امارت ایک ذہنی حالت ہے۔ آپ تسلیم کریں کہ آپ پیسے والے یا امیر آدمی بننا چاہتے ہیں تو پہلے اپنے اندر دولت اور پیسہ کمانے کی صلاحیت پیدا کریں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی غریب آدمی اس وقت تک امیر نہیں بن سکتا ہے جب تک وہ اندر سے امیر نہ ہو۔
آپ نے یہ محاورہ اکثر سنا ہو گا کہ، "وہ دل کا بادشاہ ہے” اس مطلب ہی یہ ہے کہ امارت کا محل پہلے آپ کے ذہن اور خواب میں بنتا ہے اور حقیقت کا مادی روپ وہ بعد میں دھارتا ہے۔ اس کی مثال اشکال جیسی ہے جو دماغ میں پیدا ہوتی ہیں اور مواقع کی صورت میں عملی حقیقت کا روپ دھارتی ہیں۔ ایک تناور اور پھلدار درخت کی بھی یہی مثال ہے کہ اس کے بیج کے اندر ہی پودے کے مستقبل کی ساری اشکال موجود ہوتی ہیں۔ سمجھ لیں کہ آپ مالدار اور امیر آدمی بننا چاہتے ہیں تو پہلے خود کو اس کام کو زہنی، عملی اور جسمانی طور پر انجام دینے کے لیئے خود کو تیار کریں۔
بل گیٹس سے ایک بار کسی صحافی نے پوچھا کہ آپ اپنی بیٹی کی شادی صرف کسی امیر آدمی سے کیوں کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے اس سوال کی بڑی خوبصورت وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا: "پہلے یہ سمجھیں کہ دولت کا مطلب صرف بینک اکاؤنٹ میں پیسہ ہونا نہیں ہے۔ دولت سب سے پہلے دولت پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ مثال کے طور پر لاٹری کا ایک فاتح یا جواری چاہے وہ 100 ملین بھی جیت لے وہ امیر آدمی نہیں ہے کیونکہ وہ ایک غریب آدمی ہے جس کے پاس پیسہ ہے، کہ بات سچ بھی ہے کہ نوے فیصد لاٹری کے فاتح پانچ سال کے اندر پھر سے غریب ہو جاتے ہیں۔”
دنیا میں آپ ایسے امیر لوگ بھی دیکھیں گے جن کے پاس پیسہ نہیں ہوتا مگر وہ دل کے امیر ہوتے ہیں مثال کے طور پر زیادہ تر کاروباری افراد دولت کی راہ پر چل رہے ہوتے ہیں، چاہے ان کے پاس پیسہ نہ ہو، کیونکہ وہ اپنی مالی ذہانت اور دولت کو ترقی دے رہے ہوتے ہیں۔
آسان لفظوں میں اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں تو ایک امیر اور غریب آدمی میں فرق یہ ہے کہ امیر لوگ دولت کمانے کے لئے محنت کرتے ہیں، اپنے فن اور ذہانت کو بروئے کار لاتے ہیں اور پیسہ کماتے کماتے مر بھی سکتے ہیں، مگر ایک دل کا غریب شخص شارٹ کٹ ڈھونڈتا ہے، دھوکہ دہی سے کام لیتا ہے اور چوری تک کرتا ہے حتی کہ وہی غریب دولت کمانے کے لئے بعض دفعہ دوسروں کو قتل تک کر دیتے ہیں۔
بل گیٹس نے مزید کہا تھا کہ اگر آپ کسی نوجوان کو دیکھیں جو تربیت حاصل کرنے، نئی چیزیں سیکھنے اور مسلسل اپنی بہتری کی کوشش کرتا ہے، تو آپ جان جائیں کہ وہ ایک امیر آدمی ہے۔
اس کے برعکس اگر آپ کسی نوجوان کو دیکھیں جو یہ سمجھتا ہے کہ یہ مسئلہ تو ریاست کا ہے اور وہ امیروں کو دیکھ کر کڑھتا رہتا ہے، ان سے حسد کرتا ہے یا انہیں چور سمجھ کر مسلسل ان پر تنقید کرتا رہتا ہے، تو آپ جان جائیں کہ وہ ایک غریب آدمی ہے۔
اکثر امیر لوگوں کا ماننا ہے کہ انہیں صرف معلومات اور تربیت کی ضرورت ہے تاکہ وہ کامیاب ہو سکیں، غریب لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دوسروں کو انہیں پیسہ دینا ہو گا تاکہ وہ کامیاب ہو سکیں۔ بل گیٹس نے کہا، "آخرکار، جب میں کہتا ہوں کہ میری بیٹی کسی غریب آدمی سے شادی نہیں کرے گی، تو میرا مطلب پیسہ نہیں ہے میرا مطلب یہ ہے کہ اس شخص میں دولت پیدا کرنے کی صلاحیت ہو۔
میں جو کچھ کہنے جا رہا ہوں، اس کے لئے معذرت چاہتا ہوں، لیکن زیادہ تر مجرم غریب لوگ ہوتے ہیں۔ جب ان کے سامنے پیسہ آتا ہے تو وہ پاگل ہو جاتے ہیں اور چوری کرنے لگتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔”
میرے خیال میں ایسے مجرم پیشہ، کم چور اور لالچی لوگ کبھی امیر نہیں بن سکتے ہیں۔ ان کے لئے یہ محنت کرنا اور مخلص نیت کا انسان بننا کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا ہے کیونکہ انہیں اس بات کا علم نہیں ہوتا ہے کہ خود پیسہ کیسے کمایا جا سکتا ہے۔
ایک دن ہمارے ایک دوست یاسر ٹیلیفونوں والے نے ایک بڑے کام کی بات بتائی کہ امارت کا اعلی ترین درجہ یہ ہے کہ دوسروں کو امیر ہوتے ہوئے دیکھ کر خوش ہوا جائے۔ یہ امیر بننے کا ایک نادر نسخہ ہے۔ اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ آپ کی وسیع ذہنی حالت اس غلہ کی مانند ہے جس میں پیسہ فراوانی سے گرتا ہے۔ مقولہ مشہور ہے کہ، "پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے۔” یہ نہیں ہو سکتا کہ گاہک ایک دکاندار سے کچھ خریدے تو اسے رقم ادا کرنے کے لیئے اسے زمین پر پھینک دے بلکہ وہ رقم اس غلہ یا تجوری میں گرتی ہے جہاں پہلے ہی پیسہ پڑا ہوتا ہے۔ زمین پر پڑا ہوا سکہ دوسرے سکوں کو اپنی طرف نہیں کھینچا سکتا مگر غلہ میں پڑا زیادہ پیسہ کم پیسوں کو اپنی طرف ضرور کھینچتا ہے کہ اسی لیئے کہا جاتا ہے کہ پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے۔
اگر آپ دل کے غریب ہیں یا دوسرے امیروں سے حسد کرتے ہیں تو آپ کبھی امیر آدمی نہیں بن سکتے ہیں۔
ایک دن ایک بینک کے سیکیورٹی گارڈ کو پیسوں کا ایک بیگ ملا، اس نے بیگ لے کر بینک کے منیجر کو دے دیا۔
لوگوں نے اس شخص کو بے وقوف کہا، لیکن حقیقت میں وہ شخص صرف ایک امیر آدمی تھا جس کے پاس پیسہ نہیں تھا۔ ایک سال بعد، بینک نے اسے منیجر کی پوسٹ آفر کی، تین سال بعد وہ گاہکوں کا انچارج بن گیا، دس سال بعد وہ بینک کے علاقائی دفتر کا انچارج بن گیا، وہ سینکڑوں ملازمین کو منظم کرتا تھا اور اس کا سالانہ پریمیم اس رقم سے کئی گنا زیادہ تھا جو وہ چوری کر سکتا تھا۔
آپ جتنا بھی کماتے ہیں جاب پیشہ ہیں یا بزنس مین ہیں یہ بات ذہین نشین کر لیں کہ امیر آدمی بننا ہے تو پہلے امیر لوگوں جیسا ذہن تیار کریں جس کی بنیاد امارت کے اصولوں اور محنت و ایمانداری پر ہو ناکہ حسد، کینے اور چوری پر ہو۔ ایسی معیاری، پائیدار اور کردار کی دولت انسان کے ساتھ جاتی ہے۔ باقی پیسے اور سکے تو آج تک دنیا کا کوئی بھی انسان ساتھ لے کر نہیں گیا۔ دل کا امیر بننا پیسے کے امیر بننے سے زیادہ بہتر ہے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |