسلح بھی ہوسکتی ہے اور سرد جنگ بھی ۔ مسلح جنگوں کے دوران فریقوں ، قبائل ، قوموں یا ملکوں کی مسلح افواج اپنی ملک و قوم کے دفاع کے لیے آگے آتے ہیں اور اپنی قوم کو آنے والے خطرات سے بچاتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جنگوں کے نتیجے میں بہت تباہی ہوتی ہے ، لاکھوں افراد مارے جاتے ہیں ، عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوجاتے ہیں ۔ جنگ میں فتح جس کسی کی بھی ہو نقصان صرف انسانیت کا ہی ہوتا ہے ۔ آجکل روس اور یوکرین کے مابین جنگ جاری ہے اور کہا جارہا ہے کہ کسی بھی وقت تیسری عالمی جنگ کا بِگل بج سکتا ہے لیکن ایسا ہونا اس وقت بالخصوص آجکل کے دور میں نا ممکنات میں سے ہے کیونکہ آجکل کی جنگوں میں ممالک ایک دوسرے پر پابندیاں عائد کر کے اکنامک یعنی اقتصادی طور پر ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتے ہیں نا کہ ہتھیاروں کے استعمال سے۔
دنیا کی روز بدلتی صورتحال کو دیکھتے ہوۓ آج کا میرا موضوع پہلی عالمی جنگ ، جسے ہم جنگ عظیم یا جنگ جہانی اول یا ورلڈ وار 1 کے نام سے بھی جانتے ہیں ، کے بارے میں ہے ۔ ہم بچپن سے کسی نا کسی حوالے سے اس کا تذکرہ سنتے اور پڑھتے آ رہے ہیں اور یہ سمجھ میں آتا ہے کے یہ ایک ایسی جنگ تھی جسمیں دنیا کے سارے ممالک شامل تھے لیکن یہ اس کا لفظی معنی ہے جو ہم ورلڈ وار کے نام سے اخذ کرتے ہیں ۔ اس جنگ کا اس دنیا کے سارے ممالک سے براہ راست کچھ لینا دینا نہیں تھا سوائے یورپ کے لیکن ان کی کولونیز اور الائنسز کی وجہ سے بھی کافی ممالک بنا چاہتے اس جنگ کی لپیٹ میں آئے ۔ پہلی جنگ عظیم صرف یورپی ملکوں کے درمیان تنازع نہیں تھی بلکہ یہ قوموں اور سلطنتوں کے درمیان جنگ تھی ۔ برطانیہ اور فرانس جیسی مغربی یورپی سلطنتوں کی دنیا بھر میں سمندر پار کالونیاں تھیں ، جب کہ مشرقی سلطنتوں جیسے آسٹریا ، ہنگری اور روس نے زمینی راستے سے جڑے ہوئے یورپی اور شمالی ایشیائی علاقوں پر حکومت کر رکھی تھی ۔ آج میں تاریخ کے طاق پر رکھے ان حقائق کو آپ کیساتھ شئیر کرہا ہوں جن کے بارے میں عام طور پر ہم سوچتے نہیں صرف جتنا پڑھا یا سنا تھا اس حد تک ہمیں علم ہے لیکن یہ تحریر پڑھ کر آپ کو کچھ مزید معلومات ملیں گی کہ یہ جنگ کب ہوئی ، کہاں شروع ہوئی ، کب تک ہوئی اور سب سے اہم سوال کہ کیوں ہوئی ؟
1800 کی دہائی کے آخر اور 1900 کی دہائی کے اوائل کے دوران یورپ میں ہتھیاروں کی ایک بڑی دوڑ شروع ہوئی ، کیونکہ ہر بڑی طاقت نے ہتھیار بنانے کے معاملے میں ایک دوسرے س آگے بڑھنے کی کوشش کی ۔ جرمنی اپنی بڑھتی ہوئی فوجی اور صنعتی طاقت پر فخر کرتا تھا ۔ فرانس ، اس دوران ، ایک اہم یورپی طاقت کے طور پر اپنی پوزیشن واپس لینا چاہتا تھا ۔ 1871 میں فرانکو – پورشین جنگ ہارنے کے بعد بہت سے فرانسیسی لوگ جرمنوں سے بدلہ لینا چاہتے تھے ۔ اسی طرح برطانیہ اور جرمنی کے درمیان ان کی بحری افواج کو لے کر ایک شدید ترین دشمنی تھی ، یاد رہے کہ پہلی جنگ عظیم کے وقت دنیا کی تین عظیم ترین قوموں کے حکمران ایک طرف برطانیہ کے بادشاہ جارج پنجم ، روس کے زار نکولس دوم اور دوسری طرف جرمنی کے قیصر ولئیم دوم آپس میں کزن تھے ان کی دادی ملکہ وکٹوریہ تھیں ۔ ہتھیاروں کی دوڑ سے بڑھتی ہوئی کشیدگی اور شکوک و شبہات نے ملکوں کو اتحاد بنانے پر مجبور کیا ۔ یہ اتحاد کئی ممالک کے درمیان معاہدے تھے تاکہ کسی حملے کی صورت میں ایک دوسرے کا دفاع کرسکیں ۔
1914 تک کئی بڑے اتحاد بنے لیکن دو ایسے اتحاد تھے جو بہت ہی مضبوط ہو ئے
1۔ ٹرپل انٹیٹی جسمیں برطانیہ، فرانس اور روس شامل تھے اور دوسرا ،
2۔ ٹرپل الائنس جس میں جرمنی ، آسٹریا – ہنگری ، اور اٹلی شامل تھے ۔
جیسا کہ آپ پڑھتے ہوۓ محسوس کر رہے ہوں گے کے ایک تناؤ سا بنتا جارہا تھا لیکن اب تک صرف بلیوں کی لڑائی کی طرح صرف دور دور سے میاؤں میاؤں ہو رہی تھی لیکن جنگ کا بہانہ نہیں بن رہا تھا ۔ اب میں آپ کو وہ وجہ بتاتا ہوں جس کا کہیں ذکر نہیں ملے گا نہ اس شخص کا نہ اس کے ملک کا لیکن یہ وہ مہم اور مرکزی کردار ہے جس کی وجہ سے جنگ جنہوں نے کرنی تھی انہیں ایک بہانہ مل گیا ۔ تو ہوا کچھ یوں کہ آسٹریا کا ولی عہد آرچ ڈیوک فرانز فرڈینینڈ 28 جون 1914 کواپنی اھلیہ کے ہمراہ بوسنیا کے دارالحکومت سراجیوو سے گزر رہا تھےجہاں ان کی کالونی تھی جسے سرب دل سے قبول نہیں کرتے تھے اور سربیا کی ایک انتہاءپسند تحریک بلیک ہینڈ نے آرچ ڈیوک اور اس کی اہلیہ کو مارنے کے لیے بمباری کا منصوبہ بایا ، لیکن جب ان کی کار کا اچانک راستہ بدل گیااور ان کی گاڑی بمب بلاسٹ سے بچ گئی تو گیوریلو پرنسپ نامی شخص جو ان تعاقب میں تھا اور دوسرے موڑ پر گھات لگائے بیٹھا تھا اس نے سامنے آکر آرچ ڈیوک اور اس کی بیوی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا ۔ فرانز فرڈینینڈ کے قتل کے بعد یورپ کی بڑی اقوام نے ردعمل کا اظہار کیا ۔ ہر مخالفانہ عمل دوسرے ردعمل کا باعث بنتا ہے اور ڈومینوز کی طرح یورپ کے ممالک بھی جنگ کی لپیٹ میں گئے۔
1۔ آسٹریا ہنگری نے سربیا کو قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا اور سربیا سے سخت مطالبات کئے ۔
2۔ سربیا نے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا ۔
3۔ آسٹریا ہنگری نے 28 جولائی 1914 کو سربیا کے خلاف جنگ کا اعلان کیا ۔
4۔ روس جو ایک سلاوی قوم تھا اور سربیا کا دوست بھی اس نے جنگ کی تیاری میں اپنی فوج کو متحرک کردیا ۔
۔ آسٹریا ہنگری کے اتحادی جرمنی نے روس کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ۔5
6۔ جرمنی نے فرانس کے خلاف اعلان جنگ کیا ، جو روس کا اتحادی تھا ۔
7۔ جرمنی نے 3 اگست 1914 کو بیلجیم پر حملہ کیا ، تاکہ جرمن افواج فرانس میں آسانی سے داخل ہو سکیں ۔
8۔ برطانیہ نے جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا ۔
یورپ کی بڑی طاقتیں جنگ میں تھیں جنگ سے پہلے کے دو اتحاد ، ٹرپل اینٹنٹ اور ٹرپل الائنس ، بدل گئے اور نئے ممالک شامل ہوگئے۔ ان کے نام بھی بدل گئے کیونکہ وہ مرکزی طاقتیں اور اتحادی طاقتیں بن گئے ۔
اس طرح آسٹریا اور سربیا کی آپسی چپقلش کی وجہ سے بےگانوں کی شادی میں دیوانوں کو انٹری مل گئی اور دنیا تباہی کے ایک ایسے دھانے سے گزری کے جس سے کئی سلطنتیں ٹوٹ گئیں یا اپنے الحاق کی وجہ سے یا براہ راست شامل ہو کر ۔
( جاری ہے )
شاندار بخاری
مسقط، سلطنت عمان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔