کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا!
اب ایسا لگ رہا ہے کہ چار روزہ جنگ بندی کے دوران اسرائیل نے سوشل میڈیا پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ گذشتہ کئی دہائیوں سے شور تھا کہ پوری دنیا کا میڈیا یہودیوں کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن موجودہ اسرائیل فلسطین جنگ میں سوشل میڈیا کی طاقت نے کھل کر فلسطینیوں کا ساتھ دیا۔ یہاں تک کہ امریکہ اور یورپی ممالک میں فلسطینیوں کے حق میں اربوں انسانوں نے اسرائیل، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف احتجاج کیا جس میں "مستقل جنگ بندی” اور "دو ریاستی” حل کی تجاویز پر زور دیا گیا۔ امریکہ وائٹ ہاو’س کے سامنے 2ارب، لندن تفالگر سکوئیر میں 10لاکھ اور پیرس میں بھی کم و بیش 8لاکھ مظاہرین اکٹھے ہوئے۔ اس موقع پر 66% امریکی شہری صدر جوبائیڈن کے خلاف ہو گئے۔ اسی طرح سپین کی تاریخ میں سب سے بڑا احتجاجی مظاہرہ ہوا جس میں ایک ارب سے زیادہ مظاہرین شامل ہوئے۔ خود اسرائیل میں اسرائیلی صدر نیتن یاہو کو اپوزیشن نے آڑے ہاتھوں لیا اور پرو فلسطینی یہودیوں نے اسرائیل کو چھوڑ کر احتجاجا مغربی ممالک میں شفٹ ہونا شروع کر دیا۔ اسرائیل فلسطین جنگ کے خلاف یہ مظاہرے سوشل میڈیا کی مہربانی سے ایک قسم کا "بیک فائر” تھا جس کی وجہ سے اسرائیل کی حمایت کرنے والی مغربی حکومتوں کے خلاف خود ان کی عوام نے ردعمل ظاہر کیا۔ اس صورتحال کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے بہت جلد بھانپ لیا جس کے بعد اس نے امریکی صدر جوبائیڈن کے ذریعے مصر اور قطر پر دباؤ ڈلوا کر چار روزہ جنگ بندی کروا لی جس کے خاتمے کے اگلے ہی روز صہیونی ایئر فورس نے عزہ پر حملے کر کے 180فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔
اس سے اگلے دن اردنی فیلڈ اسپتال پر فضائی حملہ کیا گیا، جس میں درجنوں شہادتیں ہوئیں اور سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔ اسرائیلی فوج غزہ کے الشفا ہسپتال میں بھی دوبارہ داخل ہوئی، اور اسپتال کے داخلی راستے کے کچھ حصوں کو بھی تباہ کر دیا، بیسمنٹ سمیت ہاسپٹل کے مختلف حصوں کی تلاشی لی گئی جہاں سے یرغمالی ملے اور نہ ہی کسی سرنگ کا نشان ہاتھ آیا۔ جنگ کو دوبارہ شروع ہوئے چار روز گزر گئے ہیں اور صہیونی حکومت ایک بار پھر غزہ پر آگ برسی رہی مگر پہلے کی طرح سوشل میڈیا فلسطین نسل کو کوریج دے رہا ہے اور نہ ہی مستقل جنگ بندی کے کوئی آثار نظر آ رہے ہیں۔
آغاز میں عارضی جنگ بندی کو مستقل جنگ بندی کا پیش خیمہ قرار دیا جا رہا تھا مگر ایسا کچھ نہیں ہوا اور چار روزہ جنگ بندی کے بعد اسرائیل کی وحشت پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ خبررساں اداروں کے مطابق غزہ میں اسرائیلی حملوں میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 14 ہزار 128 تک پہنچ گئی ہے، جبکہ 33 ہزار سے زائد زخمی ہیں۔ غزہ کا پورا انفراسٹرکچر کھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے اور کمیونیکیشن کا نظام مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا (تاکہ سوشل میڈیا کا دباو’ بھی ختم ہو جائے)۔
فلسطین پر اسرائیلی وحشیانہ بمباری تا حال جاری ہے مگر افسوس کا مقام ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان مل کر بھی فلسطین کو اسرائیل کی ننگی جارحیت سے بچا نہیں پا رہے ہیں۔ اسرائیل غزہ میں ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور دنیا بھر کے مسلم ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور ایٹمی قوت بھی ہے جس نے بہت دیر کے بعد اسرائیلی حملوں کے خلاف آواز اٹھائی تو چند دیگر اسلامی ممالک نے بھی اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی۔ جبکہ سعودی عرب نے عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کا دعوی بھی دائر کیا۔ ایران جنگ کے آغاز میں اسرائیل کو للکارتا رہا تھا مگر بعد میں (کسی مصلحت کا شکار ہو کر) وہ بھی ٹھنڈا پڑ گیا اور چار روزہ جنگ بندی کے بعد ابھی تک اس نے فلسطین کا ساتھ دینے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا ہے۔
گزشتہ روز اسرائیلی طیاروں نے وسطی غزہ کے علاقے سبرا میں مسجد پر اس وقت بمباری کی جب باجماعت نماز جاری تھی اور مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی۔ اسرائیل کی جانب سے رات گئے طیاروں سے پمفلٹ گرائے گئے تھے جس میں شہریوں سے کہا گیا تھا کہ وہ خان یونس کے مشرقی کنارے پر واقع بانی شوہیلہ، خْزہ، اباسان اور قرارہ کے علاقوں کو خالی کر دیں ورنہ سب کو ہلاک کر دیا جائے گا۔
ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں کہ اگر جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف ہو تو پورا جسم تڑپ اٹھتا ہے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے مسلمان اپنی شناخت اور حمیت کھو چکے ہیں جس وجہ سے انہیں فلسطینیوں کا درد محسوس ہی نہیں ہو رہا ہے۔ اسرائیلی افواج مسلسل مساجد اور اسپتالوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ اسرائیل نے حماس کے سربراہ اور غزہ کے وزیراعظم اسماعیل ہنیہ کے گھر کو فضائی حملے میں مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ اسرائیلی فورسز نے مقبوضہ مغربی کنارے میں گھروں پر چھاپے مار کر 69فلسطینیوں کو بھی حراست میں لیا ہے۔ اسی دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ جنگ میں وقفے اور امدادی راہداریوں کو کھولنے کی قرارداد کو منظور کیا مگر اسرائیل نے اسے مسترد کر دیا، اور امریکہ نے بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اسرائیل کا بھرپور ساتھ دینے کا دوبارہ اعلان کیا۔ لیکن اپنے فلسطینی مسلمان بھائیوں کے لیئے مسلمان ملکوں میں اتنی بھی کسک باقی نہیں رہی کہ وہ مستقل جنگ بندی کے لیئے کم سے کم روس و چین سے مل کر اسرائیل اور امریکہ پر سفارتی دباو’ ہی قائم کر سکیں:
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
Title Image by hosny salah from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔