آزمودہ را آزمودن جہل است
پرانے زمانے کے ایک بادشاہ کے پاس دو شکاری باز تھے۔ ایک باز اڑتا تھا جبکہ دوسرا باز بادشاہ کے باغیچے میں ایک درخت کی ٹہنی پر بیٹھا رہتا تھا۔ کافی عرصہ گزر گیا مگر اس باز نے اڑنے کا نام نہیں لیا۔ بادشاہ سلامت کو اس باز کی بیماری کے بارے فکر لاحق ہوئی تو بادشاہ نے ملک بھر سے پرندوں کے طبیب بلائے مگر سب نے اس باز کو صحت مند قرار دیا۔ تب بادشاہ نے پرندوں کے ماہرین کو بلا بھیجا مگر کسی کی ایک نہیں چلی۔ بلآخر بادشاہ کے ہاتھ ایک سیانا لگا جس نے باز کے رکھوالے سے اس کاہل باز کی تمام معلومات اکٹھی کیں، اس ٹہنی کا جائزہ لیا جس پر وہ باز بیٹھنے کا عادی ہو چکا تھا اور ایک دن موقع پا کر اس سیانے نے پہلے باز کی خوراک بند کروائی اور پھر اگلے روز اس درخت کی ٹہنی ہی کو کٹوا دیا جس پر وہ باز بیٹھ کر سوچتا رہتا تھا کہ زندگی بس کسی ایک شاخ پر بیٹھ کر وقت گزارتے رہنے کا نام ہے۔
ہم میں سے بہت سے لوگ زندگی میں ایک خاص قسم کی ذہنی کیفیت یا نفسیات میں رہنے کے عادی ہو جاتے ہیں جس میں محبت، جنون، نشہ، جنسیت یا سستی اور کاہلی وغیرہ سرفہرست ہیں۔ ان سب سے بڑا اور منفی "سیاسی مائنڈ سیٹ” ہے جس کا شکار پورا ملک اور معاشرہ ہو جاتا ہے۔ کائنات کے "بلیک ہول” کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کسی بڑے ستارے کی موت کا ایک ایسا "کالا گڑھا” ہے جہاں سے کوئی مادی چیز بچ کر نہیں نکلتی۔ حتی کہ تین لاکھ فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرنے والی روشنی بھی بلیک ہول میں جا کر پھنس جاتی ہے۔ جب معاشروں، ملکوں اور انسانوں کی زندگی میں ایسی کوئی "نحوست” پیدا ہو جاتی ہے تو وہ بلند پروازی سے یکسر محروم ہو جاتے ہیں۔ یہ زہنی کیفیت کسی بھی انسان کی زندگی میں پیدا ہو سکتی ہے اور اس کا دورانیہ چند لمحے، دن، مہینے، سال اور عمر بھر بھی ہو سکتا ہے۔ ایک بار کوئی آدمی ایسی دماغی کیفیت کا شکار ہو جائے تو پھر وہ عمربھر کے لئے بھی بیکار ہو سکتا ہے۔
حالانکہ انسانی دماغ لامحدود ہے اور اس میں اتنی پوٹینشل ہے کہ وہ اس نوع کی وقتی زہنی دلدل سے نکل کر نہ صرف خود کو فتح کر سکتا ہے بلکہ وہ پوری کائنات پر بھی تصرف حاصل کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔
ایک عرصہ ہوا بلکہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہم "فلیکسیبل مائنڈ سیٹ” کی بجائے "فکسڈ مائنڈ سیٹ” کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ اس بار کہا یہ جا رہا ہے کہ 15 سے 25 بلین ڈالرز کیساتھ نوازشریف کی واپسی ہوئی ہے اور دو سے تین سالوں میں پاکستان میں بہت کچھ تبدیل ہونے جا رہا ہے۔ کیا یہ عوام الناس کے "مائنڈ سیٹ” کو خوش فہمی میں بدلنے کی نئی "واردات” نہیں ہے جس کے اندر کی کہانی دبئی سے خصوصی طیارے سے اسلام آباد اور وہاں سے ایک اور خصوصی طیارے سے لاہور پہنچنے سے شروع ہوتی ہے اور نواز شریف کے ہاتھ پر "سفید کبوتر” بٹھانے پر آ کر ختم ہو جاتی ہے۔ کیا یہ سفید کبوتر پاکستان اور مشرق وسطی میں "امن کی فاختہ” کا خفیہ پیغام ہے؟ ایک طرف فلسطین میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے دوسری طرف میاں محمد نواز شریف کا استقبال جہاز سے پھول کی پتیاں پھینکنے سے کیا گیا۔ کیا یہ عوام کے ذہن (Mass Mind) کو دوبارہ میسمیرائز کرنے کی کوشش نہیں ہے؟ یہ میاں نواز شریف وہی ہیں جو پہلے ہی 3دفعہ "وزارت عظمی” پر بٹھا کر آزمائے جا چکے ہیں اور جن کا "خاندان” پچھلے 35سال سے زیادہ عرصے سے "لاہور” اور "اسلام آباد” کے تخت پر بیٹھتا چلا آ رہا ہے۔ "آزمودہ را آزمودن جہل است” کیا نوازشریف صاحب پاکستانیوں کو لوٹا ہوا پیسہ لوٹانے کے لئے واپس "جاتی عمرہ” کے محل میں تشریف لائے ہیں یا پھر "بیرونی طاقتوں” کو پاکستان کی غریب عوام پر ترس آ گیا ہے؟ شائد ایسا کچھ نہیں ہے. درون خانہ بات یہ ہے کہ نوازشریف کو بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ خصوصاً امریکہ و برطانیہ سے ایک بہت ہی خاص "ڈیل” کے تحت پاکستان واپس لایا گیا ہے۔پہلے خان حکومت گرائی گئی، پھر سولہ سترہ مہینے خوب مہنگائی کی گئی، ساتھ ساتھ امن و امان کی صورت حال خراب کی گئی. اب نواز شریف کو قوم کا "مسیحا” بنا کر پیش کرنے کی آخر کیا ضرورت آن پڑی ہے کہ وہ ملک میں بلین آف ڈالرز لائیں گے. جبکہ شہباز شریف کے دور میں ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان سے پہلے ہی اپنا کاروبار سمیٹ کر جا چکی ہیں۔ یہ کمپنیاں واپس آئیں گی، سعودیہ، قطر اور یو اے ای بھی سرمایہ کاری کریں گے، امریکہ، برطانیہ، یورپ، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف بھی قرضے اور امداد دیں گے۔ یوں پاکستان کے بھوک سے مرتے عوام کو جب کچھ ریلیف ملے گا تو وہ سکھ کا سانس لیں گے اور خاموش بیٹھ جائیں گے۔ ان کو اس بات سے کوئی پرواہ نہیں ہو گی کہ ان کی آزادی و خود مختاری کو بیچ دیا گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ بلین آف ڈالرز کیا پاکستان کو فری میں ملیں گے اور آخر نواز شریف ہی کیوں؟ پہلے بھی تو ملک میں اسٹیبلشمنٹ کا راج ہے تو یہ کام "سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹرز” بھی تو کر سکتے تھے، آخر نواز شریف ہی کو اس مقصد کے لیئے کیوں استعمال کیا جا رہا ہے؟
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ بقول عمران خان صاحب "مفت کا کھانا نہیں ملتا” (There is no free lunch) کہ ان بلین آف ڈالرز کے عوض پاکستان نے تین شرائط ماننی ہیں (جو پہلے ہی تقریباً مانی جا چکی ہیں، صرف اعلان ہونا باقی ہے) اول کشمیر سے مکمل دستبردار ہونا یا پاکستان کے زیر کنٹرول کشمیر بھی ہندوستان کو بخش دینا اور یا پھر لائن آف کنٹرول کو سرحد تسلیم کر لینا ہے جس کا فیصلہ زمینی حالات اور عوامی ردعمل کو دیکھتے ہوئے کیا جائے گا۔ اگر عوامی ری ایکشن کم ہوا تو اپنا کشمیر بھی ہندوستان کو دے دینا اور اگر عوامی ری ایکشن زیادہ ہوا تو کم از کم لائن آف کنٹرول کو سرحد مان لینا۔ دوم پاکستان کا "نیوکلیئر پروگرام” رول بیک کرنا۔ یہ پلان خفیہ بھی مکمل کیا جا سکتا ہے جس کی عوام کو کانوں کان خبر نہیں ہو گی۔ سوم یہ اور سب سے اہم "ٹاسک” یہ ہے کہ نواز حکومت "اسرائیل” کو تسلیم کرے گی جس کے لئے "طوفان الاقصی” پہلے ہی برپا کیا جا چکا یے۔ یہ سب اعلانیہ ہو گا جس پر سب سے زیادہ عوامی ردعمل آئے گا۔ مگر اس سے پہلے عوام کا "مائینڈ سیٹ” بنانا ہو گا یہ بھی دو طرح سے کیا جائے گا کہ ایک تو تاجر برادری کو سامنے لایا جائے گا جو پاکستان اسرائیل کے تجارتی روابط کے فوائد بتائیں گے دوسرا "مخصوص مذہبی راہنماؤں” کو یہ سونپا دیا جا سکتا ہے کہ عوام کو بتائیں کہ اسرائیل کا ذکر قرآن میں بار بار آیا ہے اور یہ کہ احادیث شریف میں ہے کہ "اللہ آخری زمانے میں یہودیوں کو ایک جگہ اکھٹا کرے گا” جب یہ اللہ کی مرضی ہے تو ہم انسان اس میں کیا کر سکتے ہیں!
گزشتہ رات کی اسرائیلی بمباری میں بھی 182بچوں سمیت 436فلسطینی شہید ہوئے، اسرائیلی حملوں میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 5 ہزار 87 ہو گئی۔ ایسی انسانیت سوز غلط عالمی سیاست کا انجام آخر کب ہو گا۔ کیا خلافت و خدمت کا متضاد عالمی سیاست کا یہی مقصود ہے کہ انسانی اقدار کو ختم کر کے دنیا پر شیطانی حکومت قائم کرنی ہے؟
Title Image by Steve Buissinne from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |